رحمت عالمؐ کے نام
حضور کی زندگی کا مقصد یہی تھا کہ قبائلی عظمتوں کا خاتمہ ہو جائے، غلامی ختم ہو جائے، تقویٰ و پرہیز گاری معیار بن جائے۔
نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی وہاں ہر سو ظلم و بربریت کا راج تھا۔ جہالت کے اندھیرے چھائے تھے۔ قبائل آپس میں لڑتے تھے اور یہ لڑائیاں نسل در نسل جاری رہتی تھیں۔ شراب و شباب، رقص و سرود کی محفلیں سجتی تھیں، عورتوں کی توقیر نہیں تھی، لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، انسان بازاروں میں بکتے تھے، غلام اور باندیوں کا نظام رائج تھا، خانہ کعبہ بتوں کا مسکن تھا اور دنیا بھر کی خرافات وہاں کی جاتی تھیں، غرور و تکبر سے بھرے سردار خدا بنے بیٹھے تھے۔
یہ تھے وہ حالات جن میں پیارے نبیؐ پیدا ہوئے۔ کہتے ہیں اور ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ حضورؐ کی پیدائش پر دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت قیصر و کسریٰ کی بلند و بالا فصیلوں پر لرزہ طاری ہو گیا تھا اور اس کے کنگرے ٹوٹ کر گر گئے تھے۔ تب نجومیوں نے کہا کہ اس کی آمد ہو چکی کہ جو دنیا سے ظلم کا نشان تک مٹا دے گا۔
حضورؐ کا قبیلہ قریش تھا اور آپ کے دادا عبدالمطلب خانہ کعبہ کے متولی تھے، آپ کے چچاؤں کا بھی بڑا رعب داب تھا، حضرت ابوطالب، حضرت امیر حمزہ کا خصوصاً بڑا مقام تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے والد حضرت عبداللہ کا انتقال ہو گیا تھا، گویا آپ کا مقام اس معاشرے میں ایک یتیم بچے کا تھا۔ آپ کے ساتھ پیدا ہونے والے امرا کے بچوں کو دودھ پلانے والیاں مل گئیں اور آپ رہ گئے، حضرت دائی حلیمہ نے بڑھ کر یتیم بچے کو اٹھا لیا۔ یہ مرتبہ مقام جسے ملنا تھا مل گیا۔
حضورؐ کے قصے کو یہیں چھوڑ کر ذرا اپنی بات کہنے کی اجازت چاہوں گا۔ چار سال قبل حج کی سعادت نصیب ہوئی تھی، تیس دن مکہ مکرمہ میں گزارے اور حضور کے روضے پر حاضری کے لیے دل بے چین ہو رہا تھا، مدینہ شریف پہنچے، مسجد نبوی میں نماز ادا کی اور قدم حضور کی بارگاہ کی جانب اٹھنے لگے، اپنا کیا حال تھا، کیا بیان کروں، سبھی دل والے خوب سمجھ سکتے ہیں۔ میں مسجد نبوی میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک حضور کا سبز گنبد میرے سامنے آ گیا اور قاری وحید ظفر قاسمی کی آواز مجھے سنائی دینے لگی وہ نعت پڑھ رہے تھے۔
جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا
زندگی کا قرینہ بدل جائے گا
حضور کی بات حضرت دائی حلیمہ پر میں نے چھوڑی تھی اور میں اسی حوالے سے مزید بات کرنا چاہوں گا۔ حضور کو سلام پیش کر کے حضور کے ساتھیوں حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ کو سلام پیش کر کے، میرا رخ جنت البقیع کی طرف تھا۔ جہاں میرے حضورؐ کو اپنا دودھ پلانے والی حضرت حلیمہ کی قبر مبارک ہے۔ میں قبرستان میں داخل ہوا اور کسی نے رہنمائی کرتے ہوئے مجھے حضرت حلیمہ کی آخری آرام گاہ تک پہنچا دیا۔
میرے ہاتھ عظیم انتہائی متبرک ہستی کے لیے بارگاہ ایزدی میں اٹھے ہوئے تھے اور احتراماً نظریں جھکی ہوئی تھیں، بعد از فاتحہ نظریں اٹھیں تو سامنے حضور کا سبز گنبد نظر آ رہا تھا۔ میں دس روزہ قیام مدینہ شریف میں متعدد بار جنت البقیع گیا اور ہر بار حضرت حلیمہ سعدیہؓ کی قبر مبارک سے حضور کے سبز گنبد کا نظارہ ضرور کرتا تھا۔
اب میں واپس اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں۔ حضور کی پیدائش سے قبل آپ کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ آپؐ کی عمر محض آٹھ سال تھی کہ والدہ حضرت آمنہؓ بھی ساتھ چھوڑ گئیں۔ کہتے ہیں احد کے سیاہ پہاڑوں میں جہاں دن میں بھی ہیبت طاری رہتی ہے حضور نے اپنی والدہ کو قبر میں اتارا تھا۔ حضرت آمنہ کی قبر مبارک پر عام آمد و رفت نہیں ہے، کوئی قسمت والا پہنچ جائے تو پہنچ جائے۔
آٹھ سال کی عمر میں حضورؐ اپنے والدین کے سایہ عاطفت سے محروم ہو چکے تھے۔ آپ کے دادا عبدالمطلب اور چچا ابو طالب کے زیر کفالت آپ نے زندگی گزاری مگر ماں باپ کا نعم البدل تو کوئی نہیں ہو سکتا۔ یوں یتیمی یسیری کا احساس آپ کے ساتھ ساتھ رہا۔ اسی احساس نے آپ کو یتیموں، بے سہاروں، غلاموں، بے نواؤں کا ملجا، ماویٰ، مولیٰ بنا دیا۔
مولانا الطاف حسین حالی کی مسدس حالی سے چند اشعار پیش خدمت ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ' ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
خطا کار سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
حضور کی پوری زندگی محبت سے ہی عبارت ہے۔ حضور کی زندگی اسی طرح گزری۔ آپ کا اللہ کے پیغام پر یقین پختہ تھا اور آپ نے اپنی تحریک کو انتہائی نامساعد حالات کے باوجود جاری رکھا اور بالآخر محبت سے پورا عالم فتح کر لیا۔ آج پوری دنیا میں رائج تمام زبانوں میں اللہ کی کتاب اور حضور کی احادیث موجود ہیں۔
حضور کی زندگی کا مقصد یہی تھا کہ قبائلی عظمتوں کا خاتمہ ہو جائے، غلامی ختم ہو جائے، تقویٰ و پرہیز گاری معیار بن جائے۔ یہ آپ ہی تھے کہ جنھوں نے سیاہ فام غلام بلال حبشی کو سیدنا بلالؓ بنا دیا۔
طائف شہر میں حضورؐ اللہ کا پیغام لے کر پہنچے وہاں کے سرداروں نے آوارہ لڑکوں کو حضور کے پیچھے لگا دیا، جو آپؐ کو پتھر مارتے مارتے شہر کے باہر چھوڑ کر واپس لوٹے، حضرت جبریل ؑ آئے اور بولے ''حضورؐ ! حکم فرمائیں، طائف کے پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں تا کہ یہ شہر نابود ہو جائے۔'' آپؐ سر سے پاؤں تک لہو لہان تھے، مگر کمال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضور نے کہا ''ہرگز نہیں، ان ہی لوگوں میں وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کے پیغام اور میری تحریک کو آگے لے کر چلیں گے۔''
ابھی چند روز پہلے میں نے ایک مختصر محفل میں یہ بات کہی تھی کہ ''میرے حضور رحمت اللمسلمین نہیں ہیں بلکہ یہ رحمت اللعالمین ہیں۔''
اسی سراپا رحمت کے نام پر شہزاد مسیح اور اس کی بیوی شمع مسیح کو نیم مردہ کر کے جلتے بھٹے میں پھینکنے والے نہ انسان ہیں، نہ مسلمان ہیں۔ یہ ''کچھ اور'' ہیں، ان کا نشان عبرت بننا ضروری ہے۔ کیونکہ ''یہ معاملہ کوئی اور ہے'' حضور تو وہ ہیں کہ جنھیں ایک عیسائی مصنف نے ''دنیا کے سو عظیم انسان'' نامی تصنیف میں پہلے نمبر پر رکھا اور اپنے نبی حضرت عیسیٰ کو دوسرے نمبر پر۔ حضور کی شان میں غیر مسلموں نے بھی مدح سرائی کی ہے۔ اپنے ہی عہد کے معروف سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کے نعتیہ شعر پر بات ختم کروں گا۔
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں