افکار پریشاں

امریکی نوجوان سب سے زیادہ اہمیت ڈرائیونگ لائسنس کی عمر کو دیتے ہیں بہ نسبت ووٹر کی عمر کے۔


نادر شاہ عادل December 09, 2014

زندگی کے ایک اجڑے منظرنامہ اور نازک موڑ پر میڈیا کے فلسفی مارشل میکلوہن بہت یاد آئے۔ کسی سے پوچھا کہ موصوف کی معرکتہ لارا کتاب Understanding media :The Extentions of man کا ترجمہ ہوا ہو تو مجھے بتادیں، لیکن کسی نے اثبات میں جواب نہیں دیا۔ یہ وہ کتاب ہے جسے ذرایع ابلاغ کے مین اسٹریم میں بائبل کا درجہ بھی حاصل ہے، ہوسکتا کہ پاکستان کے کسی دانشور یا ماہر تعلیم و ابلاغیات نے ایسی کوئی کوشش کی ہو لیکن مجھے کہیں اس کتاب کا ترجمہ نظر نہیں آیا، اس لیے نظر پیاسی ہے کہ اس نابغہ روزگار شخص نے ایسی جست آخر کیسے لگائی کا آج میڈیا وہی کچھ ہے جیسا مارشل میکلوہن نے کہا تھا یا سوچا تھا۔

اس شخص نے ٹی وی کو بزدل دیو کہا، ابلاغیات کے وسیلہ کو اس میں مضمر پیغام سے ایسا مشروط کیا کہ اس میسیج کو آفاقی درجہ مل گیا۔ یوں تو اس کی کئی باتیں چشم کشا ہیں، مگر چند مقولے نمونے از خروارے کے مصداق پیش خدمت ہیں، خیر بات آگے بڑھاتے ہیں کہ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔ میکلوہن نے کئی باتیں کی ہیں، ایسی پیش گوئیاں کی ہیں کہ اس سے عدم اتفاق کرنے والے بھی درجنوں کتابیں لکھ چکے ہیں۔ چنانچہ وہ خود کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ میں اپنی ہر بات پر اڑ جاؤں یا اس سے ہمیشہ متفق رہوں ، جو میں کہتا ہوں۔ ایک جگہ اس نے کہا کہ امریکی نوجوان سب سے زیادہ اہمیت ڈرائیونگ لائسنس کی عمر کو دیتے ہیں بہ نسبت ووٹر کی عمر کے۔ ان کی گفتگو کا اقتباس یہ تھا کہ کئی ایک دلائل کسی ایک احمق کے باعث برباد ہوجاتے ہیں جو یہ جانتا ہے کہ وہ کیا بک بک کررہا ہے۔

کیا بات کہی اس شخص نے کہ ہم میں سے کوئی یہ نہیں جانتا کہ پانی کس نے دریافت کیا مگر یہ سبھی کہتے ہیں کہ مچھلی نے بہرحال یہ کام نہیں کیا۔ ان کا خیال ہے کہ بہت سارے مفروضے ایسے ہیں جو ہم نے بنائے اور بیکار ثابت ہوئے۔ مارشل کا کہنا ہے کہ پہلے ہم نے کوئی شے بنائی پھر اس نے ہمییں بنایا، سنوارا۔ کتنے وثوق سے وہ کہتا ہے کہ ہمارا مستقل پتہ ''کل'' ہے۔ انسان کی دیوانگی کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ ہوسکتا ہے شیزوفرینیا بھی خواندگی کا نتیجہ ہو۔ اس کے تجزیہ کے مطابق ہر زبان کے تمام الفاظ استعارہ ہیں۔ آخر میں ایک قاطع برہان جیسا قول کہ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں یقین ہے کہ موت کے بعد بھی زندگی ہے، تو میں نے جواباً اسے یہ کہا کہ کیا تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ موت سے پہلے بھی کوئی زندگی ہے۔

ان سارے اقوال کے وسیع تر سیاق وسباق میں میڈیا اور مملکت خداداد کی سیاسی، سماجی اور نفسیاتی اتھل پتھل میں ایک تکنیکی بحران کی سی کیفیت نظر آتی ہے، بالکل ایسا لگتا ہے کہ ایک دور پچھلی تاریخ کو حقارت سے ٹھوکر مار کر آگے جانے کے بجائے بند گلی میں کھڑا میرے یقین محکم، ایمان، تنظیم، وجدان، صبر وتحمل، جمہوریت سے وابستگی اور سیاسی وژن کا امتحان لینا چاہتا ہو۔ وطن کی خیر مگر دور و نزدیک سے عجب آوازیں چلی آتی ہیں جن میں ملکی زیست کا ڈھنڈھورا پٹتا سنائی دیتا ہے۔

ملکی سیاسی افق پر کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ریاستی ڈھانچے پر قانون کی حکمرانی کے موثر نفاذ کی باتیں ہیں مگر ہر طرف اندھیرا ہے، سماجی انحطاط اور معاشی استحکام کا شور ہے، جمہوری عملی شفافیت کے دعوے ہیں، عوامی حمایت اور تائید کی وہ جنگ جاری ہے جو فیصل آباد کے بعد کراچی تک جانے والی ہے۔ عوام خود بھی پریشان ہیں کہ وہ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے سی این جی، ڈیزل، پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، تعلیم اور صحت کی فراہمی کے کئی منصوبوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، نئے ایٹمی ہتھیار بن رہے ہیں، دشمن تھر تھر کانپ رہا ہے، خطے میں طاقت کا توازن اب بیلنس آف ٹیرر کا بھیس بدل چکا ہے، امن کے قیام اور فروغ کے لیے بھی اسلحہ کی تیاری اور تجارت ضروری ہے۔ پہلی بار قوم کو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی طاقتوں کے بیچ فیصلے کے بحران نے دبوچ لیا ہے، نا پائے رفتن نا جائے ماندن کا سماں ہے۔

گرگٹ کی طرح سیاست اور اسیران سیاست ایک ایسی منزل کی طرف سرگرم سفر ہیں کہ کسی کو خبر نہیں کہ ناکام ریاست کا انجام کیا ہوتا ہے۔ سب یہی پڑھتے آئے ہیں کہ حکومتی اختیار کے حوالہ سے مشہور کہاوت ہے کہ جس طرح آسمان پر دو سورج نہیں ہوسکتے اسی طرح کسی ملک میں دو بادشاہ بھی نہیں ہوسکتے۔ مگر فریب نظر دیکھئے کہ دو ''بادشاہوں'' کے درمیان وہ گھمسان کا رن پڑا ہے کہ کیا کسی نے اپنی اس دھرتی پر ماضی میں دیکھا ہوگا۔

دہشت گردی کی عظیم جنگ وزیرستان میں جاری ہے۔ لیکن بلوچستان میں صورتحال بدل رہی ہے، مزاحمت اور آزادی کی لہر کو روکنے کے لیے وہاں مذہبی جبر اور فرقہ ورانہ قوتوں کے ابھار کی نئی کہانی کا پہلا باب لکھا جاچکا ہے، ہلاکتوں کی ڈائمنشن بدلی جارہی ہے، لیاری میں ''مارو اور پھینکو'' پالیسی پر کوئی نہیں بولتا۔ لب بستگی ایسی کہ آزادی صحافت کو چکر سے آنے لگے ہیں۔ ایک ایٹمی ملک کے بارے میں مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ ملک کو ناکام ریاست بنانے کی سازش ہورہی ہے، ذہن سازش تھیوری کے دشت میں بھاگتا چلا گیا۔ ایک سازش ہو تو اس کا کوئی سرا ڈھونڈا جائے مگر یہاں تو داخلی چیلنجز بے شمار ہیں، جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی عمل، انتظامی کارکردگی، عوام کے مسائل، عام آدمی کی جسمانی، معاشی، سماجی اور سیاسی خستگی کا درمان کس سے مانگا جائے۔ بیانات کے گولے داغے جارہے ہیں، مادر وطن کو دہشت گردی، بیروزگاری، جرائم اور مایوسی کے اژدھے حصار میں لیے ہوئے ہیں۔

قوم حکمرانوں سے دلیرانہ فیصلوں کی توقع رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس الہ دین کا چراغ تھا جو کہیں کھوگیا ہے، سب اس کی تلاش میں مسیحا بنے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہوا تو مینا اسی کی ہے والی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ میری سیاست کا آج کل احوال یہ ہے ہر کوئی ہرکولیس ہے۔ باد مخالف سے لڑنے میں سیاسی جماعتوں کے اکابرین اپنی انرجی ضایع کرچکے، سب محصور ہوگئے ہیں خود اپنے پیدا کردہ حالات کے بھنور میں۔ جمہوریت توانائی بخشتی ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ ملک کو وجودی خطرہ سے بچانے میں مدد دیتی ہے۔ کہاں ہے جمہوریت؟ مدد کے لیے کیوں نہیں آتی؟ اگر کہیں چھپی بیٹھی ہے تو آجائے سامنے۔ بقول شاعر:

اب نکل کے آجا بھی دو رخی کے خانے سے... کام چل نہیں سکتا اب کسی بہانے سے

جمہوریت کے متوالے حکمراں اور اپوزیشن رہنما تو عوام سے جڑے رہتے ہیں، جن کی سیاست کی اساس اخلاقیات پر استوار ہوتی ہے، لاحول ولا قوۃ، اخلاقیات اِن پالیٹکس، کیا بات کررہے ہو، انسانی حقوق پامال ہوچکے جناب عالی۔ شور مچاتے ہوئے اب زبان سوکھ گئی ہے، حلق میں کانٹے پڑچکے ہیں، مگر اسی جمہوریت کے شوق گل بوسی میں کانٹوں پر بار بار زبان رکھ دی ہے، کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ ناکام ریاست کی کوششوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جمہوریت ہے، آمریت نہیں۔ سارے طالع آزما کان کھول کر سن لیں۔ ایک لفظ، فقط ایک لفظ کمٹمنٹ اور تجدید و میثاق جمہوریت سے کمٹمنٹ کا برملا اظہار۔ حالات مخدوش ہیں، دشمن گھات میں بیٹھے ہیں۔ حکایات خونچکاں لکھتے ہوئے بھی ہاتھ قلم ہونے کا کسی وقت اشارہ مل سکتا ہے۔ جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے لوگ گھروں سے نکلتے ہیں۔ ایسا اندھیرا ہے کہ شہر جو بارونق ہوا کرتے تھے وہاں بھوتوں کا راج نظر آتا ہے، مگر یار لوگ اب بھی اسے روشنیوں کا شہر کہتے ہیں، جہاں ہر دو گھنٹے میں دو لاشیں گرائی جاتی ہیں۔ جو مرکزیت کا قلعہ اور فصیل دائمی ہے، وہاں خلفشار کیسا، کیسی انارکی، وقت للکار رہا ہے کہ ہوش کے ناخن لو۔ امن سے رہنے دو، امن سے رہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں