دہشت گرد کون

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سارے مسلمان دہشت گرد ہیں لیکن جو بھی دہشت گردی میں ملوث پایا جاتا ہے وہ مسلم ہی کیوں ہوتا ہے۔


راؤ سیف الزماں December 18, 2014
[email protected]

QUETTA: سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی سالی لورین بوتھ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں کہا ''اگر مجھ سے یہ سوال پوچھا جائے کہ ایک انگریز صحافی ایک نام نہاد دو بچوں کی ماں نے مغربی میڈیا کے سب سے ناپسندیدہ مذہب کو کس طرح قبول کیا تو اس کے جواب میں، میں اپنے اس انتہائی روحانی تجربے کا حوالہ ضرور دینا چاہوں گی جو مجھے ایران کی ایک مسجد میں ہوا۔ جس نے میرے دل کی دنیا بدل دی۔

مگر اسلام قبول کرنے کے حوالے سے اگر ماضی میں جھانکا جائے تو اس کی بنیاد غالباً اس وقت پڑ گئی تھی جب میں جنوری 2005 میں اکیلی فلسطینی علاقے West Bank(مغربی کنارہ) میں برطانوی جریدے "The Mail" کے لیے فلسطینی صدارتی انتخابات کی کوریج کے لیے یہاں پہنچی تھی۔ یہاں میں یہ بات واضح کردوں کہ اپنے اس سفر سے پہلے مجھے کبھی بھی مسلمانوں یا عربوں کے ساتھ رہنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ جب میں نے اپنا مشرق وسطیٰ کا یہ سفر شروع کیا تھا تو میرا ذہن مغربی میڈیا کے اس پروپیگنڈے کی وجہ سے سخت مخدوش تھا جو اس دنیا کے اس حصے کے لوگوں کے بارے میں جاری رکھا ہوا تھا جو آپؐ کے پیروکار تھے۔

مغربی میڈیا انھیں بنیاد پرست، متعصب، مذہبی انتہا پسند، خودکش حملہ آور، اغوا کار اور جہادی قرار دے رہا تھا۔ جب کہ میرا یہ تجربہ ان تمام تصورات کے بالکل برعکس ثابت ہوا۔

میں فلسطینی مغربی کنارے کے علاقے میں اس حال میں داخل ہوئی تھی کہ میرے جسم پر میرا کوٹ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ تل ابیب کے ہوائی اڈے پر اسرائیلی حکام نے میرا سوٹ کیس اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور میں راملا کے مرکزی علاقے میں شدید سردی سے ٹھٹھرتی ہوئی چلی جا رہی تھی کہ یکایک ایک بوڑھی فلسطینی خاتون نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور تیزی سے عربی زبان میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے وہ مجھے ملحقہ گلی میں واقع ایک گھر میں لے گئی۔ سب سے پہلے میرے ذہن میں جس خدشے نے جنم لیا وہ یہ تھا کہ میں ایک بوڑھی عورت کے ہاتھوں اغوا ہوگئی ہوں۔

کئی منٹ تک میں اسے خاموشی سے اپنی بیٹی کے کمرے میں موجود کپڑوں کی الماری سے کچھ ڈھونڈتے ہوئے دیکھتی رہی۔ بالآخر اس نے الماری سے ایک کوٹ، حجاب اور ایک ٹوپی نکالی اور مجھے دے کر دوبارہ اسی گلی میں چھوڑ دیا جہاں سے وہ مجھے اپنے گھر لے گئی تھی۔میرے سر پر گرم جوشی سے بوسہ دیا اور اپنی راہ ہولی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سارے عمل کے دوران ہمارے درمیان ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہ ہوا۔ یہ سخاوت اور فیاضی کی ایک زندہ مثال تھی۔ جسے میں کبھی نہ بھول پاؤں گی۔''

قارئین کرام! اسلام اور مسلمانوں کے لیے جس دوسرے نقطہ نظر کو میں پیش کروں گا وہ لورین بوتھ سے کہیں مختلف ہے۔ مثلاً بھارت کے صوبے بہار کے ایک حلقے سے BJP کے امیدوار گری راج سنگھ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''کیا یہ صحیح ہے کہ جتنے دہشت گرد گرفتار کیے جاتے ہیں وہ سبھی مسلمان ہیں؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سارے مسلمان دہشت گرد ہیں لیکن جو بھی دہشت گردی میں ملوث پایا جاتا ہے وہ مسلم ہی کیوں ہوتا ہے؟'' راج سنگھ نے پاکستان کے متعلق نفرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ ''پاکستان دہشت گردوں کا مرکز ہے۔''

انڈین ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے لائیو پروگرام میں ایک ہندو طالبہ نے ایک مسلم عالم دین سے سوال کیا کہ ہر دہشت گرد مسلمان ہی کیوں ہوتا ہے؟ جواب دیتے ہوئے عالم دین نے دریافت کیا کہ مہاتما گاندھی کو جس نے قتل کیا، کیا وہ مسلمان تھا؟ اندرا گاندھی کو جس نے قتل کیا، کیا وہ مسلم تھا؟ راجیو گاندھی کو خودکش بم سے ہلاک کرنے والے مسلمان تھے؟ بابری مسجد کو شہید کرنے والے کون تھے؟ دہلی کی سڑکوں پر ہزاروں سکھوں کی گردنیں کاٹنے والے کس مذہب کے لوگ تھے؟ گجرات کے گلی کوچوں میں جن معصوم لوگوں کو قتل کیا گیا اور بے گھر کیا گیا اس کے ذمے دار مسلمان تھے؟ برائی برائی ہوتی ہے آپ اسے مذہب کے زاویے سے کیوں دیکھتے ہیں۔

حتیٰ کہ بھارت کے ایک بزرگ کالم نگار اور بین الاقوامی سطح کے صحافی سوامی ناتھن ایار نے اپنے ایک مضمون میں اس موضوع پر باقاعدہ بحث کرتے ہوئے کچھ حقائق بیان کیے۔ آئیے! ذرا انھیں بھی سنتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''دہشت گردی مسلمانوں کا خاصہ ہرگز نہیں ہے۔ پچھلے 250 سالوں میں بے گناہ انسانوں کا جو قتل عام عیسائیوں کے ہاتھوں ہوا، پوری انسانی تاریخ میں کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کے ہاتھوں ایسا ظلم عظیم نہیں ہوا۔ دوسری جنگ عظیم میں بے شمار یہودیوں کو گیس چیمبرز میں ڈال کر جلا دیا گیا۔ تاریخ میں رقم ہونے والی سب سے بڑی دہشت گردی ایٹم بم کے حملے تھے۔ جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کرکے لاکھوں بے گناہ اور معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔

سوامی ناتھن ایک معروف ہندو قلمکار ہیں اور اکنامک ٹائم کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ وہ اپنی دو تصنیف شدہ کتابوں Towards Globalisation اور Swaminomics میں لکھتے ہیں ''جب آپ سیاسی مفادات کی خاطر سویلین کو قتل کرتے ہیں تو اس کو دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ 1881 میں روس کے حاکم الیگزنڈر دوئم کو 21 ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا گیا۔ 1901 میں امریکی صدر مکنلے اور اٹالین بادشاہ ہمبرٹ کو قتل کیا گیا۔ 1941 میں آسٹریا کے آرکڈیوک کو ہلاک کیا گیا جس کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی۔

انگریزوں کے دور میں آزادی کی جنگ لڑنے والے بھگت سنگھ اور چندرا سبکر کو انگریزوں نے دہشت گرد کے خطاب سے نوازا تھا۔کیا یہ سب مسلمان تھے؟ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد فلسطین پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا اور فلسطینیوں کو دہشت گرد کہہ کر قتل کرنا شروع کردیا جو ہنوز جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں، عراق، افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا اور بعض اوقات محض افواہوں کی بنیاد پر ایسا کیا گیا۔

قارئین کرام! میرا مقصد ان واقعات کے بیان کرنے سے ہرگز کسی مذہب کو یا اس کے ماننے والوں کو دہشت گرد کہنا نہیں بلکہ میرا ماننا ہے کہ ہر مذہب کی تعلیم امن اور پیار و محبت پر مبنی ہے اور ہر قوم میں اچھے برے دونوں طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ انسان اپنے ارتقائی دور سے لے کر موجودہ ترقی پذیر دور تک جہاں جہاں آپس میں یا ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوا۔ اس کی وجہ جغرافیائی، علاقائی، سیاسی یا نسلی برتری رہی۔ محض یہ طے کرلینا اور مان لینا کہ کوئی ایک مذہب اور اس کے پیروکار دہشت گرد ہیں۔ سراسر غلط اور از روئے حقائق ایک بڑے جھوٹ پر مبنی ہے۔ کیونکہ آج بھی جس مذہب کو سب سے زیادہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ اسلام ہے۔

اسلام کی تعلیم، قرآن پاک کا موضوع اور آپؐ کی احادیث کی بنیاد ہی انسانیت ہے۔ اللہ کا حکم واضح ہے کہ ''عفو و درگزر اور معافی سے کام لو یہاں تک کہ تمہیں بخش دیا جائے۔'' لیکن میں اور مسلمانان عالم اس حقیقت سے انحراف نہیں کرسکتے کہ ہم قرآن پاک کو محض قدروں کی کتاب نہیں سمجھتے بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ اس کی تعلیم، الٰہی احکامات زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ واحد ہے۔ وہ تمام اشیا کا خالق اور مالک ہے۔ جن سے ہم واقف ہیں یا جن کی واقفیت ہم نہیں رکھتے۔ اگرچہ اللہ نے اجازت دی کہ Eye Verses Eye, Hand Verses Hand, Slave Vs Slave, Man Vs Man لیکن پھر فرمایا کہ ''اور اگر معاف کردو تو معاف کرنا اللہ کی صفت ہے۔'' اللہ کلمہ توحید کو جہانوں اور زمانوں پر فضیلت عطا فرمائے آمین ۔ اگر یہ دہشت گردی ہے تو میں بسر و چشم اس کا اعتراف کرتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں