قبلہ و کعبہ
عمران خان آج اس وقت سب سے زیادہ مقبول صوبہ پنجاب میں ہیں۔جب کہ سندھ، بلوچستان میں ان کی شہرت واجبی سی ہے۔
جب عدلیہ کا فیصلہ آپ کی خواہش کے عین مطابق آگیا جس کی امید تک نہ تھی تو پھر معرکہ فیصل آباد، لاہور، کراچی برپا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور کیا ضرورت ہے؟ بعض اوقات سمجھ میں نہیں آتا اور ان لوگوں کے لیے صورتحال خاصی مشکل ہوجاتی ہے جو کسی طور آپ کو پسند کرتے ہیں۔ بعض اوقات بہت صاف صاف سا محسوس ہوتا ہے کہ چابی سے چلنے والا گڈا۔ جیسے مخصوص طریقے سے چلتا اور گاتا، ہنستا اور روتا ہے یا پھر لگتا ہے کہ کوئی بہت سوچ سمجھ کر اپنی چالیں چل رہاہے اور دیکھنا چاہتا ہے کہ 10 فیصد کامیابی ملے تو 20 فیصد پر آجائے۔
20 کے بعد 100 فیصد تک اسے صرف اپنی کامیابی سے غرض ہے باقی ملک جائے بھاڑ میں اور قوم جائے اکھاڑ، پچھاڑ میں۔ یا جیسے کسی بچے کونئی سائیکل ملی ہو اور اسے یقین نہ ہو کہ یہ چلے گی بھی۔ لہٰذا کبھی وہ اس کی سیٹ بڑی کرکے دیکھتا ہے کبھی چھوٹی کرکے۔ سائیکل چلانے میں دشواری ہو تو وہ سائیڈوں میں Support لگا لیتا ہے اور چل پڑے توہٹا دیتا ہے لیکن مثالوں سے باہر نکل کر بھی سمجھ میںنہیں آتا کہ آپ کا حقیقی ایجنڈا کیا ہے؟ بڑے بڑے دانشور، مفکر، دینی سیاسی راہنما، جگاڑی کام کرنے کروانے والے سابق وزرا تک نہیں سمجھ پا رہے کہ مسئلہ ہے کیا؟
میں ابھی اپنے گزشتہ تین کالموں سے مسلسل کہہ رہا تھا کہ ملک کو ایک قابل قدر Opposition ہاتھ آگئی ہے اور قوم کا بھلا ہونے جا رہا ہے۔ لیکن یہ کہتے کہتے ہی کھوسہ برادران سمیت PML-N اور PPP کے کچھ رہنماؤں نے بلاوجہ اپنی جماعتوں کو چھوڑ کر PTIمیں شمولیت اختیار کرلی۔ ابھی پچھلے داغ دھلے نہ تھے کہ نئے لگ گئے۔
خان اعظم آپ کو شاید احساس نہ ہو لیکن PTI کے وہ عظیم جماعت بننے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی جس کی بنیاد دیگر جماعتوں سے شامل ہونے والے راہنماؤں پر ہے۔ ایسے لوگ جن کے نظریات، جن کی سوچیں بہت مختلف ہیں۔ کیونکہ ان کی چھوڑی ہوئی جماعتیں اپنا اپنا منشور رکھتی ہیں۔ اور یہ سالوں تک وہیں خدمات سرانجام دے کر تشریف لائے ہیںتب ایسے مختلف الرائے لوگ آخر PTI میں اکٹھے کیونکر رہ پائیں گے اور کیسے اس کے منشور کو اپناسکیں گے۔
چنانچہ ممکن ہے کہ میں نے پچھلے دنوں آپ کی صورت میں کوئی خوش کن خواب دیکھ لیا ہو اور ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کوئی آس کوئی امید رکھ لی ہو۔ لیکن یہ مجھ سمیت پوری قوم کا حق ہے۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ آپ اگر یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے تو سمجھ بھی رہے ہوں گے لہٰذا فی الفور اور اسی مرحلے پر چند ایک انقلابی اقدامات سے ہاتھ اٹھا لیجیے۔ جن میں اول الذکر ایسا احتجاج جو انسانی جانوں کا اتلاف بنے اور تجارت کے لیے نقصان دہ ہو۔
دوئم کسی بھی جماعت سے باہر آنے والے رہنما کا کم ازکم اس حد تک جائزہ تو لیں کہ اس نے کن وجوہات کی بنیاد پر اپنی جماعت کوچھوڑا ہے۔ کیا یہ مان لیا جائے کہ وہ انقلاب کی تلاش میں سرگرداں تھا کہ یکدم بنی گالہ پہنچ گیا! ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ مفادات کا ایک گھناؤنا کھیل ہے۔
لوگ جانتے ہیں کہ اب PTI کے پاس Street Power ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اب عمران خان کا اقتدار میں آنا دور اذکار کی بات نہیں۔ اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ پرانے کہنہ مشق سیاستدان اپنی Exercise شروع کرچکے۔ یعنی جدھر کی ہوا چلے۔ اور اگر بالکل نہ چلے تو مٹھی بھر مٹی ہوا میں اڑا کر خبر لی جائے کہ رخ کدھر ہے۔ میرے محترم خان خود پرستی وہ مہلک مرض ہے جو تاریخ میں بڑے بڑے بادشاہوں کو نگل گیا۔ حتیٰ کہ بے مثل علما، حکما اور اہل دانش کو ہڑپ کرگیا۔ اب اس سے زیادہ میں کیا کہوں۔ بس زیادہ لکھے کو تھوڑا جانیے گا۔
ادھر میاں صاحبان کا قلعہ ٹوٹ رہا ہے اور اس عمل میں بتدریج تیزی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال قبل خانہ کعبہ کے وسیع و عریض صحن میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والے ہاتھ اور زبان کہ اگر تو پھر موقع دے تو ہم انصاف کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ وہ آنکھیں جو جل تھل ہوکر آسمان کی طرف اٹھتی تھیں کہ ہمارا قصور کیا تھا؟ لیکن جب انھیں خدا نے موقع دیااور پھر حکومت عطا فرمائیں تو آتے ہوئے وہ بہت عاجز اور منکسر دکھائی دیے پھر رفتہ رفتہ ان کی یادداشت پر پردے گرنے لگے۔ مشکل وقت بھولی بھسری یاد ہوکررہ گیا۔
کھربوں کی رقم سے نئی شاہراہیں تعمیر کی گئیں میٹرو بسز چلائی گئیں، نئے پل بنائے گئے، یہ سوچ کر کہ یہی صوبہ ہمیں اقتدار میں لایا تھا۔ یہیں سے ہمیں ووٹ ملے تھے اور ملیں گے یہاں لوگوں کے کام کیے گئے تو وہ ہمیں سراہیں گے۔ میرے بھائیو! آپ نے دیکھا ہوا کیا۔ PTI نے سب سے زیادہ فتوحات اسی صوبے سے حاصل کیں۔ عمران خان آج اس وقت سب سے زیادہ مقبول صوبہ پنجاب میں ہیں۔جب کہ سندھ، بلوچستان میں ان کی شہرت واجبی سی ہے اور KPKسے ان کی مقبولیت کا گراف گرا ہے۔
عزیزان گرامی! آپ خدا پر کیے گئے توکل اور بھروسے سے ہٹنے کا نتیجہ دیکھیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کئی کالموں میں آپ سے دست بستہ درخواست کی تھی کہ خدارا! اپنے ترقیاتی پروگرام کو پنجاب سے باہر بھی نکالیے۔ باقی تین (3)صوبے یتیموں، مسکینوں کی طرح آپ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
لیکن لگتا ہے کہ آپ کو صرف پنجاب دکھائی دے رہا تھا۔ جس کے آپ بذات خود خادم بھی کہلانے لگے۔ اور وہ 10 سال جو اللہ کے گھر میں دعائیں مانگتے ہوئے گزارے تھے فراموش ہوگئے۔ میرے جب ایک بادشاہ اپنے ایک بیٹے کو سب کچھ دے کر باقی تین بیٹوں کو بلا وجہ عاق کردے تو یاد رکھیے کل کے لیے صرف اللہ پاک کی ذات ہی پوچھنے والی ہے۔ کوئی خطہ زمین نہیں۔ ابھی بھی وقت ہے لوٹ آئیے عدل اور انصاف کی طرف، معذرت کے ساتھ۔