ایک مجموعہ دیباچوں اور افسانوں کا

واقعی نیکی ہے تو آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں تیر کر اوپر آ جائے گی اور ہماری محنت سار ہو جائے گی۔


Intezar Hussain December 07, 2014
[email protected]

ایک تو وہ سیدھے سچے لکھنے والے ہوتے ہیں جو اپنی نگارشات، افسانے ہوں یا غزلیں نظمیں ہوں مجموعہ کی شکل میں مرتب کر کے بغیر کسی دیباچے اور بغیر کسی فلیپ پر درج رائے کے پیش کر دیتے ہیں کہ آگے قاری جانے اور نقاد جانیں۔ گویا اس اصول پر عمل کرتے ہیں کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔ واقعی نیکی ہے تو آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں تیر کر اوپر آ جائے گی اور ہماری محنت سار ہو جائے گی۔

مگر سب مصنف اتنے قناعت پسند نہیں ہوتے یا یوں کہہ لیجیے کہ قارئین پہ زیادہ بھروسہ نہیں کرتے، نقادوں پر بھی انھیں اعتبار نہیں ہوتا۔ خود دیباچہ لکھ کر اپنی تحریروں کے معنی اور معنویت سمجھاتے ہیں۔ دو ڈھائی نقادوں کی بھی قیمتی رائے سے فلیپ کو مزین کرتے ہیں۔ مگر بی بی صباحت مشتاق نے تو کمال کر دیا۔ دو نامی گرامی افسانہ و ناول کے شناوروں کے دیباچوں سے کتاب کو بھاری بھرکم بنایا ہے اور وہ کون شناور ہیں۔ ایک تو قرۃ العین حیدر۔ ہم تو اسی نام سے مرعوب ہو گئے۔ ان پر مستزاد اسد محمد خاں کا دیباچہ۔ کہتے ہیں کہ یہ تیرہ کہانیاں ہیں۔

اگر یہ کہانیاں تین سو تیرہ بھی ہوتیں۔ معاف کیجیے ہم نے غلط پڑھا۔ اتنی دور وہ نہیں گئے ہیں۔ بس اتنا کہا ہے کہ ''اگر یہ کہانیاں ایک سو تیرہ بھی ہوتیں تو میں وقت نکال کر سب ہی پڑھ لیتا۔'' چلو اچھا کہا۔ ہمارا کام آسان ہو گیا۔ اب جو وہ رائے دیں گے ہم اس پر آمنّا و صدقنا کہیں گے۔ مگر ٹھہریئے۔ ابھی تو ہمیں قرۃ العین حیدر کے دیباچے سے بھی عہدہ برا ہونا ہے۔ قرۃ العین ایک کام بہت اچھا کرتی ہیں۔ جب افسانہ و ناول کا ذکر چھڑتا ہے تو بات ان کے والد اور والدہ کے افسانوں ناولوں سے چل کر ان کی پھوپھی اماں کے ناول 'گودڑ کا لال' تک پہنچتی ہے۔

اس مرحلہ سے ہم کتنی مرتبہ گزرچکے ہیں۔ آج پھر گزرے۔ اور پھر ان کی قیمتی رائے صباحت مشتاق کے افسانوں کے بارے میں۔ اب کونسی کسر باقی رہ گئی تھی۔ مگر صباحت مشتاق نے پھر بھی ضروری سمجھا کہ ایک دیباچہ وہ خود بھی نذر قارئین کریں۔ یہ دیباچہ سب سے بڑھ کر ہے۔ انھوں نے کس خوبصورتی سے اپنے بچپن سے لے کر یعنی اس وقت سے جب مجنوں دیوار دبستاں پر لام الف لکھا کرتا تھا اپنا احوال سنایا ہے مگر اپنی زبان سے کچھ نہیں کہا۔

جو بھی احوال ہے، ماں اور باپ کی گود سے لے کر اس مجموعے کی اشاعت کے طلوع ہونے سے تھوڑا پہلے تک سب ابو کی زبانی ہے۔ اور اتنا دلچسپ کہ ہم نے اس دیباچہ کو بھی ان کے افسانوں میں شمار کر لیا اور ان کی افسانہ نگاری کے قائل ہو گئے۔ اس کے بعد اب ہم اس بی بی کی تعریف کے سلسلہ میں نہ اسد محمد خاں کے مرہون منت ہیں نہ قرۃ العین حیدر کے بلکہ اب ہم نے یہ طے کیا کہ ان افسانوں کے بارے میں ان دو شخصیتوں نے جو کہا ہے گویا ہماری رائے جاننے سے پہلے اس کی توثیق کی ہے۔

اسد محمد خاں نے کہا ہے کہ انھوں نے جو کچھ لکھا ہے ''بڑی صفائی اور فطری بے ساختگی سے لکھا ہے'' یہ تو انھوں نے ہمارے منہ سے نکلی بات چھین لی۔ یہی تو ہم کہنا چاہتے تھے۔ اتنی بے ساختگی کہ لگتا ہے کہ قلم جب کاغذ سے مس ہوا تو بس ایسا رواں ہوا کہ لگتا ہے کہ پھر کہیں رکا ہی نہیں۔ سچ پوچھوں تو سب سے بڑھ کر ان کے قلم کی روانی داد کی مستحق ہے۔ ان کا قلم بکٹٹ گھوڑے کی مانند ہے جسے تھوڑی سی ایڑھ دو پھر ہوا سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ اس قلم کو قلم مت کہیے اسپ صبا رفتار کہیے۔ اسد اللہ محمد خاں نے بجا دعا دی کہ جیتی رہو اور لکھتی رہو۔

ہم اپنی دعا کو ابھی محفوظ رکھتے ہیں۔ پہلے یہ تو دیکھ لیں کہ قرۃ العین حیدر نے کیا لکھا ہے۔ یہ اچھا کیا کہ انھوں نے ان کہانیوں پر بات کرنے سے پہلے اردو میں نسوانی افسانے کی تاریخ کر دی ہے مگر اس طرح کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اچھا کیا پتہ تو چلے کہ اردو افسانہ و ناول کے میدان میں جب عورت نے قدم رکھا تو مردانہ تعصب نے ان کی راہ میں کس کس طرح روڑے اٹکائے ہیں۔ مگر صرف مردانہ تعصب کی بات کیوں کی جائے۔

خاندان کی اور ان سے بڑھ کر محلہ کی بڑی بوڑھیوں نے انھیں بدنام کرنے میں کونسی کسر چھوڑی تھی۔ جس کسی کے متعلق خبر ملی کہ وہ ناول لکھتی ہے اسے گویا جھنڈے پر چڑھا دیا۔ اور بس جھنڈے پر چڑھا دیا۔ ارے وہ ہفت رنگن۔ اس کا تو دیدہ پھٹ گیا ہے۔ ناولیں لکھتی ہے۔ اس بدنامی سے بچنے کے لیے انھوں نے نقاب اوڑھ لی۔ فلاں کی والدہ یا فلاں کی بیگم۔ اپنا نام غائب۔ کتنے دنوں یہ نقاب چلتا رہا۔ ایسا بھی ہوا کہ افسانہ لکھا ہے۔ شایع ہو رہا ہے کسی فرضی مردانہ نام سے۔ مگر کب تک۔

سو نقاب اٹھا مگر آہستہ آہستہ۔ ہاں عصمت چغتائی نے تو ڈنکے کی چوٹ لکھنا شروع کر دیا۔ سب سے بڑھ کر ان کا افسانہ چوٹ۔ اس پر کتنی انگلیاں اٹھیں، کیسے کیسے بے شرمی کے افسانے لکھے گئے۔ ایسی باتیں کہ ؎

ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں

اس پس منظر کو پیش نظر رکھیں اور پھر آج کی لکھنے والیوں کی کہانیاں اور افسانے پڑھیں۔ لیکن قرۃ العین حیدر تو ماہ نامہ 'زیب النسا' کے پرانے شماروں میں بیبیوں کے لکھے ہوئے افسانے دیکھ کر دنگ رہ گئی تھیں ''ان میں انسانی نفسیات اور زندگی کے چیدہ معاملات کے متعلق ان خواتین نے کیسی روانی اور فطری بیانیہ انداز میں کتنی اچھی کہانیاں لکھی ہیں۔'' اور اب ان کے پیش نظر صباحت مشتاق کی کہانیاں ہیں۔ وہ ان کے پہلے مجموعہ کی کہانیوں پر بات کر رہی تھیں۔ انھیں پہلی ہی کہانی 'قاریہ' بے تحاشا پسند آئی۔

ہمارے سامنے ان کا یہ دوسرا 'مجموعہ' اعتراف ہے جسے لاہور کے پبلشنک ادارے سانجھ نے شایع کیا ہے۔ اس مجموعہ کی بھی پہلی ہی کہانی نے ہمیں لوٹ لیا۔ اسد محمد خاں نے ان کے طرز بیان کی تعریف کی ہے۔ ہاں پہلی نظر میں تو ان کا بیان ہی متاثر کرتا ہے۔ کتنا رواں دواں ہے اور کتنا شگفتہ ہے۔ مگر جب ہم نے کہانیاں پڑھیں تو پہلی ہی کہانی 'نہ جنوں رہا نہ پری رہی' نے ہمیں بیان کی بیساختگی اور روانی کے ساتھ اس بات نے بھی متاثر کیا کہ انھیں کہانی بنانے کا اور اس کے ساتھ اسے بیان کرنے کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے۔

ہمارے نئے افسانے سے تو کہانی غائب ہی ہو گئی تھی۔ اب واپس بھی آئی ہے تو کیا واپس آئی ہے۔ یہاں صباحت نے یہ کہانی عجب طرح سے بنی ہے کہ وہ حیرت افزا بھی ہے۔ پھر یہ احساس بھی اجاگر ہوتا ہے کہ زندگی میں کیسے کیسے پیچ پڑتے چلے جاتے ہیں اور آخر میں اداس اور ایک شہر کا افسوس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں