سرکاری اسپتالوں کی حالت زار لمحہ فکریہ
حکومتی ادارے کی جانب سے جو پانی شہریوں کو فراہم کیا جارہا ہے وہ سو فیصد معیاری نہیں ہے۔
یہ عیدالاضحیٰ کا تیسرا روز تھا کہ جب میں اپنے 5 سالہ بچے کو لے کر عباسی اسپتال کے ایمرجنسی مرکز میں پہنچا۔ ایمرجنسی میں ڈاکٹر نے چیک کرکے چوتھے فلور پر نیورو سرجن کے پاس جانے کا کہا۔ وہاں سرجن نے تفصیلات پوچھ کر ایک پرچی پر سی ٹی اسکین کرانے کا کہا کہ برابر والی بلڈنگ سے جاکر رابطہ کرلیں۔ میں بچے کو لے کر برابر والی بلڈنگ میں پہنچا جہاں سیکیورٹی پر مامور گارڈ نے روک لیا اور کہاکہ جناب موٹر سائیکل دوسری جانب پارک کریں اور پیدل جائیں۔ میں نے عرض کیا کہ ایمرجنسی ہے اگر آپ موٹر سائیکل لے جانے دیں تو میرا وقت بچ جائے گا اور کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوگا کیوں کہ رات کے دس بجے دور تک تمام جگہ خالی ہے۔
پارکنگ کا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ خیر میں نے گارڈ کے مطابق موٹر سائیکل دوسری جانب پارک کرکے بچے کو گود میں لے کر سی ٹی اسکین کے روم تک لے گیا، جہاں پر موجود ذمے دار نے کہاکہ پہلے اس بلڈنگ میں سی ٹی اسکین کی پے منٹ جمع کراکے سلپ لے کر آئیں۔ میرے بچے کی پریشانی دیکھ کر ان صاحب کو کچھ رحم آیا اور انھوں نے احسان کرتے ہوئے کہاکہ چلیں آپ پہلے سی ٹی اسکین کرالیں پھر بعد میں پے منٹ سلپ لاکر دیجیے گا، جب آپ سلپ دیںگے تب ہی رپورٹ آگے جائے گی۔ میں اسی حالت میں پھر دوسری بلڈنگ گیا، پے منٹ کرکے واپس آیا، انھیں سلپ دی اور پھر واپس ایمرجنسی بلڈنگ میں چوتھے فلور پر نیورو سرجن کے پاس پہنچا۔ ان سرجن نے کمپیوٹر پر رپورٹ کی فلم دیکھی اور کہاکہ مبارک ہو رپورٹ صحیح ہے، مٹھائی کھلایئے۔
میں اس چالیس، پچاس سالہ نیورو سرجن کو حیرت سے دیکھ رہا تھا جو کسی سرکاری کلرک کی طرح رشوت کو مٹھائی کا نام دے کر مجھ سے طلب کر رہا تھا۔ میں نے اس سرجن سے کہاکہ رپورٹ ٹھیک ہے تو پھر اس بچے کو مسلسل الٹیاں کیوں آرہی ہیں؟ کچھ دوا تو دیجیے۔ سرجن نے کہاکہ ہمارا کام صرف یہ دیکھنا تھا کہ سر میں کوئی اندرونی چوٹ تو نہیں آئی؟ اب الٹیاں کیوں آرہی ہیں ہمیں کیا پتہ؟ اس کے لیے تیسری منزل پر بچوں کے ڈاکٹر کے پاس جائیے۔ خیر میں بچوں کے ڈاکٹر کے پاس پہنچا تو انھوں نے جواب دیا کہ بچے کو الٹیاں سر میں چوٹ لگنے کے بعد شروع ہوئی ہیں لہٰذا دوا بھی نیورو سرجن ہی دے گا، آپ واپس سرجن کے پاس جائیں۔ میں حیران تھا۔ خیر پھر میں دوبارہ ایمرجنسی میں گراؤنڈ فلور پر آگیا اور ایمرجنسی کے ڈاکٹر کو پوری کہانی سنائی۔ انھوں نے جو جواب دیا اس پر تو ماتم کرنے کو جی چاہا۔ ان کا جواب تھا کہ ''میرا کام تو متعلقہ ڈاکٹر کے پاس بھیجنا تھا اب آپ جانیں اور وہ سرجن جانے''۔
میں یہ سوچ رہا تھا کہ میرا بچہ ایمرجنسی حالت میں ہے اور مسلسل الٹیاں کر رہا ہے، سرجن کے مطابق سی ٹی اسکین رپورٹ درست ہے تو اب بچے کو کہاں لے کر جاؤں؟ جب کراچی شہر کے ایک بڑے اسپتال، عباسی شہید اسپتال کے ڈاکٹر و سرجن یہ کہہ دیں کہ وہ سر پر چوٹ لگنے کے بعد صرف سی ٹی اسکین تو کرسکتے ہیں دوا دینا ان کا کام نہیں تو آپ کی کیفیت کیا ہوگی؟ اور پھر اس سارے عمل میں دو گھنٹے سے زائد لگ گئے حالانکہ یہ 20 منٹ سے زیادہ کا کام نہیں تھا۔
بہرکیف میں عباسی شہید اسپتال سے دو گھنٹے کی خواری کے بعد جس میں مجھے ہزار روپے خرچ کرکے ایک سی ٹی اسکین کی رپورٹ سنائی گئی (دی نہیں گئی) سیدھا لیاقت نیشنل اسپتال پہنچا۔ اس اسپتال میں پہنچ کر ایک ڈاکٹر نے ایمرجنسی میں بھی آدھا گھنٹہ انتظار کرایا۔ خیر پھر دوسرے ڈاکٹر سے اپروچ کرکے دوبارہ سی ٹی اسکین اور ٹریٹمنٹ ہوا جس سے میرے بچے کی حالت بہتر ہوئی۔ تین گھنٹے بعد بچے کو ڈسچارج کردیاگیا لیکن اس عرصے میں میرا بل دس ہزار کے قریب بن چکا تھا۔ جب کہ اس سے قبل عباسی شہید اسپتال میں میرے ایک ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ دونوں اسپتالوں میں علاج کا یہ فرق ایک اور دس ہزار روپے کی وجہ سے تھا یا فرائض کی اس غفلت کی وجہ سے تھا کہ جو ہمارے سرکاری ادارے ادا نہیں کرتے؟
ہمارے ایک دوست چند سال قبل جب کینیڈا سے پاکستان آئے تو انھوں نے ہمیں ایک واقعہ سنایا کہ وہ جس شہر میں مقیم تھے وہاں کے میئر نے عدالت میں ایک منرل واٹر کمپنی پر مقدمہ کردیا۔ میئر کا موقف تھا کہ بحیثیت میئر ان کی ذمے داریوں میں شہریوں کو پینے کا صاف ستھرا پانی فراہم کرنا بھی شامل ہے اور وہ اپنا یہ فرض صد فی صد ہی ادا کررہے ہیں جب کہ منرل واٹر کی کمپنی اپنے اشتہار میں شہریوں سے صاف ستھرا پینے کا پانی استعمال کرنے کے لیے اپنی کمپنی کا پانی ہی معیاری کہہ کر استعمال کرنے کا کہہ رہی ہے اور یہ ظاہر کررہی ہے کہ حکومتی ادارے کی جانب سے جو پانی شہریوں کو فراہم کیا جارہا ہے وہ سو فیصد معیاری نہیں ہے۔ میئر کا موقف تھا کہ جب وہ شہریوں کو صاف ستھرا پانی فراہم کررہے ہیں تو مذکورہ کمپنی کو اس عمل سے روکا جائے کیوں کہ اس سے میئر اور ان کے ادارے کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔
بظاہر یہ ایک چھوٹا سا مسئلہ معلوم ہوتا ہے لیکن یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ شہریوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات ان کی دہلیز تک فراہم کرنے کی ذمے داری ریاست کی اہم ترین ذمے داریوں میں شامل ہوتی ہے۔ صحت، تعلیم، انصاف اور تحفظ جیسی اہم ضروریات ریاست کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں لیکن بد قسمتی سے اب یہ ہمارے ہاں نجی اداروں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں۔ تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کی سکت ہو تو ہر دوسرا فرد اپنے بچوں کو اچھے نجی اسکول میں تعلیم کے لیے بھیجتا ہے، انصاف کے لیے زیادہ فیس اور شہرت کے حامل وکیل کا انتخاب کیا جاتا ہے، تحفظ کے لیے بجائے پولیس پر اعتماد کرنے کے نجی سیکیورٹی گارڈ رکھے جاتے ہیں اور صحت کے لیے بھی بجائے سرکاری اسپتالوں کے لوگوں کا رخ ان کی مالی حیثیت کے اعتبار سے نجی ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی طرف ہوتا ہے جو لوگ سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں ۔
ان کے تجربات کچھ زیادہ اچھے ثابت نہیں ہوتے۔ راقم کا بھی کچھ مختلف تجربہ نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب اس شہر کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال اپنی ذمے داریاں نبھارہے تھے، عباسی شہید اسپتال کی صورت حال میں بہت بہتری آئی تھی، صفائی ستھرائی کا بھی نظام بہت بہتر ہوگیا تھا اور عملہ بھی مستند اور کام کرنے پر تیار نظر آتا تھا۔ گو کہ آج بھی مجھے اس اسپتال میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی تصاویر اور جماعت کے رنگ برنگے پرچم نظر آئے مگر فرق یہ تھا کہ اس وقت مجھے احساس ہورہا تھا کہ عباسی شہید اسپتال کی کارکردگی اس قائد اور پرچموں کے وقار کو بلند کررہا ہے مگر اب ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شاید یہاں تصاویر اور پرچم لگانے کا مقصد عباسی شہید اسپتال کی گرتی ہوئی ساکھ کی طرح ان کی ساکھ کو بھی زمین بوس کرنا ہے۔
نہ جانے کب ہمارے منتخب نمایندوں، سرکاری اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ احساس ہوگا کہ ان کا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے اور اسی مقصد کے لیے انھیں عوام کے ووٹ ملے اور عوام کے ادا کیے گئے ٹیکسوں کی رقم سے تنخواہ مل رہی ہے۔ یہ انفرادی طور پر ان سب کی اور اجتماعی سطح پر ریاست کی ذمے داری ہے کہ لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات باآسانی فراہم کریں۔ اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستانی عوام کو نہ اپنے ووٹ کے استعمال کا شعور ہے نہ احتساب کرنا آتا ہے بلکہ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کے فرض کی ادائیگی حقوق العباد میں بھی آتی ہے جس کا احتساب دنیا میں تو نہ سہی لیکن آخرت میں کوئی چھوٹ نہ ہوگی اور آخرت کے حساب پر تو ہم سب کا یقین ہے خواہ کسی بھی فرقے اور مذہب سے ہمارا تعلق کیوں نہ ہو!