بھیک کی روٹی

یہ ہے ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر جہاں محنت کی عظمت کا تذکرہ تو کیا دوسروں کی محنت پر عیش کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔


فاطمہ نقوی October 28, 2014
[email protected]

پرانے زمانے کا قصہ ہے کہ ایک فقیر شہر سے مانگ تانگ کر واپس اپنے گاؤں جا رہا تھا، راستے میں ایک گھنا جنگل تھا، فقیر نے سوچا کہ گاؤں ابھی کچھ دور ہے کیوں نہ آرام کرلیا جائے، وہ سونے اور آرام کرنے کی غرض سے ایک گھنے درخت کے پاس پہنچا، وہاں پہلے ہی سے ایک مسافر سویا ہوا تھا اور اس کا سواری کا اونٹ درخت سے بندھا ہوا تھا، فقیر نے بھی اسی جگہ قیام کیا اور لمبی تان کے سوگیا، جب سو کر اٹھا تو دیکھا کہ اس نے جو روٹیاں اور کھانا مانگ کر اکٹھا کیا تھا وہ تھیلا خالی ہے، اسے اونٹ نے کھا لیا تھا، یہ دیکھ کر فقیر نے واویلا مچانا شروع کردیا۔

یہ شور سن کر اونٹ کے مالک کی آنکھ بھی کھل گئی اور اس نے فقیر سے کہا شور کیوں کرتا ہے؟ فقیر نے کہا تیرے اونٹ نے میری روٹیاں کھا لی ہیں جو میں مانگ کر لایا تھا۔ یہ سن کر مالک نے بھی رونا شروع کردیا۔ فقیر حیران رہ گیا اور اس نے حیرت سے اونٹ کے مالک سے کہا۔ تم کیوں رو رہے ہو؟ مسافر نے کہا اب میرے اونٹ کا کیا ہوگا اسے بھی مانگے تانگے کی عادت پڑ جائے گی۔

مانگ کر کھانا ایک ایسی عادت ہے جس کی وجہ سے اونٹ کا مالک بھی اپنے اونٹ کے لیے رو دیا جب کہ اونٹ تو جانور تھا مگر آج جب ہم اس ملک پاکستان میں دیکھتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ ہمارا تو گزارا ہی مانگے تانگے پر ہے۔ آج ہی کا واقعہ ہے کہ بس میں سفر کرتے ہوئے ایک ہٹی کٹی عورت بس میں چڑھی اور دوپٹہ پھیلا پھیلا کر دعاؤں کے ڈونگرے برسانا شروع کردیے جس کی وجہ سے اکثریت نے کچھ نہ کچھ دینا شروع کردیا مگر ایک لڑکی جوکہ کسی فیکٹری میں کام کرتی تھی اس نے کہا تم ماشا اللہ صحت مند ہو۔ مانگ کر کیوں کھا رہی ہو؟ میری طرح محنت کرو۔ یہ جملہ سنتے ہی اس عورت نے باتیں سنانا شروع کردیں اور ایسے ایسے کوسنے دیے کہ بس میں بیٹھنے والے سب کانپ اٹھے۔ آخر ایک دو لوگوں نے اسے خیرات دے کر منہ بند کرنے پر مجبور کردیا۔

یہ ہے ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر جہاں محنت کی عظمت کا تذکرہ تو کیا دوسروں کی محنت پر عیش کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حق دار لوگ محروم رہ جاتے ہیں جوکہ واقعی میں مستحق ہیں جن کا گزارا تمام دن محنت کرنے کے باوجود پورا نہیں پڑ رہا مگر ایسے لوگوں کی مدد کرنے کے خیال سے کوئی آگے نہیں بڑھتا کیونکہ وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں مگر کیونکہ وہ دست سوال دراز نہیں کرتے جس کی وجہ سے کسی کو بھی پتا نہیں چلتا کہ ان کے پڑوس میں اور قریبی عزیزوں پر کیا گزر رہی ہے۔

ہمارے مال اور زکوٰۃ کے اصل حقدار یہ لوگ ہی ہیں مگر ہوتا یہ ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں کا منظم گروہ لوگوں کے جذبات کو ابھار کر مال و متاع اکٹھا کرلیتا ہے جس کی وجہ سے یہ کاروبار عروج پر ہے۔ مختلف تہواروں کے موقعے پر لوگوں کی بڑی تعداد بڑے شہروں کا رخ کرتی ہے اور اپنی چرب زبانی کے جوہر دکھا کر پورے سال کے اخراجات کے لیے رقم اکٹھی کرکے واپس اپنے ٹھکانوں پر لوٹ جاتے ہیں۔ اکثر تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پوش علاقوں کے مخصوص ٹھکانوں پر مخصوص وین آتی ہیں اور عورتوں، بچوں کو ان ٹھکانوں پر بٹھا کر چلی جاتی ہیں جہاں یہ سارا دن بیٹھ کر لوگوں کے جذبہ ہمدردی کو اجاگر کرتے اور مال بناتے ہیں پھر واپس وین آتی ہے اور ان لوگوں کو لے جاتی ہے جس میں کمیشن کاٹ کر ان لوگوں کی سارا دن کی مزدوری ادا کر دی جاتی ہے۔

کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں انھیں اپنا پیٹ بھرنے سے ہی فرصت نہیں تھی کہ وہ گداگری جیسے مسئلے پر دھیان دیں حکومت کی اس چشم پوشی کا یہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں کوئی پوچھ گچھ کرنیوالا نہیں یہ مرض ہمارے معاشرے میں سرطان کی طرح پھیل چکا ہے۔ اس کے سدباب کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ صاحب ثروت حضرات ان پیشہ ور بھکاریوں کو دینے کی بجائے اپنے قریب میں ایسے سفید پوش لوگوں کی مدد کریں جو آپ کی ہمدردی کے مستحق ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے مال کا بہت سارا حصہ مختلف پروگرامز اور این جی اوز کو دے دیتے ہیں مگر اپنے ایمپلائیز پر ان کی نظر نہیں جاتی۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ مختلف کمپنیاں اور ادارے جہاں بہت سے لوگ کام کرتے ہیں وہ اپنے ہی ملازمین کو مختلف کاموں جیسے گھر بنانے یا بیٹیوں کی شادی یا پھر ان کے بچوں کی تعلیم کی مدد میں اپنے خیرات زکوٰۃ کی رقم کو استعمال کریں۔ ایک خاتون جوکہ مالی طور پر مستحکم ہیں اور اسلامی لحاظ سے بھی ان کے افکار و خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں انھوں نے ایک این جی او کو تالیوں کی گونج میں لاکھوں کا چیک دیا مگر جب ان کے ادارے میں ایک ملازم نے اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں ان سے مدد کی درخواست کی تو ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ ہیں ہمارے معاشرے کے دہرے معیارات یاد رکھیں کسی فرد یا طبقے کی پیشہ ورانہ امداد سے ان کے مستقبل کا حل تلاش نہیں کرسکتے بلکہ ان کو اپاہج بنانے میں ہمارا بھی کردار ہوتا ہے۔ اس لیے یہ افراد دھرتی پر بوجھ ہوجاتے ہیں۔

خواتین، یتیموں اور مساکین کو ہنر کے ساتھ ساتھ روزگار دلانے میں معاونت کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے گھرانے کی کفالت میں اہم کردار ادا کرسکیں اس کام کے لیے صرف جذبے اور محنت کی ضرورت ہے پیشہ ور مانگنے والوں سے جس حد تک ہوسکے اجتناب برتنا چاہیے اور خصوصاً ایسے لوگوں کی مدد پر کاربند رہنا چاہیے جو اپنی خودداری کی وجہ سے اپنا احوال دنیا کے سامنے نہیں لاتے اکثر اس پیشہ ورانہ مانگنے کی آڑ میں مختلف جرائم بھی پنپ رہے ہیں معاشرے کا ماحول تباہ ہو رہا ہے اکثر خواتین جو جسمانی لحاظ سے کمتر نہیں، صحت مند ہیں مگر مختلف چوراہوں اور پکنک اسپاٹ پر بھیک مانگتی نظر آتی ہیں اور پھر مختلف گاڑیوں میں بیٹھ کر کہیں چلی جاتی ہیں اس کی وجہ سے اخلاقیات کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔

معاشرے میں بے راہ روی بڑھ رہی ہے ارباب اختیار کے لیے مشورہ ہے کہ وہ خصوصی بنیادوں پر ان پیشہ ور گداگروں سے معاشرے کو پاک کریں مگر ساتھ ساتھ ان پیشہ ور گداگروں کے لیے ملازمتوں کا بندوبست بھی کریں تاکہ یہ لوگ معاشرتی دھارے میں یکجا ہوکر اپنی بحالی اور ملک کی بحالی کے لیے کام کریں قوموں کی ترقی افراد کی ترقی میں ہی پوشیدہ ہے مگر بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ مانگے تانگے کی زندگی سے اپنی وقتی خوشیوں کو دوبالا کیا جائے موجودہ حکومت بھی کشکول توڑنے کا دعویٰ لے کر آئی تھی مگر سب سے زیادہ بڑا کشکول بنوا کر ملکوں ملکوں گھوم کر زاد راہ اکٹھا کرکے اپنی بے جا شان و شوکت اور مراعات میں اضافہ کر رہی ہے خوددار اور استقامت والی قوموں کے یہ وطیرے نہیں ہوتے اپنے گھر کو آگ لگاکر روشنی کرنے سے گھر روشن نہیں ہوتا بلکہ گھر تباہ ہوجاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں