سانحہ لیاقت باغ سے سانحہ ماڈل ٹاون تک
لیاقت باغ میدان کارزار بن چکا تھا۔ اب جس کا جدھر سینگ سما رہا تھا ، وہ ادھر بھاگ رہا تھا۔
یہ ذوالفقار علی بھٹو کے عروج کا زمانہ ہے۔ 1973 کا دستور بن چکا ہے۔ قومی اسمبلی کے اندر بھٹو حکومت کو برائے نام اپوزیشن کا سامنا ہے۔ پوزیشن بھی کیا ہے ، چند سرکش لوگ ہیں ، جو نتائج کی پرواہ کیے بغیر بھٹو حکومت کے سامنے ڈٹ گئے ہیں۔ ایوان کے اندر اور باہر کی پارٹیوں کو متحد کرکے بھٹو حکومت کے خلاف متحدہ جمہوری محاذ قائم کیا جاتا ہے، تو چوہدری ظہورالٰہی کی تجویز پر سندھ کے حر رہنما پیر پگاڑا اس کے سربراہ منتخب کیے جاتے ہیں۔
متحدہ محاذ کی نمایندگی، پارلیمنٹ میں اگرچہ کم، بہت کم ہے، لیکن حکومت کو اپوزیشن کا یہ مختصر سا وجود بھی گوارا نہیں۔ اس غیر جمہوری سوچ کے نتیجہ میں سانحہ لیاقت باغ وقوع پذیر ہوتا ہے جو حکومت کے زوال کا نقطہ ء آغاز بن جاتا ہے۔ حقیقتاً، سانحہ لیاقت باغ بھٹو حکومت کو بالکل اس طرح ہلا کے رکھ دیتا ہے، جس طرح کہ سانحہ ماڈل ٹاون نے نوازشریف حکومت کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔
سانحہ لیاقت باغ کی کہانی یہ ہے کہ متحدہ محاذ نے اپنے قیام کے فوراً بعد جہاں آئین پاکستان میںمتفقہ آئینی ترامیم پیش کیں، وہاں 23 مارچ 1973 کو یوم پاکستان کے موقع پرلیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ حکومت نے اس احتجاجی جلسہ کو اپنے خلاف اعلان جنگ قراردیا اور اپوزیشن کو''سبق سکھانے'' کا فیصلہ کر لیا۔ سوچ یہ تھی کہ حکومت کے خلاف اس تحریک کو سراٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر عبدالولی خان اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری کو یہ اطلاع تو مل چکی تھی کہ لیاقت باغ جلسہ کو سبوتاڑ کرنے سازش کی جارہی ہے، لیکن یہ اندازہ قطعاً نہیں تھا کہ یوم پاکستان پر لیاقت باغ میں کوئی سانحہ رونما ہو جائے گا۔
23 مارچ کی صبح راولپنڈی میں یوم پاکستان کی سرکاری تقریبات اختتام کو پہنچی۔ ریڈیو اور پی ٹی وی پر صدر، وزیراعظم اور مسلح افواج کے سربراہ کے سرکاری پیغامات روایتی آن بان اور شان سے نشر کیے گئے۔ ادھر، نماز جمعہ ختم ہوتے ہی متحدہ محاذ کے کارکن جوق در جوق لیاقت باغ میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔ اسٹیج سج چکا تھا۔ چونکہ متحدہ محاذ کے رہنما ابھی جلسہ گاہ میں نہیں پہنچے تھے، لہٰذا جلسہ کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا؛ صرف یہ تھا کہ مجمع کا جوش بڑھانے کے لیے وقفہ وقفہ سے مختلف اعلانات کیے جا رہے تھے۔ اچانک، بالکل اچانک اسٹیج کے عقب میں واقع لیاقت میموریل ہال سے'' نامعلوم افراد''نے جلسہ گاہ کو نشانہ بنا کے فائرنگ شروع کردی۔ لیکن پھر چوہدری ظہور الٰہی متحدہ محاذ کے رہنماوں پیر پگاڑا، خان عبدالولی خان، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفوراحمد، غوث بخش بزنجو اور اجمل خٹک کو لے کر جلسہ گاہ پہنچ گئے۔
لیاقت باغ میں اب ہر طرف شور ہی شور تھا؛ فائرنگ کا شور، تقریروں کا شور، نعروں کا شور۔ شدید فائرنگ کے باوجود جب اپوزیشن کے کارکن منتشر نہ کیے جا سکے تو پنجاب پولیس کی طرف سے ان پر آنسو گیس کے اس قدر گولے برسائے گئے کہ ان کے لیے سانس لینا دوبھر ہو گیا۔ لیاقت باغ کے اندر اور باہر اب دھواں ہی دھواں تھا۔
لیاقت باغ میدان کارزار بن چکا تھا۔ اب جس کا جدھر سینگ سما رہا تھا ، وہ ادھر بھاگ رہا تھا۔ ایک بوڑھا کارکن گورڈن کالج کی طرف بھاگا، تو ایک شخص نے بوڑھے کارکن کے پیٹ میں چاقو اتار دیا۔ بوڑھا کارکن تیورا کر نیچے گرا اور تڑپنے لگا۔ ایک نوجوان کارکن ، جو خود بڑی مشکل سے جان بچا کے گورڈن کالج پہنچا تھا ، یہ دلدوز منظر دیکھ کر اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا ، اور گورڈن کالج کے چند ساتھی طلبہ کو ہمراہ لے کر باہر نکلا اور اس بوڑھے کارکن کو اٹھا کے اندر لے گیا ، لیکن اس وقت تک وہ بوڑھا دم توڑ چکا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ بوڑھے کی چادر میں ابھی تک دو گانٹھیں لگی تھیں ، ایک گانٹھ میں دو سوکھی روٹیاں، ایک گڑ کی ڈلی، اوراس کی ساکت آنکھیں سوال کر رہی تھیں کہ کیا یہی ہے جمہوریت ، دو سوکھی روٹیاں ، گڑ کی ایک ڈلی اور گھر سے دور سڑک کنارے موت۔ شام کو بھٹو حکومت کی طرف سے جو سرکاری اعلان کیا گیا، اس میں کہا گیا کہ پولیس اور 'شرپسندوں' کے درمیان ''تصادم'' کے نتیجہ میں 8 شرپسند ''ہلاک'' اور 75 افراد زخمی ہو گئے ہیں لیکن غیر سرکاری ذرایع کا کہنا تھا کہ مرنے والوں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ بات اہم تھی کہ بیشتر مقتول کارکنوں کا تعلق خیبر پختون خوا سے تھا۔ سانحہ لیاقت باغ میں مرنے والوں کو 24 مارچ 1973 کو سپرد خاک کر دیا گیا، جس طرح کہ 17 جون 2014 کو رات گئے سانحہ ماڈل ٹاون میں مرنے والوں کو لحد میں اتار دیا گیا۔ لیکن سانحہ لیاقت باغ نے بھٹو حکومت کے مخالف عناصر میں نفرت کی جو لہر پیدا کردی، وہ پھر تھم نہ سکی، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مزید بڑھتی اور مزید پھیلتی چلی گئی، یوں متحدہ جمہوری محاذ کے بطن سے اپوزیشن کے وسیع تر اتحاد، پاکستان قومی اتحاد نے جنم لیا اور نفرت کی یہ لہر ایک طوفان بلاخیز کی شکل اختیار کر گئی۔ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جب میں سانحہ لیاقت باغ کی یہ تفصیلات پڑھتا ہوں تو تعجب ہوتا ہے کہ وہ اے این پی جو سانحہ لیاقت باغ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی تھی، اور جس نے اس پر سب سے زیادہ احتجاج کیا تھا ، اس نے سانحہ ماڈل ٹاون پر خاموش رہنا کیسے گوارا کرلیا۔
17 جون 2014 کو ماڈل ٹاون لاہور میں پولیس کی سیدھی فائرنگ سے عوامی تحریک کے 14 نہتے کارکن قتل ہو گئے۔ پہلے تو عدالتی حکم کے باوجود 2 ماہ تک اس سانحے کی ایف آئی آر درج نہیں گئی۔ اسلام آباد میں عوامی تحریک کے دھرنا کے دباؤ اور آرمی چیف کی مداخلت سے ایف ائی آر درج کرنا پڑگئی، تو اب ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے اجتناب برتا جا رہا ہے۔ بعینہ، 31 اگست کو وزیراعظم سیکریٹریٹ کے باہر پولیس کی شیلنگ اور فائرنگ سے مرنے والے تحریک انصاف کے 7 کارکنوں کے قتل کا مقدمہ ہے۔ یہاں بھی عدلیہ کی مداخلت پر ایف آئی آر کا اندراج تو ہو گیا، لیکن اس کے باوجود پولیس کی طرف سے ملزمان سے معمول کی تفتیش تک نہیں کی جارہی۔ نتیجہ اس ہٹ دھرمی کا یہ ہے کہ ایک شدید ردعمل ظاہر ہو رہا ہے۔
عوامی تحریک اورتحریک انصاف کے اس ایک نکاتی مطالبہ کی حمایت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے کہ جب تک وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اپنے اپنے عہدوں پر متمکن ہیں، سانحہ ماڈل ٹاون اور سانحہ اسلام آباد کی تحقیقات کا آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ اسلام آباد میں طاہرالقادری کا دن رات کا انتھک اور تاریخی دھرنا، اورعمران خان کا اسلام آباد میں دھرنے کے ساتھ ساتھ کراچی اورلاہور میں تاریخ سازجلسے کرنا اس امر کا ثبوت مزید ہے کہ ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ نوازشریف حکومت کی پوزیشن کمزور، جب کہ عمران خان اور طاہرالقادری کی اپوزیشن طاقتور ہو رہی ہے۔ شاعر ِانقلاب ساحر لدھیانوی نے کہا تھا
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا