باپو رفیق رضوی سے سعیدی رضوی تک

ماڈرن اسٹوڈیو کی ترقی میں مدن کی صلاحیتوں اور کارکردگی کو بڑا دخل رہا ہے۔


یونس ہمدم October 25, 2014
[email protected]

تقسیم ہندوستان سے پہلے لاہور میں بھی فلم انڈسٹری اپنے عروج پر تھی اور بمبئی کی فلم انڈسٹری کو لاہور کی فلم انڈسٹری سے بڑی مدد ملتی تھی۔ لاہور کا پنچولی اسٹوڈیو مصروف ترین اسٹوڈیو ہوتا تھا پھر جب پاکستان بن گیا تو لاہور کی فلم انڈسٹری کچھ عرصے تک زوال کا شکار رہی۔ کچھ ہی عرصے بعد لاہور کی فلم انڈسٹری آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر دوبارہ مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے بہت سے مسلمان فنکار لاہور کی فلم انڈسٹری میں آنا شروع ہوگئے، ان میں فلمساز، ہدایت کار، موسیقار اور شاعر سب ہی شامل تھے۔

جن میں فلمساز، ہدایت کار شاعر نخشب، اداکار کمار، موسیقار ناشاد، ہدایت کار ایس ایم یوسف اور ہدایت کار بابو رفیق رضوی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ میں آج کے اپنے اس کالم میں باپو رفیق رضوی کی یادیں اور باتیں شیئرکروں گا۔ باپو رفیق رضوی بمبئی کے سینئر ترین ہدایت کاروں میں شمار ہوتے تھے اور انھیں بمبئی کی ساری انڈسٹری باپو کہہ کر پکارتی تھی۔ اور یہ اس طرح بمبئی فلم انڈسٹری کے باپ ہدایت کار تھے مگر پھر ان کے ساتھ بھی کچھ تعصب برتا جانے لگا تو یہ دل برداشتہ ہوکر پاکستان آگئے۔ پاکستان میں ان کی ملاقات چوہدری فرزند علی قلفی کراچی والے رفیق چوہدری سے ہوئی۔

رفیق چوہدری نے باپو رفیق رضوی کو سب سے پہلا سہارا دیا اور اپنی پہلی فلم ''پھر صبح ہوگی'' کے لیے ہدایت کار منتخب کرلیا۔ رفیق رضوی پاکستان میں بھی باپو مشہور ہوتے چلے گئے۔ رفیق رضوی صاحب نے سب سے پہلے ناشاد کو فلم کی موسیقی کی ذمے داری سونپی اور پھر وحید مراد، دیبا کو مرکزی کرداروں میں کاسٹ کیا۔ فلم کا اسکرپٹ آغا نذیرکاوش نے لکھا جو ان دنوں ہفت روزہ کردار میں معاون ایڈیٹر بھی تھے اور ان دنوں کئی فلمیں لکھ رہے تھے۔

اسی فلم میں موسیقار ناشاد نے پہلی بار بنگالی گلوکارہ رونا لیلیٰ کو متعارف کرایا۔ اور اسی فلم میں پہلی بار شاعر تسلیم فاضلی نے اپنا پہلا گیت لکھا، اس فلم میں فلمساز رفیق چوہدری نے جو بہت اچھا سنگر بھی تھا پہلی بار اس نے فلم ''پھر صبح ہوگی'' کا ٹائٹل سانگ گایا اور پھر رونا لیلیٰ کے ساتھ ڈوئیٹ گیت بھی گایا اور رفیق چوہدری کا بھی بحیثیت فلمساز آغاز اسی فلم سے ہوا۔ رفیق رضوی کی بطور ہدایت کار پاکستان میں یہ پہلی فلم تھی جو پاکستان میں جہاں بھی نمائش کے لیے پیش ہوئی وہاں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔

پھر رفیق رضوی صاحب علیل رہنے لگے اور کراچی ہی میں انتقال کرگئے۔ مگر انھوں نے اپنے بچوں کی پرورش بہت اچھی کی تھی ان کے تینوں بیٹے مسعود رضوی، رشید رضوی اور سعید رضوی نے اچھی تعلیم و تربیت حاصل کی تھی اور تینوں بیٹے اب اپنے پیروں پر کھڑے ہوچکے تھے۔ مسعود رضوی کمرشل فلموں کے پروڈیوسر تھے اور رشید رضوی نے وکالت کا پیشہ اپنایا اور ہائی کورٹ کے جسٹس کے عہدے تک پہنچے اور ان کے تیسرے بیٹے سعید رضوی نے اپنے والد کو فالو کرتے ہوئے فلم کے شعبے کو اپنایا۔

آغاز بحیثیت اسسٹنٹ کیمرہ مین کیا۔ پہلے ایسٹرن اسٹوڈیو میں معاون کیمرہ مین کے کچھ فلمیں کیں پھر جب ماڈرن اسٹوڈیو نے کام کا آغاز کیا سعید رضوی ماڈرن اسٹوڈیو سے وابستہ ہوگیا اور وہاں سینئر کیمرہ مین مدن انچارج تھا۔ مدد علی مدن کراچی کا مشہور کیمرہ مین تھا اس کے کریڈٹ پر بے شمار کمرشل فلمیں تھیں، جو بڑی مقبول عام ہوئی تھیں۔ مدن میرا بھی بہت بے تکلف دوست تھا اور شعر وشاعری سے بھی بڑا شوق رکھتا تھا۔

اور کبھی کبھی میرے اشعار سن کر اپنے مخصوص انداز میں تعریف بھی کرتا تھا۔ ماڈرن اسٹوڈیو کی ترقی میں مدن کی صلاحیتوں اور کارکردگی کو بڑا دخل رہا ہے۔ جب میں نے ماڈرن اسٹوڈیو میں فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کے لیے اسکرپٹ لکھنا شروع کیا تو اکثر و بیشتر سعید رضوی سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔میں نے اپنے دوست فلمساز اور ہدایت کار سعود رضوی سے کہا کہ ہماری فلم کا کیمرہ مین سعید رضوی ہوگا۔ اور اس طرح سعید رضوی پہلی بار فل فلیش کیمرہ مین کی حیثیت سے فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' سے وابستہ ہوگیا۔

اسی فلم میں میرے ہی تعاون سے سنگیتا کو ہیروئن کاسٹ کیا گیا اور پہلی بار میرا دیرینہ دوست معین اختر فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' میں بطور مزاحیہ اداکار کاسٹ کیا گیا اور فلم کے تمام اہم آرٹسٹوں نے میری دوستی ہی کی وجہ سے فلم میں بہت کم معاوضوں پر کام کیا۔ فلم کی ابھی پندرہ فیصد شوٹنگ ہی ہوئی تھی کہ سنگیتا کو لاہور کے کئی فلمسازوں نے کراچی سے لاہور شفٹ ہونے پر مجبور کردیا۔ اس طرح فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' تعطل کا شکار ہوتی چلی گئی۔ سنگیتا کو فلمساز، ہدایت کار، مصنف و شاعر شباب کیرانوی نے اپنی فلم ''انسان اور آدمی'' میں کاسٹ کرلیا اور سنگیتا پر ایک خوبصورت گیت فلمایا گیا جس کے بول تھے:

سو برس کی زندگی میں ایک پل

تو اگر کرلے کوئی اچھا عمل

یہ گیت تسلیم فاضلی نے لکھا تھا اور موسیقی ایم اشرف نے مرتب کی تھی۔ یہ فلم سپرہٹ ہوئی اور خاص طور پر سنگیتا پر فلمایا گیا مذکورہ گیت بہت پسند کیا گیا اور اس فلم کے بعد سنگیتا پر فلموں کی بارش ہونے لگی۔ اور بحیثیت سائیڈ ہیروئن اور ہیروئن اس کی کئی کئی فلمیں سیٹ کی زینت بنتی چلی گئیں۔ اور شبنم، بابرا شریف کے بعد سنگیتا بھی معروف ترین اداکاراؤں میں شامل ہوگئی تھی۔ تین چار سال کے بعد میری فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کا یونٹ مجبوراً فلم کی شوٹنگ کے لیے لاہور گیا۔

لاہور سے سنگیتا، ناظم اورکراچی سے معین اختر اور کمال ایرانی لاہور گئے۔ لاہور کے اے ایم اسٹوڈیو میں شوٹنگ مکمل کی۔ پھرکراچی میں فلم کو ایڈٹ کیا گیا فلم بہت لیٹ ہونے کی وجہ سے جب نمائش کے لیے پیش ہوئی توکامیابی سے دوچار نہ ہوسکی۔اب میں پھر کیمرہ مین سعید رضوی کی طرف آتا ہوں۔ سعید رضوی فوٹو گرافری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے بیرون ملک چلا گیا۔ وہاں سے جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس کراچی آیا تو اس نے جدید تکنیکی سہولتوں کے ساتھ اپنا ذاتی فلم اسٹوڈیو قائم کیا۔ کئی اچھی فلموں میں فوٹوگرافی کی اور اپنے آپ کو نامور کیمرہ مینوں میں شامل کرلیا۔

اس دوران بہت سی خوبصورت کمرشل فلمیں بھی بنائیں پھر سعید رضوی نے باہر کی تعلیم سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلی سائنس فکشن فلم ''شانی'' کا آغاز کیا اور بہترین کیمرہ ورک پیش کیا فلم کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ اب اس کا کیمرہ بھی خوب چل رہا تھا اور اس کا ذاتی اسٹوڈیو بھی دوڑ رہا تھا۔

''شانی'' کے بعد اس نے ایک ہارر (Horror) فلم ''سر کٹا انسان'' بنائی جس نے سارے پاکستان میں تہلکہ مچا دیا اس فلم نے بھی باکس آفس پر بڑی کامیابی حاصل کی کچھ عرصے کے بعد میں لاہور سے اپنی فیملی سے ملنے کراچی آیا اور سعید رضوی کے اسٹوڈیو میں ملاقات کرنے گیا تو سعید رضوی بولا ''یار! اچھے وقت پر کراچی آئے ہو، میں اپنی سوشل فلم ''طلسمی جزیرہ'' شروع کرچکا ہوں، تم سے گانے لکھوانے میں آسانی ہوگی۔''

پھر سعید رضوی نے ایک سچویشن دی کہ یار! بس اس پر گانا لکھنا ہے۔ تمہارے لکھے ہوئے گانے پر موسیقار دھن بنائے گا۔ کیونکہ فلم کی ہیروئن، شہری زندگی سے نامانوس ہے اور محبت کے روایتی الفاظ بھی استعمال نہیں کرسکتی یہ ذرا الگ گانا ہوگا۔ میں نے چیلنج قبول کرتے فلم کی سچویشن پر گیت لکھا جس کے بول تھے:

پھولوں کا خوشبو سے صحرا کا جگنو سے

رشتہ ہو جیسے تیرا میرا بھی رشتہ ایسے

بادل کا بجلی سے برکھا کا بدلی سے

رشتہ ہو جیسے تیرا میرا بھی رشتہ ایسے

جب یہ گیت میں نے سعید رضوی کو سنایا تو اس نے واہ کہا اور فوراً اوکے کردیا۔ اس گیت کی ریکارڈنگ کے لیے گلوکارہ مہ ناز اور موسیقار کمال احمد کو لاہور سے بلوا لیا گیا پھر یہ گیت ریکارڈ کیا گیا۔ اس گیت کی خوشی میں سعید رضوی نے اپنے ڈیفنس کے گھر میں میری دعوت کی، اس کی بیگم نے بھی میرے گیت کو بڑا سراہا۔

سعید رضوی کے گھر میں اس کے مرحوم والد رفیق رضوی کی ایک قد آدم تصویر بھی لگی تھی جو فوٹوگرافی کا ایک نادر نمونہ تھی، سعید رضوی کو اس بات کا بڑا دکھ تھا کہ آج اس کے والد اس کی کامیابی اور شہرت دیکھنے کے لیے موجود نہیں ہیں۔ سعید رضوی نے اپنے ہدایت کار والد کا اور بھی زیادہ نام روشن کیا ہے اور یہ سب کچھ اس کے نامور باپ کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ سعید رضوی کل بھی میرا بہترین دوست تھا اور آج بھی وہ میری اور میں اس کی گڈ بک میں ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔