ایک عہد ساز قلم کار
ادبی دنیا کے بیشتر نامور ستاروں سے میری پہلی پہلی ملاقات اسی دفتر میں یا اس کے توسط سے ہوئی۔
آج اگر احمد ندیم قاسمی زندہ ہوتے تو یہ ان کا (99) ننانوے واں یوم پیدائش ہوتا کہ کاغذات کے مطابق وہ 20 نومبر 1916ء کو اس عالم فانی میں وارد ہوئے تھے۔ اگرچہ ان کو بھی دنیا کے بیشتر نامور انسانوں کی طرح زندگی کے زیادہ تر حصے میں معاشی حوالے سے کوئی خاص آسودگی نصیب نہیں ہوئی لیکن انھوں نے کبھی اس کا گلہ نہیں کیا۔ البتہ ادب و فن کے حوالے سے ان کی تحریروں میں ناقدر شناسیٔ عالم کا ذکر کہیں کہیں ضرور جھلکتا ہے۔ اس ضمن میں ان کا یہ شعر تو اب ضرب المثل کی شکل اختیار کرچکا ہے کہ
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
اب یہ بات الگ ہے کہ ان سنگ زنوں میں دو ایک ایسے بھی ہیں جن کا احساس کمتری آج بھی ان کو بے چین رکھتا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح اپنی تحریروں میں اپنے نامختتم حسد کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ان کی خصلت اس کیڑے جیسی ہے جس کا رزق ہی آگ میں لکھا گیا ہے۔ اس موقع پر پتہ نہیں کیوں مجھے غالب اور سودا کے دو شعر بہت یاد آرہے ہیں
جو چاہیے نہیں وہ مری قدرو منزلت
میں یوسف بقیمت اول، خریدہ ہوں(غالب)
ناقدر شناسی سے خلائق کی، جہاں میں
جس کو ہنر آیا اُسے انکار ہنر ہے (سودا)
لیکن بالآخر وقت نے یہ ثابت کردیا کہ یہ تینوں اور ان جیسے کچھ اور ''منتخب'' اور مثالی انسان ہی اپنے دور کے ساتھ ساتھ ساری نسل انسانی کے لیے سرمایۂ فخر ٹھہرے، قاسمی صاحب کا ادبی کیریئر تقریباً 75 برس پر پھیلا ہوا ہے جو 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر ان کی لکھی اور اسی دور میں شایع شدہ نظم سے لے کر 10 جولائی 2006ء پر محیط ہے جب وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔
اس عظیم اور شاندار کیریئر میں مجھے تقریباً 50 برس ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اور اس دوران میں ''فنون'' کے دفتر، مشاعروں، محفلوں، تقریبات اور غیر ملکی اسفار میں ان سے اتنی ملاقاتیں رہیں اور اس قدر وقت ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا کہ جس کا شمار بھی ممکن نہیں بالخصوص فنون کے دفتر کو اگر ایک کہکشاں کے مرکز سے تشبیہ دی جائے تو یہ کوئی غلط نہ ہوگا۔ ادبی دنیا کے بیشتر نامور ستاروں سے میری پہلی پہلی ملاقات اسی دفتر میں یا اس کے توسط سے ہوئی۔ کچھ نام جو اب ہم میں نہیں ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وقت نے ہمیں کتنے عظیم سرمائے سے محروم کردیا ہے۔ سید علی عباس جلال پوری، سید محمد کاظم، محمد خالد اختر، اختر حسین جعفری، شبنم شکیل، حفیظ تائب، پروین شاکر، غلام محمد قاصر، ظہور نظر، قتیل شفائی، اطہر نفیس، احمد فراز، محسن احسان اور خالد احمد ان میں سے چند ایک ہیں۔
جہاں تک قاسمی صاحب کی شخصیت اور فنون کی تربیت کا تعلق ہے تو اس سے کم یا زیادہ فیض یاب ہونے والوں کی فہرست محاورۃً نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر پھیلی ہوئی ہے۔ یوں تو ان کا دروازہ ہر ادیب اور ادب دوست کے لیے کھلا رہتا تھا لیکن ان کی جوہر شناس آنکھ پہلی نظر میں ہی ''صلاحیت'' کو پہچان لیتی تھی اور پھر وہ ایسے پیار اور بے غرضی سے اسے چمکانے اور آگے بڑھانے میں جت جاتے تھے جیسے کوئی فرض نبھا رہے ہوں۔
وہ ہر نئے لکھنے والے کی فطری تخلیقی قوت اور صلاحیت کے مطابق اس کی ایسی خاموش اور بالواسطہ رہنمائی کرتے تھے کہ وہ اپنے رستے میں آنے والی ہر منزل کو اپنا ذاتی کارنامہ سمجھنے لگتا تھا وہ پرانے استادوں کی طرح اپنے جونیئرز کو تقلید محض کا اسیر کرکے کولہو کا بیل بنانے کے بجائے ان میدانوں اور منزلوں کا راستہ دکھاتے تھے جہاں وہ اپنی انفرادیت کی تشکیل کے ساتھ بہتر سے بہترین کا سفر کرسکیں۔ اب کبھی مڑ کر دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ ستّر، اسّی اور نوّے کی دہائیوں میں کس طرح انھوںنے مجھ سے سو کے قریب کتابوں پر تبصرے لکھوا لیے۔ میری کم از کم دو کتابیں ''عکس'' (فلسطین شاعری کے منظوم تراجم) اور ''نئے پرانے'' (کلاسیکی اردو شاعری کی تنقید اور انتخاب) شائد کبھی نہ لکھی جاسکیں۔ اگر ان کو قاسمی صاحب اور ''فنون کی محفل کے احباب کی مسلسل تعریف اور تحریک میسر نہ ہوتی۔
اسی طرح عطاء الحق قاسمی کا سفرنامہ ''شوق آوارگی' خالد احمد کے نعتیہ قصائد، فرحت پروین، نیلوفر اقبال اور مستنصر حسین تارڑ کے افسانے، نجیب احمد کی نظمیں اور محمد خالد اختر اور سید محمد کاظم کے بعض مضامین بھی شائد ان کے ادبی کارناموں میں وہ مقام حاصل نہ کرپاتے جو اب انھیں حاصل ہے۔ تیس برس کی عمر میں ایک شدید بیماری سے گزرنے کے بعد اپنی وفات سے تقریباً پانچ برس قبل تک انھوں نے ہر اعتبار سے بڑی صحت مند زندگی گزاری وہ خوش مزاج اور خوش گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ خوش لباس بھی تھے۔
ان کی منہ بولی بیٹی مرحومہ منصورہ احمد نے ان کی عمر کے آخری بیس برسوں میں ان کی خوراک اور آرام کا بہت خیال رکھا لیکن قاسمی صاحب کے مزاج اور فنون کے معاملات میں اس کے بڑھتے ہوئے دخل نے بعض ایسے مسائل بھی پیدا کردیے جس سے ان کے مزاج کی مخصوص نرمی اور برداشت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ فنون کے بعض پرانے دوستوں کو بھی کئی شکایات پیدا ہوئیں۔ اس صورت حال کا پرتو فنون کے آخری دس پندرہ شماروں، ان کے مشمولات، بالخصوص قاسمی صاحب کی تحریروں پر بھی پڑا جو بعد میں شخصی خاکوں کے ایک مجموعے کی شکل میں شایع ہوئیں۔ فیض صاحب والا متنازعہ مضمون بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔
قاسمی صاحب کا ایک کمال جس کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے یہ ہے کہ وہ اپنے عہد اور ہم عصروں کے حوالے سے کم از کم چار میدانوں میں سب سے پہلی صف کے آدمی رہے اور یہ اختصاص ان کے علاوہ اردو ادب کی تاریخ میں کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ اب ذرا ان چاروں شعبوں یعنی شاعری، افسانہ نگاری، کالم نگاری اور ادبی رسالے کی ادارت کے حوالے سے ان کے ہم عصروں کو بھی دیکھتے چلیے جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے شعبے کی آن اور پہچان تو تھا مگر شاید ہی ان میں سے کوئی ایسا ہو جو بیک وقت دو سے زیادہ شعبوں کی پہلی صف میں شامل کیا جاسکے۔
شاعری+ جوش، حفیظ، فراق، فیض، راشد، میراجی، ناصر کاظمی، مجید امجد، وزیر آغا، ساحر لدھیانوی، مجروح۔
افسانہ+ منٹو، بیدی۔ کرشن چندر، غلام عباس، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر۔
کالم نگاری+ چراغ حسن حسرت، ابراہیم جلیس، نصراللہ خاں، انتظار حسین، ارشاد احمد حقانی۔
ادارت+ محمد طفیل، مولانا صلاح الدین احمد، جمیل جالبی، وزیر آغا، میرزا ادیب، شاہد احمد دہلوی، علی سردار جعفری۔
ان فہرستوں میں شمولیت کے اہل کچھ اور بڑے نام بھی ہیں لیکن ان کا زمانۂ شہرت قاسمی صاحب کے زمانے سے دس برس قبل یا دس برس بعد میں شروع ہوا۔ اس لیے ان سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ 1940ء سے 1955ء کے درمیان ادبی دنیا میں غیر معمولی شہرت پانے والوں کی نشاندہی کی جاسکے کہ یہی زمانہ احمد ندیم قاسمی کے عروج کا ابتدائی دور ٹھہرتا ہے۔ اتنے طویل ادبی کیریئر میں ان کے فن کا گراف جس طرح سے مستحکم اور ترقی پذیر رہا ہے وہ اپنی جگہ پر ایک مثال ہے۔ اب آخر میں وہ نظم جو میں اکثر ان سے متعلق لکھی جانے والی اپنی تحریر میں شامل کرتا ہوںکہ اب تک ان کے بارے میں مجھے اس سے بہتر الفاظ باوجود کوشش کے نہیں مل سکے۔
میں نے اس شخص کی آنکھوں میں فروزاں دیکھی
اس کے نکھرے ہوئے باطن کی چمک
اس کی تحریر کی خوشبو میں گل افشاں دیکھی
اس کے مہکے ہوئے لہجے کی کھنک
اس کے کردار کے پردے میں نمایاں دیکھی
عظمت آدم خاکی کی جھلک
اس نے بتلایا مجھے!
کیسے فن کار کا فن اس کے احساس کی قوت سے جنم لیتا ہے
اس نے سکھلایا مجھے!
کس طرح کوئی زمانے کو مسرت دے کر، اپنے حصے میں الم لیتا ہے
آسماں،
کون سے لوگوں کے قدم لیتا ہے؟