پرانا اور نیا پاکستان

حکمران عمران خان سے تنگ آ گئے ہیں، انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اس بلائے ناگہانی سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں۔


Latif Chaudhry December 15, 2014
[email protected]

LONDON: پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لیے آج کا دن دکھ و الم سے بھرا ہوا ہے، ٹھیک33 برس پہلے آج کے دن وہ پاکستان ٹوٹ گیا تھا جو 1947ء میں وجود میں آیا تھا، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور ہم نے مغربی پاکستان کے نام سے مغربی ہٹا کر اسے پاکستان بنا لیا۔ یوں سارے غم بھلا دیے۔

یہ بھی اپنے وقت کا نیا پاکستان تھا، آج بھی نیا پاکستان بنانے کی مہم جاری ہے۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ یحییٰ خان کی سرپرستی میں اپنا کھیل کھیل رہی تھی جب کہ سیاسی اشرافیہ اپنے اپنے مفادات کے حصار میں قید تھی، دوسرے لفظوں میں مشرق کا جہاں اور تھا اورمغرب کاجہاں اور۔ اس کھینچاتانی کا نتیجہ سقوط ڈھاکا کی صورت میں سامنے آیا۔ آپ مجیب الرحمٰن کو غدار کہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو الزام دیں یا یحییٰ خان کو ، سچ یہ ہے کہ سقوط ڈھاکا ہماری سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی اجتماعی بے بصیرتی، تعصب اور مفاد پرستی کا منطقی نتیجہ تھا۔

اس میں بنگالی اشرافیہ کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا مغربی پاکستان کا۔ آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ متحدہ پاکستان کسی کو یاد نہیں رہا، میاں نواز شریف ، عمران خان اور آصف زرداری اس وقت نوجوان ہوں گے لیکن انھیں بھی شاید کچھ یاد نہیں ہے۔ وہ اپنی دھن میں مگن ہیں۔ عمران خان نیا پاکستان بنانے کے لیے دھرنے پر دھرنا اور احتجاج پر احتجاج کی ایک طویل سیریز کھیل رہے ہیں۔ 14 اگست کو ان کے ساتھ باؤلنگ کرنے والے طاہر القادری ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن خان صاحب مسلسل باؤلنگ کر رہے ہیں اور پوری مہارت سے اپنے مشہور زمانہ ان سوئنگرز مار رہے ہیں، ان کی فٹنس لاجواب ہے، اتنا لمبا باؤلنگ اسپیل صرف وہی کر سکتے ہیں ورنہ طاہر القادری تو دل کا والو بند کراکے بستر نشین ہو گئے ہیں۔

حکمران عمران خان سے تنگ آ گئے ہیں، انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اس بلائے ناگہانی سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں، ان کا خیال تھا کہ شاید خان صاحب تھک جائیں گے لیکن وہ پانچ ماہ کے مسلسل احتجاجی دھرنوں کے باوجود تندرست و توانا ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انھیں 2018ء تک بھی احتجاج کرنا پڑا تو وہ اسی رفتار سے جاری رکھنے کی قوت و طاقت رکھتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ اس بار حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نظر آئی ہے۔

عمران خان کا پسندیدہ ٹارگٹ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، میاں شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن ہیں، انھوں نے ان شخصیات کو ایسے ایسے القاباب سے نوازا ہے جس کا یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن ان دنوں انھوں نے رانا ثناء اللہ کو ٹارگٹ کر لیا ہے، فیصل آباد میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں میں تصادم اور پھر ایک نوجوان کی موت کے بعد خان صاحب اور ان کے ساتھی بہت غصے میں تھے۔ خان صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ،،رانا ثناء اللہ تیار ہو جاؤ، ہم تمہارے ڈیرے کی طرف آ رہے ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس والے حواس باختہ ہو گئے، رانا صاحب کو مشورہ دیا گیا کہ وہ گھر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں لیکن انھوں نے انکار کر دیا، عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے بھی سمجھداری دکھائی اور یوں یہ معاملہ آگے نہیں بڑھا، ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔

عمران خان اور شیریں مزاری تو کہتے ہیں کہ رانا ثناء اللہ کو گرفتار کرایا جائے گا بلکہ شیریں مزاری نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرانے میں بھی رانا صاحب کا کردار ہے اور ان کے کالعدم تنظیموں سے روابط ہیں، اس صورت حال سے شریف برادران کو یہ فائدہ ہوا ہے کہ خان صاحب اور تحریک انصاف والوں نے ان سے توجہ ہٹا کر رانا ثناء اللہ پر چڑھائی کر دی ہے۔ عمران خان نے رانا ثناء اللہ کا بار بار ذکر کر کے انھیں وفاقی سطح کا لیڈر بنا دیا ہے، میرا خان صاحب اور ان کی ٹیم کو مشورہ ہے کہ وہ رانا ثناء اللہ کو معاف کر دیں اور اپنے اصل ہدف سے پیچھے نہ ہٹیں۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا رانا ثناء اللہ پنجاب اور وفاقی حکومت کی پالیسی بناتے ہیں؟ تحریک انصاف کی بیان بازی سے تو ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو صرف رانا ثناء اللہ چلا رہے ہیں اور پنجاب حکومت ان کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرتی؟ حالانکہ ایسا نہیں ہے، تحریک انصاف کے پاس ایشوز ختم ہو گئے ہیں اور اس کے سامنے صرف رانا ثناء اللہ رہ گئے ہیں، جس طرح عمران خان حکومت کے اعصاب پر سوار ہیں، اسی طرح رانا ثناء اللہ تحریک انصاف کی قیادت کے اعصاب پر سوار ہیں۔ ادھر ن لیگ والوں کی بھی رگ نرالی ہے، پہلے بڑھکیں مارتے ہیں اور پھر منتیں شروع کر دیتے ہیں، لاہور والی حکمت عملی اگر فیصل آباد میں اپنا لی جاتی تو وہاں بھی کچھ نہ ہوتا۔ چلتے چلتے ایک بات کرنا چاہتا ہوں، پاکستان میں بعض شخصیات دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں، خصوصاً اقلیتی شخصیات۔ عالمی سطح پر پاکستان پہلے ہی خاصی مشکل میں ہے۔

وقت کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت ایسی شخصیات کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کرے، زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن حفاظتی اقدامات کرنا بھی فرض ہے۔ ہمارے دوست خلیل طاہر سندھو انسان دوست اور باغ و بہار شخصیت ۔ انھیں اکثر اوقات دھمکیاں ملتی رہتی ہیں، انھیں کہا گیا تھا کہ آپ کو بلٹ پروف سیکیورٹی دی جائے گی، ان کی یاد دہانی کے باوجود انھیں یہ سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی، پنجاب کی پچھلی کابینہ میں کامران مائیکل وزیر خزانہ پنجاب تھے، انھیں بلٹ پروف سیکیورٹی دی گئی تھی، اب وہ وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ ہیں، اب بھی ان کے پاس یہی سہولت موجود ہے لیکن پنجاب کے وزیر اقلیتی امور و انسانی حقوق خلیل طاہر سندھو کو خطرات کے سامنے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے دور میں وفاقی وزیر شہباز بھٹی ٹارگٹ کیے جا چکے ہیں، ان کے بھائی ڈاکٹر پال بھٹی کو بھی سیکیورٹی تھریٹ تھا، وہ بیرون ملک چلے گئے، ڈاکٹر پال بھٹی نے بلٹ پروف گاڑی کی اجازت مانگی، وہ نہیں دی گئی حالانکہ انھوں نے بلٹ پروف گاڑی خود خریدنے کی آفر کی تھی۔ میرا صرف یہ کہنا ہے کہ جن شخصیات کی جان کو خطرہ ہے یا انھیں دہشت گرد ٹارگٹ کر سکتے ہیں، انھیں بلٹ پروف سیکیورٹی دی جانی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں