ایثار و قربانی کا تہوار

قربانی قدیم ترین شعائر دین میں سے ہے۔ یہ حضرت ابراہیمؑ کی عظیم اور یادگار ترین سنت ہے۔


[email protected]

قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے، نیز اس یادگار ابراہیمیؑ کو عملی طور پر امت مسلمہ کے لیے لازم و واجب قرار دے دیا گیا ہے، اور ان کے احکام رہتی دنیا تک قرآن و سنت میں محفوظ کردیے گئے ہیں۔ یہ ابدی احکام، ہر زمانے اور ہر دور میں انسان کو اس خلیل اللہی سبق کی یاد دہانی کراتے رہتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینا ہی انسانیت کی تکمیل اور عبدیت کی معراج ہے، نیز اس پر بھی حق عبدیت سے سبکدوشی نہیں۔

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

لہٰذا قربانی کیوں کی جاتی ہے اور سب سے پہلے کس نے کی؟ یہ سورۃ الصف میں حضرت ابراہیمؑ اور ان کے صاحبزادے حضرت اسمٰعیلؑ کے واقعے میں مذکور ہے۔ اسی طرح قربانی کی حقیقت اور فلسفے کے متعلق سورۃ البقرہ، سورۃ المائدہ، سورۃ الحج میں مذکورہ ہے اور صرف ''قربانی'' کے لفظی معنی اور مفہوم سورۃ المائدہ، سورۃ آل عمران، سورۃ الانعام، سورۃ الاحقاف، سورۃ الفتح اور سورۃ الکوثر میں موجود ہیں۔ قرآن حکیم میں قربانی سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے، پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے، یقینا آپؐ کا دشمن ہی بے نام و نشان رہے گا۔'' (سورۃ الکوثر)

''آپ کہہ دیجیے کہ بے شک میری قربانی اور میری زندگی اور موت سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔'' (سورۃالانعام)

اس کے علاوہ قربانی کے متعلق احادیث کے حوالے سے صحیح بخاری کی کتاب المناسک سے بھی رہنمائی حاصل ہوتی ہے، نیز احادیث کی دیگر کتب میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہؐ سے دریافت کیا کہ قربانی کی کیا حقیقت ہے؟ آپؐ نے فرمایا، تمہارے والد حضرت ابراہیم ؑ کی سنت یادگار ہے، صحابہؓ نے عرض کیا کہ پھر ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی نامہ اعمال میں لکھی جائے گی۔ (مشکوٰۃ)

ایک موقع پر حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے۔ (ترمذی شریف) رسول اللہؐ نے حضرت فاطمہ الزہراؓ سے فرمایا کہ بیٹی فاطمہؓ! جاؤ اپنی قربانی پر حاضری دو، کیونکہ اس کے خون سے جوں ہی پہلا قطرہ زمین پر گرے گا، تمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے، نیز وہ جانور (قیامت کے دن) اپنے خون اور گوشت کے ساتھ لایا جائے گا، پھر اسے ستر گنا (بھاری کرکے) تمہارے میزان عمل میں رکھا جائے گا۔

حضرت ابوسعیدؓ نے (یہ عظیم الشان فضیلت سن کر بے ساختہ) عرض کیا یا رسول اللہؐ! کیا یہ فضیلت صرف خاندان نبوتؐ (آل محمدؐ) کے ساتھ خاص ہے؟ کیونکہ (واقعتاً) اس کارخیر کے زیادہ مستحق ہیں یا آل محمدؐ اور تمام مسلمانوں کے لیے ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ (عظیم الشان فضیلت) خاندان نبوت کے لیے تو بطور خاص ہے، اور تمام مسلمانوں (میں سے جو قربانی کرے) کے لیے بھی عام ہے۔ (الترغیب و الترہیب)

قربانی قدیم ترین شعائر دین میں سے ہے۔ یہ حضرت ابراہیمؑ کی عظیم اور یادگار ترین سنت ہے۔ حضرت ابراہیمؑ وہ عظیم المرتبت ہستی ہیں جنھیں دنیا کے بڑے ادیان، یہودیت، عیسائیت اور اسلام نے انتہائی برگزیدہ تسلیم کیا ہے۔ یہ خدائے واحد بزرگ و برتر کا احسان عظیم ہے کہ اس نے انھیں بے انتہا عظمت و فضیلت اور شرف بزرگی بخشا۔ ''خلیل اللہ اور امام الناس'' کے خطابات سے سرفراز فرمایا اور روئے زمین پر اپنا پہلا گھر بیت اللہ شریف ان ہی کے ہاتھوں تعمیر کرایا، لیکن اس انعام و اکرام کو حاصل کرنے کے لیے انھیں جن امتحانوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا، اس کا تصور تک دل کو دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔

لہٰذا حضرت ابراہیمؑ کو ابتلا اور آزمائش کی جن کٹھن وادیوں سے گزرنا پڑا اور حق و صداقت کے اس علمبردار نبی و پیغمبرؑ نے خدا کی راہ میں جو عظیم قربانیاں پیش کیں، وہ قرآن حکیم نے ابدالآباد تک محفوظ کردی ہیں۔ رحمت اللعالمینؐ کے جد امجد کے ایک ایک کارنامے کو قرآن حکیم نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (ترجمہ) ''اور ابراہیمؑ نے کہا میں اپنے رب کی خاطر جا رہا ہوں، وہ میری رہنمائی فرمائے گا۔ اے میرے رب تو مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ ہم نے انھیں بردبار لڑکے کی بشارت دی۔

چنانچہ وہ حلیم لڑکا پیدا ہوا۔ جب وہ ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے اور دوڑنے کے لائق ہوگیا تو ابراہیم نے کہا کہ بیٹے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں، بیٹے تمہارا کیا خیال ہے؟ بیٹے نے جواب میں کہا، ابا جان! جو آپ کو حکم دیا گیا ہے، وہ کر ڈالیے (اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے)۔ جب باپ بیٹے دونوں اس کام کے لیے مستعد ہوگئے اور باپ، بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے پیشانی کے بل پچھاڑنے لگے، تو ہم نے ابراہیم کو پکارا، آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔'' (القرآن)

تاریخ انسانی کا یہی وہ عظیم واقعہ ہے کہ جس کی وجہ سے حضرت اسمٰعیلؑ کو ذبیح اللہ کہا گیا اور یوں منزل عشق میں کامیاب ہونے والوں کے لیے جریدہ عالم پر حیات دوام کے نقش ثبت کردیے گئے۔ لہٰذا قربانی کی یہ رسم عاشقی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ کی عملی یادگار ہے، جو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے، اور انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گی۔

دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان ہر سال سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں اور اپنے خلوص نیت اور عبدیت کاملہ کا ثبوت پیش کرتے ہیں لہٰذا 10 ذی الحج وہ مبارک تاریخی دن ہے کہ جب پوری امت مسلمہ اس عظیم واقعے کی یاد میں عیدالاضحی مناتی ہے اور اپنے موسس و مورث اعلیٰ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کی اس ادا، سنت اور رسم عاشقی کی یاد تازہ کرتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں