پیپلز پارٹی کی حمایت حکومت کیلئے بڑا سہارا جیالے نالاں

حکومت جو اب تک بچی ہوئی ہے تو اس کی وجہ پیپلزپارٹی کی سپورٹ ہے


Khalid Qayyum October 01, 2014
پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہی پارلیمنٹ حکومت کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے یوں وہ اب تک پارلیمنٹ اور پیپلزپارٹی کی مہیا کردہ آکسیجن کے سہارے سانس لے رہی ہے۔ فوٹو: فائل

ملکی سیاسی اور انتظامی صورتحال پر نظر ڈالیں تو حکومت کی رٹ بہت کمزور ہوچکی ہے۔ حکومت خواہ جمہوری ہو یا آمرانہ اس کی ایک رٹ ہوتی ہے، عوام میں اس کا دبدبہ ہوتا ہے لیکن اس وقت ملک اور خصوصاً پنجاب میں اس کا رعب اور دبدبہ نہیں رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ اور افسر شاہی پر حکومت کی گرفت کمزور پڑ چکی ہے۔ ادھر حالت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب ہی نہیں بلکہ وزیراعظم پر بھی مختلف مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ کیا دنیا کی کسی اور جمہوریت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم ، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع پر ایک سے زیادہ مقدمات درج ہوجائیں؟ وزیراعلیٰ پر مقدمات درج ہوجائیں اور ان میں قتل جیسے سنگین مقدمات بھی شامل ہوں جن میں دہشت گردی کی دفعات بھی ہوں۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم پر گجرات میں قتل عام کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ ان پر اب کوئی مقدمہ درج ہوجائے۔ پاکستان میں تو خیر اس قسم کا کلچرہی موجود نہیں ہے۔

صرف ذوالفقار علی بھٹو کی ایک مثال ہے۔ اب تو حد ہوگئی ہے، مسلم لیگ (ن) کی ساری قیادت مقدمات کی زد میں ہے۔ دوسری جانب سیاسی میدان میں یہ ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک اسلام آباد میں ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصے سے دھرنا دیئے ہوئے ہیں اور حکومت بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ حکومت کا کام ڈلیور کرنا ہوتا ہے اگر وہ ڈلیور نہیں کرتی تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی رٹ اور کنٹرول ختم ہوگیا ہے۔ اس کے ہاتھ سے چیزیں آہستہ آہستہ سرک رہی ہیں۔

حکومت جو اب تک بچی ہوئی ہے تو اس کی وجہ پیپلزپارٹی کی سپورٹ ہے، پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہی پارلیمنٹ حکومت کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے یوں وہ اب تک پارلیمنٹ اور پیپلزپارٹی کی مہیا کردہ آکسیجن کے سہارے سانس لے رہی ہے۔ اس سپورٹ کا پیپلزپارٹی کو بھی نقصان پہنچا ہے پھر بھی وہ جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ مسلم لیگ (ن) کو سپورٹ کررہی ہے اور پیپلزپارٹی کی ایسی لیڈر شپ جو پارلیمنٹ کے باہر کھڑی ہے، حکومت ان کو سبق سکھانے چل پڑی ہے یعنی ''کیرٹ اینڈ سٹک'' کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔

مسلم لیگ(ن) کی پارلیمنٹ سے باہر پیپلز پارٹی کے خلاف روائتی دشمنی برقرار ہے۔ اس وجہ سے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو قیادت سے گلہ ہے کہ وہ روائتی دشمن پارٹی کو ملک کے وسیع تر مفاد میں بھول گئے ہیں اور ن لیگ کی حکومت کو بچا رہے ہیں اس پارٹی پالیسی سے ورکرز نالاں ہیں۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی اصل ناراضگی یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ن لیگ کی حکومت کا ساتھ دے رہی ہے جبکہ وہ ان کے خلاف کیس بنا رہے ہیں۔ سندھ کی پارٹی لیڈر شپ احتساب کیلئے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے نشانے پر نہیں ہے۔ ان کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے۔

چیئرمین نیب قمر الزمان اپوزیش لیڈر خورشید شاہ کی سفارش سے چیئرمین نیب بنے ہیں وہ ان کے خلاف کس طرح کیس چلائیں گے؟ نواز شریف کے خلاف نیب میں ریفرنسز زیرا لتواء ہیں ان پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔ پہلے پنجاب میں پیپلزپارٹی کے سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویزاشرف ، سابق وفاقی وزیر نذر گوندل کے بھائی ظفر گوندل اور سابق چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ سید آصف ہاشمی کے خلاف کیس بنائے گئے اب نیب نے سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان اور پیپلزپارٹی پنجاب کے سابق صدر قاسم ضیاء کے خلاف بھی انکوائری کی منظوری دے دی ہے۔

منڈی بہاؤالدین کے گوندل خاندان کی پیپلزپارٹی کے ساتھ گہری وابستگی رہی ہے اور ان کا خاندان سرگودھا اور گوجرانوالہ ڈویژن کی سطح پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے سابق پارلیمانی لیڈر میجر(ر) ذوالفقار گوندل اپنے بھائی ظفر گوندل کی گرفتاری پر پارٹی قیادت سے سخت ناراض ہیں اور سابق وفاقی وزیر نذر گوندل بھی پارٹی میٹنگز میں شریک نہیں ہو رہے ہیں۔میجر ذوالفقار کا کہنا ہے کہ نذر گوندل پارٹی میں رہنا چاہتے ہیں تاہم اگر پارٹی لیڈر شپ ہی چاہے کہ پارٹی چھوڑ دیں تو پھر کیا راستہ اختیار کریں ۔ نذر گوندل پارٹی نہیں چھوڑ رہے لیکن میں نے پارٹی چھوڑ دینی ہے۔

قاسم ضیاء کا کہنا ہے کہ جس کمپنی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے میرے خلاف انکوائری کا معاملہ سامنے آیا ہے میں اس کمپنی کی ڈائریکٹرشپ سے 2008 ء میں استعفیٰ دے چکا ہوں میرا اس سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے ۔ فردوس عاشق اعوان نے پیپلزپارٹی کے دور میں بڑے کام کروائے ہیں اور حلقے کے دیہات میں سوئی گیس کی ریکارڈ سہولت دی ہے۔ ان کے خلاف نیب میں انکوائری دراصل خواجہ آصف اور فردوس عاشق اعوان کے درمیان مقامی سیاست میں تناؤ کا نتیجہ ہے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف الزامات جھوٹ اور غلط ہیں ۔ میں انکوائری کا خیر مقدم کرتی ہوں اور چاہوں گی کہ حقائق شفاف طریقے سے قوم کے سامنے آئیں۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ایک غیر سرکاری تنطیم کو یہ بسیں بطور عطیہ دی تھیں۔ بسیں ڈیڑھ سال سے حکومت کے قبضے میں ہیں، میں ساری صورتحال سابق صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو کے نوٹس میں لائی ہوںاور پارٹی کے ساتھ مل کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کروں گی۔ اس طرح آصف ہاشمی نے لاہور میں پارٹی کیلئے بہت کام کئے پارٹی کارکنوں کو نوکریاں دیں، راوی ٹول پلازہ ختم کروایا، نئے سکول اور کالجز ، پاسپورٹ اور نادرا آفس بنوائے۔

آصف ہاشمی کے خلاف کسی کیس اور انکوائری میں کرپشن ، مس کنڈکٹ اور اختیارات کا غیر قانونی استعمال ثابت نہیں ہوسکا۔ تمام امور قواعدو ضوابط کے تحت انجام دیئے گئے ہیں ان کے دور میں غریب اور بے سہارا افراد کو 5سے 10ہزار روپے تک مالی امداد دی گئی۔ ایف آئی اے نے اپنی انکوائری میں 1300 افراد کو سمن جاری کئے ان تمام افراد نے لکھ کردیا ہے کہ انہوں نے مالی امداد وصول کی ہے۔ سیدآصف ہاشمی سے گزشتہ دنوں فون پر بات ہوئی تو انہوں نے اپنے دکھڑے سنائے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو بچا رہی ہے جبکہ حکومت پیپلزپارٹی کے لوگوں کو مختلف مقدمات میں ذلیل و خوار کر رہی ہے،دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری اپنی پارٹی اس زیادتی اور دھاندلی پر خاموش ہے ایسے میں ہمارا کون والی وارث ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کا یہی رویہ رہا تو میں پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوں گا۔ انکوائری میں بے قصور ہوں اس کے باوجود مجھے تنگ کیا جارہا ہے جب سے پیپلزپارٹی کی حکومت گئی ہے جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہوں جبکہ پاکستان میں پیپلزپارٹی مسلم لیگ(ن) کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر کھڑی ہے۔

یہ مناظر دیکھ کر پیپلزپارٹی کے مجھ جیسے جیالے خون کے آنسو روتے ہیں۔ ان کے پاس آخری راستہ پارٹی کو خدا حافظ کہنے کا بچتا ہے۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری غلام محی الدین دیوان لاہور سے کشمیر کی نشت پر امیدوار ہیں اور پہلے تین مرتبہ جیت چکے ہیں۔ ہائیکورٹ نے اس نشست پر الیکشن کیلئے رینجرز تعینات کرنے کے آرڈر جاری کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے حکومت تین سال سے الیکشن کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے اور غلام محی الدین دیوان کے خلاف مقدمات درج کر رکھے ہیں۔ یہ اب تک پنجاب پیپلز پارٹی کے گلے شکوے ہیں لیکن اگر مرکزی قیادت نے ان کا کوئی نوٹس نہ لیا اور مسلم لیگ ن کی حکومت سے دوٹوک بات نہ کی تو پھر گلے شکوے بڑھ کر پارٹی چھوڑنے تک پہنچ سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں