روایتی کلچر اور عید قرباں
یہ کلچر محلے میں میل جول محبت اور ایک دوسرے کے خیال رکھنے پر مبنی تھا ۔۔۔
بچپن کے زمانے کے ایک پڑوسی مجھے اکثر یاد آتے ہیں، معلوم نہیں ان کے یاد آنے کی وجہ ان کا اچھا پڑوسی ہونا ہے یا پھر آج کل کے پڑوسیوں کا معیار ان کے مقابلے میں قدر خراب ہونا ہے۔ بہرکیف مجھے یاد ہے کہ محلے والے سب ہی انھیں ''چھیدا چاچا'' کہہ کر مخاطب کرتے تھے البتہ نام ان کا رشید تھا۔ عموماً بارش کے بعد جب (ان کے گھر کی ٹین کی چھت کہیں سے ٹپکتی یا خراب ہوجاتی تو وہ درست کرنے کے لیے) چھت پر چڑھتے جو ہمارے گھر کی چھت سے ملی ہوئی تھی تو اس سے پہلے وہ گھر کے دروازے پر آکر دستک دیتے اور آواز لگاتے۔
''بہن جی۔۔۔آپا جی! پردہ کرلیں، چھت پر چڑھنا ہے۔''
یہ جملے کبھی ہمارے کلچر کا حصہ ہوا کرتے تھے، جب بھی کوئی اپنی چھت پر کسی کام سے چڑھتا تو وہ قریبی پڑوسیوں کو پہلے مطلع کرتا تھا کہ خواتین پردہ کرلیں حالانکہ مجھے یاد ہے کہ میری والدہ تو کالا برقعہ پہن کر باہر نکلتی تھیں مگر محلے کی اکثر خواتین صرف چادر اوڑھ کر باہر کام سے جایا کرتی تھیں لیکن اس کے باوجود مذکورہ بیان کردہ کلچر موجود تھا۔ اس کلچر میں پڑوسیوں کا خیال رکھنا بھی بہت عام تھا مثلاً کسی کے گھر میں کوئی اچھا کھانا پکے یا کوئی خاص کھانا مثلاً کڑہی پکنے پر بھی پڑوسی ایک دوسرے کے گھر میں ایک پلیٹ سالن ضرور بھیجتے تھے۔
یہ کلچر محلے میں میل جول محبت اور ایک دوسرے کے خیال رکھنے پر مبنی تھا، باوجود اس بات کے کہ پڑوسیوں میں کبھی کبھار جھگڑے بھی ہوجاتے تھے۔ بہرحال اب کلچر خاصا بدل چکا ہے خاص کر ہم شہری لوگ خاصے ''مہذب اور روشن خیال'' ہوچکے ہیں، جس میں شاید ہمارے ماضی کے کلچر کی روایتیں اور خوبیاں کہیں گم ہوگئی ہیں۔ اور اس بات کا احساس ہمیں اکثر شادی بیاہ کے موقع پر اور عید قرباں کے موقع پر ہوتا ہے۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی کی بات ہے کہ جب ہمارے ایک پڑوسی کے گھر میں شادی کی تقریب ہوئی تو باوجود فلیٹس میں رہائش کے پوری رات ڈھول دھمال اور گانوں، شور شرابے کی آوازیں آتی رہیں، دیگر ہمارے پڑوسی بھی اس ''روشن خیال'' تہذیب کے مظاہرے کے باعث رات بھر نہ سو سکے، اگلے روز رات کو اچانک ہمیں محسوس ہوا کہ شاید ہمارے پلازہ پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا ہے یا کوئی بڑا پولیس مقابلہ ہو رہا ہے، ہم گھبرا کر باہر نکلے تو دیکھا کہ کچھ اور پڑوسی بھی پریشانی کے عالم میں باہر نکلے ہوئے ہیں، کچھ دیر کی ''تحقیق'' کے بعد معلوم ہوا کہ ایک روز قبل جن پڑوسی کی رسم مہندی میں رات بھر دھمال ہوا تھا۔
آج بارات ہے اور اسی کا سارا شاخسانہ ہے کہ جو پڑوسی گھر میں ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ کوئی دہشت گردانہ کارروائی ہو رہی ہے جب کہ جو فلیٹس سے نکل کر باہر آچکے ہیں وہ پٹاخوں اور فائرنگ سے بارات کا استقبال دیکھ رہے ہیں۔خیر جناب! ہماری روایات اب بہت حد تک تبدیل ہوچکی ہیں، پہلے کسی کی شادی ہو تو بہت پہلے ہی زبانی اطلاع اور دعوت آجاتی تھی، اب پڑوس میں شور شرابہ یہ اطلاع فراہم کرتا ہے کہ پڑوس میں کسی کی شادی ہے۔
پہلے عید قرباں پر جانور برابر والے پڑوسی بھی لاتے تو صفائی کا اس طرح خیال رکھا جاتا تھا کہ قربان کے بعد بھی پڑوسیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ان کا ایک پڑوسی ہر سال چاند نظر آنے سے بھی دو تین روز قبل ایک موٹی صحت مند گائے لاکر اپنے دروازے پر باندھ دیتے ہیں جس سے ایک تو گلی کا راستہ جو پہلے ہی تنگ ہوتا ہے مزید تنگ ہوجاتا ہے پھر چارہ پانی جس بے ہودہ انداز میں جانور کو ڈالا جاتا ہے وہ شریف پڑوسیوں کے لیے اور بھی کوفت کا باعث بنتا ہے، نمازی آدمی کو اپنے کپڑے بچا کر نکلنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔
ہمارے ان پڑوسی کا کہنا ہے کہ جانور قربان ہونے کے بعد بھی صفائی نہیں کی جاتی بلکہ دروازے میں جانور کا خون اور دیگر ''باقیات'' ہفتوں فضا کو تعفن زدہ رکھتی ہے۔ ہمارے ان دوست کا کہنا ہے کہ جناب ان مسائل کا حل انھوں نے اجتماعی قربانی میں ڈھونڈ لیا ہے اور وہ بس عید والے دن قربانی کے جانور کی بنی ہوئی بوٹیاں گھر لے آتے ہیں، اس طرح وہ ایک جانب جانوروں کے ساتھ محنت مشقت سے بچ جاتے ہیں دوسرے محلے میں صفائی بھی رہتی ہے، بس ایک ہفتہ پہلے قربانی کے جانور کی رقم دے دیں اس کے بعد جب آپ کے پاس فون پر اطلاع آئے کہ ''جناب اپنا حصہ لے جائیں'' تو جاکر اپنا حصہ باآسانی لے آئیں۔
ہم اپنے دوست کی صفائی والی شکایت سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ عام طور پر ہم مسلمان پڑھتے تو ضرور ہیں کہ ''صفائی نصف ایمان ہے'' مگر اس پر عمل قطعی نہیں کرتے۔ حد تو یہ ہے کہ فلیٹ کی دوسری، تیسری منزلوں پر رہائش رکھنے والے افراد ایسے بھی ہیں جو عید سے ہفتہ دو ہفتہ قبل بکرے لاکر دروازے پر باندھ دیتے ہیں کہ جہاں پہلے ہی روشنی اور ہوا ''ناپید'' ہوتی ہے، ان جانوروں کا ''فضلہ'' فضا کو مزید ناقابل برداشت کردیتا ہے۔
البتہ ہم اپنے پڑوسی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے کہ صفائی برقرار رکھنے کی واحد ترکیب اجتماعی قربانی ہے کیونکہ ناقدین کے مطابق دور حاضر کے جدید انداز میں ''اجتماعی قربانی'' کے پروگرام ایک جانب تو قربانی کی اصل روح کو متاثر کر رہے ہیں دوسری جانب ایک نئے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں جو اکثریت نے اپنا لیا تو پھر قربانی کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔
ناقدین کے مطابق قربانی کا ایک اہم پہلو جانوروں کی خریداری کے لیے بازار جانا، پسند کرنا، اس کے لیے حلال کی شرائط خود جانچنا، پھر گھر لاکر اس کی خدمت کرنا اور پھر اپنے ہاتھوں سے حصے کرنا، نیز پڑوسیوں، عزیزوں اور مستحقین وغیرہ کے لیے خود سے جاکر گوشت تقسیم کرنا ہے، محض رقم خرچ کرکے مالی قربانی دینا نہیں۔ اس لیے کہ مال کی قربانی تو زکوٰۃ اور خیرات وغیرہ کی شکل میں بھی ہوجاتی ہے، خیرات و زکوٰۃ سے قربانی کا ممتاز ہونا اس کا مخصوص ''پروسس'' ہے جس میں جانور کی خریداری سے لے کر مستحقین اور عزیز و اقارب کے گھر جاکر گوشت کی اپنے ہاتھوں سے تقسیم بھی ہے۔
اب اپنی آسانی کے لیے اور سارے ''پروسس'' کی محنت و مشقت سے بچنے کے لیے ایسے ادارے میدان میں آگئے ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ کی ساری محنت و مشقت ہم بچا لیتے ہیں حتیٰ کہ آپ مستحقین میں گوشت تقسیم کرنے کی محنت یا زحمت بھی نہ کریں، بس ہمیں ایک مخصوص رقم کا ''چیک'' کاٹ کر دے دیں۔ راقم کے خیال میں ناقدین کی یہ تنقید بہت وزنی ہے، ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کیونکہ دین اسلام تو ہمیں انفرادیت سے نکال کر اجتماعیت کی طرف لے جاتا ہے، وہ مسجد میں باجماعت نماز اور عیدین کی باجماعت نماز کی ہدایت ہی نہیں دیتا بلکہ یہ جاننے کی بھی ترغیب دیتا ہے کہ آپ کے پڑوس میں کون بھوکا ہے؟
دین تو رشتے داروں سے قطع تعلق کو بھی سخت ناپسند کرتا ہے اور کسی سے تین دن سے زائد بات چیت کا بائیکاٹ کرنے سے بھی منع کرتا ہے جب کہ ''اجتماعی قربانی'' کے جدید انداز تو ہمیں گوشت کی تقسیم کی زحمت سے بچا رہے ہیں جب کہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ آج کی مصروف دنیا میں ایک بھائی کا دوسرے بھائی کے گھر جانے اور ملنے کا بڑا بہانہ بھی یہی عیدیں ہوتی ہیں۔ آئیے غور کریں!