پاکستان ایک نظر میں پاکستان میں کرپشن میں کمی ایک خوشگوارصبح کا آغاز

اگر پاکستان میں صرف کرپشن ختم ہوجائے تو پاکستان کو کسی بیرونی قرضے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔


عثمان فاروق December 04, 2014
پاکستان میں کرپشن میں کمی کی خبرمزید عزم و ہمت کا پیغام بھی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ زندہ حقیقت ہے کہ چٹانی حوصلے ہواوں کے رخ موڑ دیا کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

بعض اوقات اخبارات میں ایسی خبر پڑھنے کو ملتی ہے جن کا ذکر پاکستان میں صرف تاریخ کی کتابوں تک محدود ہو کر رہ گیا تھا جیسے دنیا میں کرپشن کی شرح کا جائرہ لینے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسپشن انڈیکس کے مطابق پاکستان گزشتہ بیس سال کے بعد کرپشن کی سب سے کم ترین سطح پہ آگیا، سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ بیس سال بعد پاکستان میں سب سے کم کرپشن ہوئی ہے اور 175ممالک میں سے پاکستان 126 ویں نمبر پر آگیا ہے۔

جب یہ خبر میری نظر سے گزری تو دل کو سنبھالنا مشکل ہوگیا کیونکہ پاکستان میں کرپشن میں کمی سے متعلق نایاب خبروں کا ذکر یا تو ہم نے بچپن میں اپنے دادا مرحوم سے سنا تھا یا پھرتاریخ کی قدیم کتابوں میں پڑھا تھا۔ ایسا روزِ سعید میری زندگی میں بھی آئے گا میں نے کبھی خوابوں میں بھی نہ سوچا تھا اس کی وجہ بھی بڑی معقول تھی کہ بحیثیت قوم کرپشن ہمارے اندر اتنی سرایت کرچکی تھی کہ بعض اوقات ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ ہم کرپشن کررہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ''رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں'' شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ کرپشن وہ ناسور ہے جو ملکی معیشت کا خون نچوڑ کر اسے تباہی کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے اور پھر قومیں بھوک و افلاس اور بدامنی کی بھینٹ چڑھ کر تاریخ کا گم شدہ باب بن جاتیں ہیں۔

ہمارے ملک میں عموماً سرکاری محکمے کرپشن کی جائے پیدائش سمجھے جاتے ہیں کیونکہ اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی کرپشن میں ساٹھ فیصد حصہ سرکاری اداروں کا ہے۔ سرکاری محکموں میں اپنا کام جلدی کروانے کے لیے جب ہم کسی سرکاری ملازم کو ''چند سوروپے'' تھما کر اپنی دانست میں خود کو بڑا عقل مند سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن شاید اسوقت ہمارا نصیب ہم پر رو رہا ہوتا ہے کیونکہ ایسا کرکے ہم نہ صرف اپنی آخرت تباہ کررہے ہوتے ہیں بلکہ ملک کی بربادی میں بھی حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف جس سرکاری ملازم کو ہم ''چند سو روپے'' دے کر اسکے منہ کو حرام کا لقمہ لگا دیتے ہیں وہ پھر ان چند حرام کے ٹکڑوں کی خاطر ہر کسی کا جائز کام اٹکانے لگتا ہے اور یوں کرپشن کا سرکل نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے افراد کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے۔

ہمارے ہاں سڑکوں کے ٹھیکوں سے لے کر دووھ کی دوکان تک اور جان بچانے والی ادویات سے کر عدالتوں کے کٹہروں تک ہر جگہ کرپشن کے نشانات ملتے ہیں۔ لیکن ایسے حالات میں ٹرایسپرنسی انٹرنیشل کی یہ رپورٹ کسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ہے کیونکہ تمام معاشی ماہرین اس بات پہ متفق ہیں کہ اگر پاکستان میں صرف کرپشن ختم ہوجائے تو پاکستان کو کسی بیرونی قرضے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ دراصل کرپشن ہی وہ بنیادی کینسر ہے جو ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہا ہے کرپشن کے ساتھ مسائل کا ایک انبار جڑا ہوا ہے جیسے بیروزگاری، ٹیکس کی عدم ادائیگی، بجلی چوری، گھوسٹ سکول، بیرونی قرضے ۔۔۔یہ سب چیزیں کرپشن کی ناجائز اولادیں ہیں کہ کرپشن کم ہوگی تو یہ چیزیں بھی کم ہوں گی اور کرپشن بڑھے گی یہ تمام چیزیں بھی بڑھیں گی۔

پاکستان میں کرپشن میں کمی کی خبرجہاں باعث مسرت ہے وہاں ہمارے لیے مزید عزم و ہمت کا پیغام بھی ہے کیونکہ اگر پاکستان کا نمبر 175 سے کم ہو کر 126تک آسکتا ہے تو وہ دن بھی دور نہیں جب پوری قوم کی کوششوں سے پاکستان پہلے نمبر پر آسکتا ہے اور یہ کوئی خواب نہیں بلکہ زندہ حقیقت ہے کہ چٹانی حوصلے ہواوں کے رخ موڑ دیا کرتے ہیں اسی طرح ہم بھی کرپشن کے ناسور کو اپنے ملک سے جڑ سے مٹا سکتے ہیں۔ بس اسکے لیے ضروری ہے کہ ہم آغار اپنے آپ سے کریں غور کریں کہ کہیں ہم تو اپنی زندگی میں کسی جگہ کرپشن نہیں کررہے یہ مت سوچیں ایک میرے کرنے سے کیا فرق پڑ جائے گا کیونکہ جب ہر کوئی ایسا سوچے گا پھر تو کبھی بہتری نہیں آئے گی کہ یوں ہی قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے۔

بس اب حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے مزید ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کردے۔ تمام سرکاری محکموں کا سسٹم کمپیوٹرائزڈ کردے ۔نہایت ایکٹو شکایت سیل بنا دیئے جائیں جوکہ کرپشن کی کسی معمولی سی شکایت پر بھی بارہ گھنٹوں کے اندر سزا سنائیں۔ چین میں کرپشن پہ سزائے موت دی جاتی ہے یہی قانون پاکستان میں بھی نافذ کیا جاسکتا ہے۔ ان تمام ممالک کا جائزہ لیا جائے جہاں کرپشن اپنی کم ترین سطح پر ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر سمجھ لیجیے کہ پاکستان کے اچھے دن شروع اور بُرے دن ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں