تھر کی ہلاکتیں اور مسئلے کا حل
کراچی شہر جو اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، ابتدا میں ماہی گیروں کی ایک چھوٹی بستی ’کولاچی جو گوٹھ‘ تھا۔
کراچی شہر جو اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، ابتدا میں ماہی گیروں کی ایک چھوٹی بستی 'کولاچی جو گوٹھ' تھا۔ 1772ء میں یہاں سے مسقط اور بحرین کے لیے تجارت ہوتی تھی۔ تجارت کے آغاز سے یہ علاقہ ایک گائوں سے تجارتی مرکز میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش کے وقت یہ ایک ترقی کرتا ہو ا شہر بن چکا تھا جہاں ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تجارتی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔
1880ء میں اس کی تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے اس شہر کو ریلوے لائن بچھا کر باقی ہندوستان تک جوڑ دیا گیا۔ اس وقت ا س کی آبادی تقریباً ساڑھے ستر ہزار تھی جو 1901ء میں ایک لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو گئی، قیام پاکستان کے بعد جب اس شہر کو دارالحکومت کی حیثیت ملی تو اس وقت اس کی آبادی لگ بھگ چار لاکھ تھی۔ جب کراچی کی دارالحکومت کی حیثیت ختم کر دی گئی تب بھی یہاں کی معاشی سرگرمیوں کے باعث یہ شہر ترقی کرتا رہا اور اس کی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ یہاں کی آبادی بھی بڑھتی رہی۔
انیس سو اسی اور نوے کی دہائیوں میں یہاں بدترین لسانی فسادات ہوئے مگر اس سب کے باوجود نہ یہاں کی بڑھتی آبادی رکی اور نہ ہی معاشی سرگرمیاں۔یوں اس شہر کی آبادی جو قیام پاکستان کے وقت محض چار لاکھ کے قریب تھی، آج غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کوئی دو کروڑ کے لگ بھگ خیال کی جاتی ہے، اس آبادی کی خاص بات یہ ہے کہ اس بڑھتی ہوئی آبادی میں ایک بہت بڑی تعداد صوبہ سندھ سے باہر کے لوگوں کی ہے۔
اب ایک سوال یہ ہے کہ آخر کیوں دوسرے صوبوں کے لوگ اس قدر بڑی تعداد میں یہاں آ کر آباد ہوئے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہاں کی معاشی سرگرمیوں اور روزگار کے مواقعوں کی بدولت۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی معاشی سرگرمیوں کی بدولت مہنگائی کے ہر دور میں یہاں سے لوگوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بسنے والے اپنے گھر والوں کے لیے بھی معقول رزق حاصل کیا، کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پیش نہ آئی بلکہ یہ شہر اب ملکی محصولات کی مد میں تقریباً پینسٹھ فیصد حصہ رکھتا ہے۔
دوسری طرف ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اس شہر سے کوئی سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دنیا کا تیسرا بڑا صحرا 'تھر' موت کی وادی بن چکا ہے کہ جہاں (ایک غیر سرکاری این جی او کے مطابق) گزشتہ سات برسوں میں پانچ بار قحط پڑنے کے باعث بارہ ہزار بچے ہلاک ہوئے۔ اس این جی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور میں قحط سے یہاں دس ہزار سے کہیں زائد بچے ہلاک ہوئے۔
پورے تھر میں آبادی دس لاکھ کے قریب ہے۔ اس وقت قحط کے باعث ہلاکتوں کی خبریں روزانہ ہی ذرایع ابلاغ پر آ رہی ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی غلطیاں اپنی جگہ مگر سوال یہ بھی ہے کہ کراچی شہر جو اس سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے وہ تو پورے ملک کے عوام کو معاشی سہارا دے رہا ہے مگر یہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، آخر کیوں ؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ معاشی سرگرمیاں شروع کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی حالانکہ یہاں کوئلے کے ذخائر ایک وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور سالٹ جھیلیں، گرینائٹ جیسی معدنیات اور چائنا کلے کے وسیع ذخائر بھی ہیں جس سے چینی کے برتن، سرامکس، ادویات، سیمنٹ، ڈسٹمبر اور رنگ وغیرہ کے استعمال کا مادہ بھی حاصل ہوتا ہے۔
ان معدنیات کی موجودگی کے باوجود یہاں معاشی سرگرمیوں کا نہ ہونا ناقص منصوبہ بندی کا مظہر ہے۔ یہاں بہتر منصوبہ بندی کر کے معاشی سرگرمیوں کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ سابق حکمران پرویز مشرف کے دور حکومت میں یہاں سڑکوں کا جال بچھایا گیا تھا مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث یہ خراب ہو گیا اور مواصلات کے رابطے بھی کمزور پڑ گئے۔ موجودہ حکومت نے اس علاقے میں اسپتال قائم کیے اور ترقیاتی کام بھی کیے ہیں لیکن یہاں کی غربت کا یہ حال ہے کہ غریب عوام کے پاس اسپتال پہنچنے کے لیے کرائے کے پیسے تک نہیں ہوتے۔
راقم کی ناقص رائے کے مطابق یہاں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے کر صورتحال کو بہت حد تک بدلا جا سکتا ہے۔ ہمارے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ اگر بھارت جانے کے لیے کھوکھرا پار کی سرحد کو کھول دیا جائے تو اس عمل سے بہت وسیع معاشی سرگرمیاں شروع ہوں گی اور خود بہ خود تھر کے علاقوں میں روزگار و کاروبار کے مواقعے بڑھیں گے جس سے یہاں کے عوام خوشحال ہوں گے اور علاقے کی تعمیر و ترقی کی راہیں بھی کھل جائیں گی۔
یقیناً یہ ایک اچھی اور معقول تجویز ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو اس سے سندھ کے ان باشندوں کو بھی بہت فائدہ ہوگا جو بھارت جانے کے لیے خاص کر ممبئی جانے کے لیے بلاوجہ ایک طویل سفر کر کے اپنا پیسہ اور وقت ضایع کرتے ہیں۔ اس وقت کراچی شہر سے بھارت جانے والوں کو پہلے تو ویزے کے حصول کے لیے اسلام آباد کے چکر لگانے پڑتے ہیں، پھر تمام مراحل طے ہو جانے کے بعد دو دن کا ریل کا سفر کراچی سے لاہور تک طے کرنے کے بعد بھارت کے سفر کا آغاز کرنا پڑتا ہے جو ظاہر ہے کہ تکلیف دہ بھی ہے، خاص کر بزرگوں کے لیے جن کا چند گھنٹوں کا سفر بھی آسان نہیں ہوتا۔
ویسے تو جو سیاسی جماعتیں خاص کر دھرنے دینے والی جماعتیں اگر اپنے دھرنے اور جلسے جلوس اس جگہ منعقد کر لیں جہاں بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کے مر رہے ہیں، تو بھی اس چھوٹی سی معاشی سرگرمی سے یہاں کے لوگوں کو وقتی طور پر روزگار بھی مل سکتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے اسلام آباد میں دھرنے سے غریب ریڑھی والوں کو وقتی طور پر اشیاء فروخت کر کے کمانے کا کچھ موقع مل گیا تھا، بہرکیف ایسا تو ممکن نہیں کیونکہ جمہوریت میں تو ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے اور تھر کے لوگوں کے چند لاکھ ووٹوں کی پاکستان کے بڑے شہروں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں، اسی لیے جمہوری دھرنوں اور احتجاج کے تماشے بھی اس بدقسمت تھری عوام کی قسمت میں نہیں۔
بہرحال راقم کی تجویز ہے کہ تھر کے علاقوں میں جلد از جلد معاشی سرگرمیوں کے مضبوط سلسلے قائم کیے جائیں جس میں ایک اہم کڑی کھوکھرا پار کے راستے کو آمد و رفت کے لیے کھولنا بھی شامل ہے، ورنہ خدشہ ہے کہ ہمارے ننھے پھول، بھوک سے یوں ہی مرجھاتے رہیں گے۔