گھر سے باہر

پسند کی شادی کرنا جرم نہیں مگر لڑکیوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے کسی انجان شخص پر اعتماد کرلیتی ہیں۔


فاطمہ نقوی November 11, 2014
[email protected]

QUETTA: کچھ دن پہلے ایک ڈاکیومنٹری کے سلسلے میں ایسے ادارے میں جانا پڑا جو ان خواتین کو جو مختلف مسائل کی وجہ سے گھروں کو خیرباد کہہ دیتی ہیں، قانونی، نفسیاتی اور رہائشی مدد فراہم کرتے ہیں ۔ خاتون ہونا ہمارے معاشرے میں لگتا ہے کسی سزا سے کم نہیں کیونکہ ہر موڑ ، ہر قدم پر جو تذلیل اٹھانا پڑتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، اکثر گھروں میں اپنی ہی بہن بیٹی یا بہو کو اس قدر ہراساں کردیا جاتا ہے کہ وہ گھر جیسی پناہ گاہ سے قدم باہر نکالنے پر مجبور ہوجاتی ہیں اور پھر ایسے اداروں میں پناہ لیتی ہیں، جہاں ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کیا جاتا ہے۔

مگر ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں حقائق کو جانے بغیر ہی تنقید کی جاتی ہے اور ہر وہ لڑکی یا عورت جو گھر سے باہر قدم نکالتی ہیں انھیں گھر سے بھاگنے والی کا خطاب دے دیا جاتا ہے اور پھر گھر والے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے، لیکن کچھ جگہوں پر واقعی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خواتین بھی زیادتی کرتی نظر آتی ہیں جیساکہ جب ہماری ایک خاتون سے بات ہوئی تو پتا چلا کہ اس کے گھر والے اسے پسند کی شادی کرنے میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، حالانکہ یہ خاتون یا لڑکی جوکہ اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کر رہی تھی۔

والدین نے ہر طرح کی آسائش مہیا کی ہوئی تھی، پسند کے کھانے سے لے کر ہر چیز اس کی مرضی کی ہوتی تھی مگر بدقسمتی سے والدین پسند کی شادی پر راضی نہ ہوئے اور اس المیے نے جنم لیا کہ لڑکی نے گھر کے باہر قدم نکالنے میں اس لڑکے کو ملوث کیا اور کورٹ پہنچ گئی جہاں سے اسے اس ادارے میں بھیج دیا گیا جہاں وہ اپنے گھر والوں کی نظروں سے دور اپنے کیس کے حق میں ڈٹی ہوئی تھی۔

پسند کی شادی کرنا جرم نہیں مگر لڑکیوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے کسی انجان شخص پر اعتماد کرلیتی ہیں جب کہ والدین اپنے تجربے کی روشنی میں اسے مسترد کردیتے ہیں ۔ اکثر جگہوں پر یہ بھی ہوتا ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو حق رائے نہیں دیتے جس کی وجہ سے بھی مسائل جنم لیتے ہیں اور جگ ہنسائی کا موقع ملتا ہے، اس لیے اگر لڑکی کی پسند کو زیر غور لاکر اور دیکھ بھال کرکے رشتے کے لیے ہاں کردی جائے تو جب بھی مسائل سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ بچے والدین کی تمام تر قربانیوں کو پس پشت ڈال کر صرف کمزور پہلو کو بھی مدنظر رکھ کر بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے بھیانک انجام سے بھی دوچار ہوجاتے ہیں اور کہیں کہیں خواتین اپنی شادی شدہ زندگی کو داؤ پر لگا کر بھی اپنے اجڑے ہوئے ارمان پورے کرنا چاہتی ہیں۔ (س) کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔

اس کی شادی والدین نے 12 سال پہلے اپنی مرضی سے طے کی، جہاں وہ شادی کرنا چاہتی تھی وہاں نہیں ہوسکی، 12 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس کا تعلق وہاں رہا اور دو بچوں کی پیدائش کے بعد بھی اس کا دل اپنے گھر میں نہ لگ سکا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ موقع ملنے پر اپنے گھر کو چھوڑ گئی اور جاتے وقت اپنی بچیوں کو بھی نہ لیا کیونکہ بچیاں تو اس کی راہ میں رکاوٹ تھیں۔ اس طرح کی صورت حال میں مختلف سوشل ورکرز اور ماہر نفسیات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو ایسی خواتین اور لڑکیوں کو معاشرتی تقاضوں سے آگاہ بھی کریں اور انھیں اپنے اقدامات جس کی بدولت معاشرے میں ان کے گھر والوں اور انھیں بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کے نتائج سے آگاہ کرکے انھیں گھر واپس پلٹنے پر مجبور کریں کیونکہ گھر ایسی پناہ گاہ ہے جہاں کچھ مصائب تو ضرور ہیں مگر بہت سی اخلاقی برائیوں سے بھی بچانے کا سبب ہیں، اس کے علاوہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ مختلف تعلیمی اداروں میں سوشل ورکر اور ماہرین نفسیات لڑکیوں کی کاؤنسلنگ کے فرائض انجام دیں تاکہ انھیں پہلے سے آگاہی ہو کہ ان کے اقدامات کے دوررس نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کوئی بھی لڑکی ہو یا خاتون گھر سے قدم باہر نکالنے کے لیے سو بار ضرور سوچے کیونکہ گھر سے باہر مختلف قسم کے بھیڑیے ان کو کھانے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ انسانی حقوق پر کام کرنے والی بعض تنظیمیں کسی مخصوص کیس اور حالات پر تو جی بھر کر واویلا کرتی ہیں مگر ان اسباب کا سدباب کرنے کے لائحہ عمل پر کام نہیں کرتیں اور معاشرتی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑنے اور خواتین کے حقوق کا خیال رکھنے کے لیے ایسے پروگرام کی ضرورت ہے کہ جو خواتین کو گھر یا گھر سے باہر عزت و احترام دینے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کا تحفظ بھی کرے اور ساتھ ساتھ والدین اور دوسرے گھر والوں کے لیے بھی شعوری بیداری کے پروگرامز شروع کیے جائیں ۔

تاکہ مستقبل میں وہ مائیں اور لڑکیاں غلط اقدام کا شکار ہوکر اپنے لیے اور اپنی آیندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی کئی مسائل کے پہاڑ کھڑے کرلیتی ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خواتین مسائل کا شکار ہوکر جب گھر سے باہر قدم نکالتی ہیں تو اکثر جائے پناہ نہیں ملتی اور یہ بھی ہوتا ہے کہ عدالت یا ادارے اگر فریقین میں مصالحت کروا دیتے ہیں تو خواتین کو یہ ضمانت نہیں ملتی کہ آیندہ وہ ان مصائب کا اور مظالم کا شکار نہیں ہوں گی، اس لیے وہ اپنے گھر واپس جانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات ان کے خدشے درست ثابت ہوتے ہیں۔ اکثر گھر سے بھاگ کر واپس جانے والی لڑکیوں کو یا تو مار دیا جاتا ہے یا زندہ درگور کردیا جاتا ہے۔

اس لیے اکثریت کی تعداد جب قدم باہر نکال لیتی ہے تو ان کا دل واپس جانے کو نہیں کرتا، وہ ساری کشتیاں جلا کر سارے رشتوں کو ٹھکرا کر گھروں سے نکلتی ہیں، اس لیے ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اگر خاندان کے درمیان مصالحت ہوجائے تو بھی کچھ عرصہ ان خواتین کو عدالت کی طرف سے تحفظ حاصل رہے تاکہ وہ وہاں محفوظ رہ سکیں، اسی طرح والدین، اولاد اور میاں بیوی کے درمیان اعتماد پروان چڑھایا جائے تاکہ آیندہ آنے والی نسلیں پراعتماد ہوسکیں۔

یاد رکھیں ایک ماں کے ہاتھوں میں اس کی نسلوں کی تربیت ہوتی ہے اس لیے آج اگر ہم ان کو درست رہنمائی فراہم کریں گے تو مختلف گھر آباد بھی رہیں گے اور ان گھروں میں پلنے والے بچے نفسیاتی، معاشرتی مسائل کا شکار بھی نہیں ہوں گے اس لیے کوشش یہ کی جائے کہ جو خواتین اپنے گھروں سے قدم باہر نکال لیں تو ان کی معاشرتی اصلاح کی جائے ان کے گھر والوں سے مل کر ان کی دوبارہ واپسی کے راستے کو ہموار کیا جائے اور اگر جہاں بالکل ناممکن ہو وہاں پر ان خواتین کو تعلیم و ہنر دینے کے ساتھ ساتھ ان کے گھر بساکر انھیں معاشرتی تحفظ بھی فراہم کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں