کمبل ہو گیا

جنگل میں ایک ہی قانون ہوتا ہے جو جیت گیا وہ بادشاہ۔ یا پھر جس نے مار دیا وہ بادشاہ۔


انیس منصوری October 01, 2014
[email protected]

جنگل کے شیر کو ہر روز بھوک مٹانی ہوتی ہے اس لیے ہر روز جنگل میں کم از کم ایک قتل ضرور ہوتا ہے۔ جنگل کے پاگل خانے میں مشہور ہے کہ جب تک جنگل میں قتل نہیں ہو گا تب تک بھوک نہیں مٹے گی۔ اب اپنی بھوک مٹانے کی مجبوری کو اگر کوئی بادشاہ کا تاج پہنا دے تو ہمیں کون سی کھجلی ہونی ہے۔

ویسے یہ بادشاہ، وزیر کے لقب ہم نے انسانوں کے منہ سے ہی سنے ہیں جانوروں کو تو کبھی بھی خوشامدیں کرتے نہیں دیکھا ہے۔ نہ ہی ہم نے سُنا ہے بادشاہ اپنی کچن کیبینٹ کے ساتھ پلاننگ کرتا ہے کہ جنگل میں کون سی جنگلا بس میں بکری کو لے کر آنا ہے۔ لیکن سُنا ہے کہ ایک بار یہ کارنامہ بھی جنگل میں ہوا تھا۔ اور جگہ جگہ یہ پوسٹر لگا دیے گئے تھے کہ نیا جنگل بن کر رہے گا۔

جنگل میں ایک ہی قانون ہوتا ہے جو جیت گیا وہ بادشاہ۔ یا پھر جس نے مار دیا وہ بادشاہ۔ اس مرض کو جنگل سے ختم کرنے کے لیے وہاں کے میڈیا نے اہم کردار ادا کیا اور ہر جگہ پھیلی بے چینی سب کو ایک نکڑ پر لے آئی۔ جس کے بعد سب کو یہ بیماری لگ گئی کہ وہ بھی ''کچھ'' بن سکتا ہے۔

اس الجھن کو سلجھانے کے لیے لومڑیوں کی عدالت میں شکاری جانوروں کی سماعت ہوئی۔ تمام قاتل شکاری جانوروں کا خیال تھا کہ تمام لوگ انھیں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور کروڑوں سال گزر جانے کے باوجود بھی انھیں بادشاہ نہیں کہا جاتا۔ شکاری جانوروں کا موقف تھا کہ سارے اچھے اور تگڑے جانور شیر مار دیتا ہے اور ہمارے حصہ میں چربی آتی ہے اور چربی بھی وہ جس سے صرف ایک بدبودار صابن بن سکتا ہے نوٹوں کی فیکٹری نہیں لگ سکتی اور یہ چربی انھیں دن بہ دن اتنا دبلا کر رہی ہے کہ وہ اسٹیج پر ناچ بھی نہیں سکتے۔

اس لیے شیر کو عزت سے سمجھایا جائے کہ شرافت کا دامن پکڑتے ہوئے ہمارے بیوی بچوں کا خیال کرے اور ہماری بھی دکان چلنے دے۔ اور اگر انھیں اپنی دکان بیچنے پر اعتراض ہو تو کم از کم کرایہ پر ہی دے دیں۔ لومڑیوں نے کئی گھنٹوں نہیں بلکہ کئی نسلوں تک اس مقدمے کی سماعت کرنے کے بعد درندوں کو یہ فیصلہ سنایا کہ اگر انھیں قتل عام ختم کرانا ہے تو شیر کو مار دیں یا پھر قتل کو قربانی کا نام دے کر جنگلی آئین میں جگہ دے دیں۔ بات آسان سی ہے ...کہ اب قتل کو قربانی کا نام دے کر اسے جائز بنانا ہے۔

فیصلہ آتے ہی ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ بکروں کے آوارہ ٹولے میں سب سے بوڑھا بکرا اس بات پر خوش تھا کہ چلو یہ اچھا ہوا کہ اب ہماری موت بے کار نہیں جائے گی اور کم از کم مرنے کے بعد ہم شہید کہلائین گے کیونکہ اب ہماری موت کو جنگلی آئین میں قربانی کا درجہ مل جائے گا۔ مرنا تو ایسے بھی ہے اور ویسے بھی تو کم ازکم آئین کے مطابق تو مرے۔ شکاری گھاس نہیں کھاتے لیکن بات ہماری ہی کر رہے ہیں کم ازکم ہمیں موت تو عزت کی ملے گی ۔

نوجوان چیتا اپنے بوڑھوں کے تبصرے سن رہا تھا۔ پچھلی جنگل گلی کا بوڑھا چیتا کہہ رہا تھا کہ لومڑیوں نے ہمیں پھنسا دیا۔ شیر کا جنگل سے صفایا تو ہو نہیں سکتا اور اس کی وجہ سے ہم بندھ گئے ہیں۔ لومڑیوں سے کہو کہ جنگلی آئین میں تبدیلی کی بات بعد میں کرے پہلے شیر کو یہ سمجھا دیا جائے کہ وہ ایک حد میں رہے اور ہر ایک کے حلقے میں نہ گھسے۔

دوسری گلی کا چیتا یہ فرمائیش لے کر گیا کہ لومڑیوں کو اس بارے میں بھی فیصلہ کرنا چاہیے کہ اب چیتوں کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے اس لیے اس کا شکار کرنے کا حلقہ بھی بڑا ہونا چاہیے۔ اس لیے ہمیں دوسری نسل کی بلیوں سے بھی رابطہ کرنا چاہیے جن کی آبادی بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ لیکن لگتا یہ تھا کہ یہ الگ الگ مونچھوں والی بلیاں ایک پنڈال میں آنے کے لیے تیار نہیں تھیں اور سب کو یہ ڈر تھا کہ دوسرا بازی نہ لے جائے۔ اس چکر میں چیتے کی حسرت وہیں دم توڑ گئی۔

ہاتھی کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ تو گھاس کھاتا ہے یا گنا چوستا ہے۔ لیکن اس کو ہمیشہ یہ گمان رہا کہ وہ کیونکہ سب سے زیادہ وزنی ہے اس لیے جنگل کا بادشاہ اسے ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے شیر اور ہاتھی میں اکثر نوک جھونک بھی ہوتی رہتی ہے۔ ہاتھی کا کیا لینا دینا۔ لیکن چل پڑے جناب وہ بھی شیر پر دباو بڑھانے کے لیے۔ کہ چلو اس طرح خبروں میں تو جگہ ملے گی۔ شیر نے کئی بار کہا کہ جاؤ اللہ اللہ کرو۔ لیکن ہاتھی صرف اپنی بیوی کو لے کر مظاہرے میں شامل ہو گیا۔ ایک صحافی نے پوچھا کہ جناب آپ کے ساتھ ہر مظاہرے میں صرف آپ کی بیوی ہی ہوتی ہے لیکن ہر چینل پر آپ نظر آتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ تو ہاتھی نے اپنی سونڈھ سے لمبا سانس لینے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ووٹوں کا وزن بھلے آج تک ہماری نسلوں نے نہیں دیکھا لیکن لفظوں کا وزن بہت زیادہ ہے اس لیے ہم صرف اپنی بیوی کے ساتھ بہت زیادہ بھاری ہو جاتے ہیں۔

کتے اور بلیوں نے کبھی بھی ایک دوسرے کو جنگلی نہیں مانا۔ کتوں کا اصرار یہ رہا کہ بلی کیونکہ ہڈی نہیں چوستی اس لیے وہ جنگلی نہیں اور بلیوں کا ہمیشہ یہ غصہ رہا کہ کیونکہ کتا درخت پر تیزی سے نہیں چڑھ سکتا اس لیے وہ جنگلی نہیں۔ اس چکر میں کئی بلیوں اور کتوں کے گھر اجڑ گئے۔

خرگوش نے انھیں کئی بار سمجھایا کہ بھائی انسان بھی تو رہتے ہیں کالے، گورے، سانولے ایک ہی شہر میں سب ہوتے ہیں اور سب کو برابر کا شہری مانتے ہیں تو آپ دونوں ایک دوسرے کو جنگلی کیوں نہیں مانتے۔؟ ایسی صورت میں فورا بلیاں اور کتے آپس میں مفاہمت کر لیتے اور اسے جنگلی آئین کا غدار کہہ کر مشترکہ بل لے آتے اور خرگوش بیچارہ بھاگتا رہتا۔ جنگل پر کنٹرول کے لیے یہ بھی خود کو بادشاہ سمجھتے۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ لومڑیاں اور شیر کیا کر رہے ہیں۔ انھیں بس یہ معلوم ہے کہ کتے اور بلیوں کی لڑائی جتنی لمبی چلے گی ان کی دکان اتنی زیادہ چلے گی۔ وہ بادشاہ بنیں یا نا بنیںدوسرے کو جینے نہیں دینگے۔

شیر غافل نہیں وہ جانتا ہے کہ چیتا دل میں کیا چھپائے بیٹھا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ ہاتھی کے پیٹ میں کیا دکھ رہا ہے۔ وہ جانتا ہے لومڑیاں ماضی کو بھولی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے بلی اور کتے کا کھیل کیا ہے۔ اسے بھی جنگل میں صدیاں ہو چکی ہیں۔

اس الجھن کو دور کرنے کے لیے جنگل کے سب سے بڑے منہ پھٹ کو ہدایت جاری ہوئی کہ شیر پر بھاری ہاتھ رکھو لیکن لومڑیوں اور چیتے کو بھی آسان وقت مت دینا۔ شور سا مچا ہوا ہے۔ جنگل اب واقعی جنگل لگ رہا ہے۔ جہاں شیر کو کمزور سمجھتے ہوئے سارے جانور اپنے آپ کو شیر سمجھنے لگے ہیں۔ کوئی اس خوشی میں اپنی دم کی استری کروا رہا ہے۔ کوئی دانت صاف کر رہا ہے۔ اور کوئی اپنے پیٹ کا علاج کرا رہا ہے۔ اور ہم یہ سوچ کر سو رہے ہیں کہ یہ تو شیر کی کہانی ہے ہم تو شہر میں رہتے ہیں۔ سردی آنے والی کمبل اوڑھے اور سو جائیں۔ کچھ لوگ سردی سے پہلے ہی بلا وجہ کمبل ہو گئے ہیں۔ سردیاں آئی نہیں اُس سے پہلے چپک گئے ہیں۔ جانوروں کی لڑائی کا ایک اہم بات ضرور ہوتی ہے کوئی بھی کمبل نہیں ہوتا۔ یہاں تو جس کو دیکھو، چپک ہی جاتا ہے۔ جنگل کی کہانی سے نکل جائیں تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ اُس کے بعد پاکستان کی کہانی شروع کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں