نیا پاکستان کیسا ہوگا
انصاف و دیانتداری دو اصول ایسے ہیں جن پر چل کر ہم پاکستان کی بقا کے لیے کام کر سکتے ہیں
FAISALABAD:
'اماں نیا پاکستان کیسا ہو گا؟' میرے بیٹے نے میری ماں سے سوال کیا۔ وہ اکثر اپنی نانی سے معنی خیز سوالات کرتا رہتا ہے اور مجھے یہ یقین دلاتا رہتا ہے کہ عہد حاضر کے بچے ہم سے زیادہ سمجھ دار ہیں۔ میری اماں نے اپنا پاندان بند کر کے بڑے پیار سے نواسے کو گود میں بٹھا لیا۔
نئی نسل کو سمجھانے کے لیے پیار و محبت کی ہی ضرورت ہوتی ہے، کہتے ہیں کہ محبت فاتح عالم، تو صاحب فتح کا یہ ہتھیار ہمار ے بزرگوں کے پاس موجود تھا۔ ان پڑھ ہونے کے باوجود وہ تہذیب و شائستگی کی زبان میں سمجھانے کا کام نہایت سلیقے سے انجام دیتے۔
ابھی میرے بیٹے کو اپنے سوال کا جواب نہیں ملا ہے۔ اماں نے پیار سے اس کے گال تھپتھپائے۔ ''دیکھو بیٹا! نئے اور پرانے پاکستان کی منطق تو ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم کوئی ڈگری یافتہ تو ہیں نہیں کہ بحث در بحث میں نئے اور پرانے پاکستان کی وضاحت کریں لیکن اس حقیقت سے ہم سے زیادہ باخبر کون ہو گا کہ جس پاکستان میں ہم رہے اس کو ہمارے ماں باپ اور پرانی نسل نے بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ ہماری عاقبت نااندیشی کی وجہ سے آدھا ملک ہاتھ سے نکل گیا اور باقی حصہ جو عطیہ خداوندی ہے ہمارا پیارا وطن ہے۔ ہمارے نفاق اور ہوس و ذاتی عناد کی وجہ سے برباد ہو رہا ہے بلکہ کمزور ہو رہا ہے، اب اس کمزور ہوتے ہوئے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم پاکستان بنانے میں نوجوان نسل کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ مضبوط و مستحکم پاکستان تمہارے روشن و شفاف مستقبل کی ضمانت ہے۔
انصاف و دیانتداری دو اصول ایسے ہیں جن پر چل کر ہم پاکستان کی بقا کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ بات آئی سمجھ میں؟ معلوم نہیں میرا بیٹا جواب سے مطمئن ہوا یا نہیں۔ وہ تو گردن ہلا کر کھیلنے چل دیا۔ لیکن میں اماں کی باتوں پر غور کر رہی تھی کہ بچوں کا کیا ہے وہ تو کھیلتے کھیلتے ہر چیز کو کھیل سمجھتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو سمجھ دار ہوتے ہیں وہ ہر پہلو پر غور و فکر کی نظر ڈالتے ہیں لیکن نظر کا کیا ہے کچھ لوگ نظر میں رہتے ہیں اور کچھ نظر بچا کر نکل جاتے ہیں، کچھ لوگ نظر ہی نہیں آتے اور کچھ لوگ اس قدر نظر آتے ہیں کہ طبیعت بیزار ہو جاتی ہے۔
طبیعت تو واقعی بیزار ہو جاتی ہے بلکہ خراب ہونے لگتی ہے جب جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آنے لگتے ہیں۔ ریستوران کے سامنے بہتے گٹر اور تعفن زدہ کچرے کا ڈھیر لب سڑک، کچرے کا ڈھیر، گھر کی دیوار ہو یا تعلیمی ادارے کی کہیں بھی آپ کچرے کی ایک دو تھیلیاں رکھ دیں بس کچرے کا انبار لگ جائے گا۔ کسی زمانے میں قربانی کے بعد گلیوں میں چونا پڑا ہوا نظر آتا تھا لیکن شاید اس مرتبہ چونا لگانے چونا پھیرنے یا چونا ڈالنے کا کام نہ ہو سکا۔ بدبو اور جلتے ہوئے کچرے کا دھواں، دم سا گھٹنے لگتا ہے۔ پانی غائب، بجلی غائب یہ عذاب کچھ کم ہے کہ گندگی کے ڈھیر بیماریوں کا پیغام دے رہے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں غذائی اشیا ہوں یا ادویات، دونوں ہی عام طبقے کی دسترس سے باہر ہیں۔ ہائے جائیں تو جائیں کہاں۔
عام و خاص طبقہ وی آئی پی کلچر صدیوں پرانی روایت سنا ہے کہ اب یہ کلچر ختم ہو جائے گا۔ خاص و عام کا فرق مٹ جائے گا۔ کیا ہم واقعی یقین کر لیں، کیا واقعی کسی کے پاس جادو کی چھڑی ہے یا آلہ دین کا چراغ جو چراغ رگڑتے ہی جن حاضر ہو گا کہ کہیے میرے آقا کیا حکم ہے اور پورے کا پورا نظام لمحے میں تبدیل کر دے گا۔
آقا اور غلام یہ رشتہ کسی نہ کسی روپ میں ہمیشہ قائم رہتا ہے اور قائم ہے، احکامات آقاؤں کے ہوتے ہیں اور سر غلاموں کے کٹتے ہیں۔ موت زندگی سے اور زندگی موت سے کل بھی نبرد آزما تھی اور آج بھی ہے، ارے ہاں یاد آیا آج میں نے اپنی دوست کی بنائی ہوئی دو تصویریں دیکھیں کرسی پر جی ہاں الگ الگ دونوں تصویروں میں کرسی پر دو بندے بیٹھے تھے۔ جسم اور لباس الگ الگ تھے لیکن چہرے ایک ہی تھے۔
میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ جب دونوں الگ الگ ہیں تو چہرے کو تبدیل کیوں نہیں بنایا تو وہ ہنس دی۔ میری معصوم دوست چہرے کی بات کرتی ہو، کرسی پر بیٹھ کر سب کے چہرے ایک جیسے ہو جاتے ہیں یہ کرسی کا کمال ہے جو میں نے اپنی تصویروں میں دکھایا ہے مجھے شرمندگی ہوئی کہ اتنی چھوٹی سی بات میں نہ سمجھ سکی۔ مجھ سے تو بچے عقل مند ہیں۔ کل ہی تو میرا بیٹا مجھ سے کہہ رہا تھا ماما آپ کتنی کمزور ہیں۔ جلدی سے طاقتور ہو جائیں، میں نے حیران ہو کر پوچھا کیوں تو اس نے جواب دیا کہ میرا دوست کہتا ہے کہ دنیا میں طاقتور زندہ رہتا اور کمزور ...... ماما میں چاہتا ہوں آپ زندہ رہیں۔
بیٹا اﷲ کی ذات پر یقین انسان کو طاقتور رکھتا ہے۔ میں نے پیار سے بیٹے کا گال چوم لیا۔
چھوٹی سی عمر میں بچے بڑی بڑی باتیں کرنے لگے ہیں۔ معصومیت کی عمر میں سمجھ دار ہو گئے ہیں جنھیں سمجھ دار ہونا چاہیے وہ نا سمجھ ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ کسی بزرگ سے سنا تھا اگر انسان اپنے آپ کو غور سے دیکھ لے تو اپنی ذات میں اتنے عیب نظر آئیں گے کہ دوسرے کے عیبوں پر نظر ڈالنے کی فرصت ہی نہیں ملے گی۔ یہی سوچ کر میں نے آئینے پر نظر ڈالی، کیا ڈراؤنا عکس تھا۔ چھوٹے سے چہرے پر لمبی سی زبان۔ توبہ لمبی لمبی زبانیں بھی کتنی بدنما لگتی ہیں۔
زبان تو منہ کے اندر ہی اچھی لگتی ہے۔ میں نے جلدی سے آئینے پر کپڑا ڈال دیا۔کھڑکی کے باہر بچے صحن میں شور مچا رہے تھے، بچے بھی اب بڑوں والے کھیل کھیلنے لگے ہیں۔ ایک بچے کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی اور اسے کرسی پر بیٹھنا تھا۔ جیسے ہی وہ بیٹھنا چاہتا دوسرے بچے کرسی کھینچ لیتے اور باقی بچے تالی بجاتے۔ باری باری سب آنکھیں بند کر کے کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کرتے۔
میں دیر سے یہ کھیل دیکھ رہی ہوں ابھی تک کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ بے وقوف بھلا آنکھیں بند کر کے کوئی کرسی پر کس طرح بیٹھ سکتا ہے۔ عجیب بات ہے کرسی کھینچ کر کسی کے گرنے کا تماشا کیا اس قدر دلچسپ ہوتا ہے کہ تالیاں بجائی جائیں۔ کیا بچے کم عمری میں ہی کرسی کے کھیل میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ خیر بچے تو بچے ہیں بوڑھوں کو بھی کرسی کا چسکا لگ گیا ہے۔ کہتے ہیں بچے اور بوڑھے برابر ہوتے ہیں بچوں کے کھیل کی اور بوڑھوں کی اﷲ اﷲ کرنے کی عمر ہوتی ہے اس عمر میں کرسی سے دلچسپی چہ معنی دارد۔
اے بی بی کیا کر رہی ہو؟ اماں کی آواز کمرے سے دالان تک آئی کیا کروں گی کرنے کے لیے رہ ہی کیا گیا ہے۔ سوائے کیچڑ اچھالنے اور باتیں بنانے کے۔ مگر اماں سے بول کر جان تھوڑی غضب میں ڈالنی ہے۔ سنو ذرا صحن میں کرسی رکھ دو بیٹھ جاؤں تھوڑی دیر۔ ڈاکٹر نے بوڑھی ہڈیوں کے لیے دھوپ سینکنے کو بولا ہے۔ اماں کو بھی کرسی کا چسکا لگ گیا ہے یہ نہیں کہ تخت صحن میں رکھوا لیں۔ کرسی یا تخت ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ اماں کی دوسری آواز کے ساتھ ہم نے کرسی کو مضبوطی سے تھام لیا۔