ریسرچ کی فریاد

آج 56 مسلم ممالک ہیں یہ سب کے سب عالمی سامراج امریکا کے مالیاتی سسٹم کے غلام بنے ہوئے ہیں۔


خالد گورایا December 15, 2014
[email protected]

مورخہ 8 دسمبر 2014 کو مقتدا منصور کا کالم ''تاریخ کے آئینے میں'' پڑھنے کے بعد میں نے شدت سے محسوس کیا کہ مضمون نگار نے اپنی پوری محنت سے دستیاب حقائق کو بیان کیا ''مسلمانوں کا عروج 7 ویں صدی سے 10 ویں صدی تک جاری رہا'' انسان کی سرشت، جبلت یا خمیر میں ''تجرباتی تخلیق'' شامل ہے۔

''اﷲ تعالیٰ کچھ بھی عدم سے وجود میں لاسکتا ہے'' انسان ''اشرف المخلوقات'' یعنی نائب اﷲ تعالیٰ ہونے کے ناتے کائنات کے اسرار ورموز کو کوشش کرکے دریافت کرسکتاہے اور اپنے داخلی تقاضوں کے مطابق جو قانون قدرت یا فطرت کے عین مطابق ہوتے ہیں ان کو خارجی دنیا میں تبدیلیاں پیدا کرکے پورا کرسکتا ہے۔ انسان اپنے حواس سے خارجی دنیا میں ان حواسوں کی مدد کے لیے ایجادات بھی کرسکتاہے۔ جیسے ایکسریز، الٹرا سائونڈ وغیرہ۔ اب سوال اٹھا ہے کہ مسلمان زوال پذیر کیوں ہوئے۔

آج 56 مسلم ممالک ہیں یہ سب کے سب عالمی سامراج امریکا کے مالیاتی سسٹم کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ امریکا کا مالیاتی سسٹم آج صرف اور صرف جعلی کاغذی ڈالروں پر کھڑا ہے۔ امریکا نے پوری دنیا میں کئی ہزارکھرب کاغذی جعلی ڈالر پھیلائے ہیں جو دو سو سے زیادہ ممالک کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو کی شکل میں موجود ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں نے امریکی سیکیورٹیز خریدی ہوئی ہیں۔ اس طرح پوری دنیا ''جعلی کاغذی ڈالر'' کی قید میں جکڑی ہوئی ہے۔

بالادست طبقہ اشرافیہ جب سے مسلم یا غیر مسلم دنیا میں وجود میں آیا ہے اس نے قانون، قدرت، (لاء آف یونیورس) کو توڑا، وسائل اور عوام کو جمہوری کلچر کے ذریعے اپنا غلام بنایا ہوا ہے، جس معاشرے کے دانشوروں نے اس جمہوری کلچر کو مکمل سپورٹ کیا ہو۔ اسلام کے نام پر کتنے گروہ، کتنی ہزار مرتبہ اسلام کے نام پر عوام کو استعمال کیا گیا۔ سوشلزم کے نام پر واضح طور پر ذوالفقار علی بھٹو نے معیشت کو سوشلزم قرار دیا۔ یہ اصل میں غریب قوم اور امیر قوم کے درمیان ''معاشی اقتدار'' کی جنگ ہے۔

ہاں اب میں مقتدا منصور کے سائنسی شعور اور آگاہی کے حوالے سے تمام قارئین کے علم میں لانا چاہتاہوں کہ راقم الحروف نے ''نیوٹن کا نظریہ کشش ثقل اور عالمی تجاذب غلط ہے'' نامی کتاب ریسرچ کرنے کے بعد 1982 میں شایع کی تھی اس کتاب کو ملک کی تمام یونیورسٹیوں اور مرکزی اردو بورڈ 299 اپرھال، لاہور کے ڈائریکٹر مرحوم اشفاق احمد کو پانچ کتابیں روانہ کردیں۔ اس کے جواب میں مرحوم اشفاق احمد کا خط بھی آیا اور سب سے بڑھ کر مرحوم اشفاق احمد نے میری کتابیں لاہور کے مانے ہوئے لوگوں کو دیں اور ان کی رائے لے کر مجھے خطوط لکھے، کتاب پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے۔ خیالات، تجربات کے بہت سے تبادلوں کے بعد 1983 میں کتاب ''نیچرل نظریہ زاویائی گردش فلکی اجسام اور قوانین حرکت '' مزید ریسرچ کے بعد شایع کی اور اسے پھر تمام یونیورسٹیوں کو روانہ کردیا۔ اس کتاب کو مرحوم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام جو اٹلی کے ادارے ''آئی سی ٹی پی '' کے ڈائریکٹر تھے کو روانہ کیا۔

اس کے جواب میں مجھے اٹلی سے مرحوم ڈاکٹر عبدالسلام کا ٹیلی گرام موصول ہوا کہ میں اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کرکے روانہ کروں جس کو وہ آگے نوبل کمیٹی کو بھیجنا چاہتے تھے یہ ٹیلی گرام میرے پاس محفوظ ہے۔ یہی کتاب مرحوم جنرل ضیا الحق صدر پاکستان کو ریسرچ کی سرپرستی کے لیے 11 اگست 1984 کو روانہ کی گئی۔ اس کے بعد منسٹری آف سائنس و ٹیکنالوجی حکومت پاکستان کی طرف سے لیٹر نمبر No-F-1 (8) 184= DSA (SPC-11) Date 2 Dec 1984 کو جاری ہوا۔ جس میں کہا گیا کہ سی ایم ایل اے سیکریٹریٹ اسلام آباد کے حکم کے مطابق پی سی ایس آئی آر (PCSIR) کراچی میں خالد گورایا کو مدعو (دعوت) کیا جائے جو ماہرین کے سامنے اپنی تھیوری کی وضاحت کریں۔ مورخہ 13 دسمبر 1984 کو مجھے کراچی PCSIR کی طرف سے دعوت نامہ ملا۔

جس کا نمبر PCSIR-4 (30) 184- Rand جو اے حسن خان ڈائریکٹر کی طرف سے تھا۔ جس میں مجھے دعوت دی گئی کہ میں کراچی PCSIR بحث و مباحثے اور تھیوری کی وضاحت کے لیے وزٹ کروں۔ راقم الحروف 27 دسمبر 1984 کو PCSIR کراچی پہنچا۔ سائنسدانوں کی ٹیم کی سربراہی ڈاکٹر سید صدر الحسن رضوی نے کی تھی۔ 15 سائنسدانوں نے مجھ سے سوالات کیے۔ اس کے بعد ٹیم کے سربراہ نے مجھے لیبارٹریز کے تمام شعبے وزٹ کرائے۔ اس کے بعد مجھے CMLA سیکریٹریٹ کی طرف سے لیٹر ملا۔ لیٹر میں CMLA کے آفس نے مجھے کراچی میں ہونے والے بحث و مباحثے کی سائنسدانوں کی رپورٹ مجھے بھیج دی تھی۔ قارئین کرام یہ رپورٹ پڑھ کر میرا بلڈ پریشر ہائی ہونا ایک قدرتی عمل تھا۔ سائنسدانوں کی ڈیڑھ صفحے کی رپورٹ کا آخری پیرا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

we think it would be dangerous to support him to carry on with this kind of study

اس کے بعد میری ریسرچ پر برا اثر پڑا۔ مالی پریشانیاں اور چھوٹے چھوٹے بچے پالنا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ سچ کڑوا اور بڑا کٹھن ہوتا ہے۔ پھر 1987 میں ریسرچ کتاب ''نظریہ زاویائی گردش اور فلکی اجسام'' شایع کرکے اسے بھی تمام یونیورسٹیوں اور سائنسدانوں کو روانہ کیا۔ اس کے بعد پھر مزید ریسرچ کرکے انگریزی زبان میں پہلی مرتبہ کتاب Natural theory physical quantities of universe شایع کی، اسے عالمی سطح پر متعارف کرایا کہ نیوٹن کا نظریہ گرویٹیشن غلط ہے ۔فرانس کے صدر، کینیڈا کے وزیراعظم، آسٹریلیا کے وزیراعظم نے میرے کام کو Appreciate کیا۔ اس کے بعد عالمی سطح پر زمین پر اربوں ڈالروں کے پروجیکٹس لگائے گئے کہ نیوٹن کی گریوٹی کو ثابت کیا جاسکے اور خلا میں مشن روانہ کیے گئے لیکن ہر جگہ یورپی سائنسدان نیوٹن اور آئن سٹائن کے نظریہ گریوٹی ثابت کرنے میں ناکام ہوگئے۔

ان تمام عالمی حالات کے تناظر میں 2003 میں سیمی فائنل کتاب the mechanical system and physical quantities of universe مزید ریسرچ کرکے شایع کی تھی اور 11 مئی 2004کو میں پوری دنیا کے چوٹی کے طبقات کے ماہرین واداروں، یونیورسٹیوں کو یہ کتاب اس لیٹر کے ساتھ روانہ کی کہ نیوٹن کے نظریات کو غلط ثابت کرچکا ہوں۔ آپ ایمانداری سے فیصلہ کریں کہ خالد گورایا کی تھیوری صحیح ہے یا غلط ہے؟ میری کتابوں اور لیٹر کی وصولی کے ٹھیک 2ماہ 5دن بعد 16جولائی 2004 کو 17ویں International conference on general relativity and gravitation in dublin ireland کے موقع پر اسٹیفن ہاکنگ نے جو بلیک ہول کی تھیوری 1974 میں آئن سٹائن کے گریوٹی کے نظریہ پر استوار کی تھی اس کے غلط ہونے کا اقرار 50 ملکوں کے 800 سائنسدانوں کے سامنے کیا تھا یہ کانفرنس 21 جولائی 2004 تک جاری تھی اور آخری لمحے میں اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی غلطی تسلیم کی تھی۔ 1998 میں سعودی حاکم سے میں نے سائنسی ریسرچ کے لیے فنڈ مانگا تھا جی ہاں سعودی حکومت کا وفد کراچی آیا اور وفاقی حکومت نے اس وفد سے ملاقات کرکے وہ فنڈ جو کروڑوں روپے تھا وصول کرکے یہ کہا تھا ''کوئی ریسرچ کرتا ہے تو اپنے طورپر کرتا رہے۔

اس سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے'' سائنسی ریسرچ کا گلا دبانا کتنا بڑا ظلم ہے کراچی یونیورسٹی میں 2004 کو میں نے اپنی کتاب بانٹی تھی۔ اس کے بعد فزکس شعبے میں اس مضمون کو ڈراپ کردیاگیا یہ درس گاہیں ہیں کلاسیکل فزکس کے خاص شعبے کی چرا گاہیں ہیں۔ غلام ہر جگہ ہیں۔ میکنیکل سسٹم آف یونیورس سے ہر شعبہ سائنس متاثر ہوتا ہے مثلاً میری تھیوری کے مطابق زمین پر گرنے والی اشیا (اسراع) کا تعلق زمین کی زاویائی گردش کا نتیجہ ہے زمین پر وزن کی مقدار زمین کی حرکت کا نتیجہ ہے۔ اگر جسم کا وزن کم ہوجائے تو میڈیکل سائنس دوا دینے کے کون سے فارمولے پر عمل کرے گی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں