شر میں خیر کی صورت

الیکٹرانک میڈیا نے سنسنی خیزی کے حوالے سے کچھ غیر ذمے داری کا مظاہرہ بھی کیا ہے


Amjad Islam Amjad September 27, 2012
[email protected]

گزشتہ جمعے کو 21 ستمبر کو یوم عشق رسولؐ کے حوالے سے پر امن احتجاج کے لیے نکلنے والے لاکھوں پاکستانیوں کو مٹھی بھر شرپسندوں نے جن خفت اور پریشانی سے دوچار کیا۔

اس کے بارے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے اور میرے نزدیک یہ بھی ایک طرح سے ایک خیر کی صورت ہے جو رب کریم نے شرپسندوں کی اس سازش کے اندر پیدا کر دی ہے کہ اس سے پہلے بھی بامقصد، بابرکت اور ایمان اور ضمیر کی آواز پر کیے جانے والے مظاہروں میں کئی بار ایسا ہی فساد اور انتشار پیدا کیا گیا ہے۔

لیکن باقاعدہ اور پر زور انداز میں کبھی بھی اس کی اس طرح سے نشاندہی اور مذمت نہیں کی گئی بلکہ اسے ''ان پر امن احتجاج کرنے والوں کے ''جذبہ ایمان'' کے کھاتے ہی ڈال دیا گیا جس نے وقتی اشتعال کے تحت اس طرح کی کارروائیاں کیں اور یوں ان تماش بینوں اور شرپسندوں کو کھل کھیلنے کی آزادی بغیر کسی کوشش کے ملتی رہی جو اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت ان مظاہروں میں شامل ہوا کرتے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے اور میں نے اس کے بارے میں کسی کالم میں لکھا بھی تھا کہ جب ڈنمارک میں شایع ہونے والے بے ہودہ اور لعنتی کارٹونوں کے خلاف لاہور میں مظاہرہ ہوا تو جلوس نے (غالباً) ناصر باغ سے چل کر پنجاب اسمبلی تک آنا تھا لیکن مرکزی جلوس کی آمد سے وہ آدھ گھنٹہ پہلے ہی کچھ تخریبی عناصر نے جو اپنے ساتھ آتش زنی کا سامان لے کر آئے تھے مال روڈ پر واقع ایک ریسٹورنٹ کو آگ لگادی۔

(اب یہ معاملہ الگ ہے کہ ہوٹل انتظامیہ کو نہ صرف اس نقصان کا کوئی معاوضہ ملا بلکہ آج تک پتہ نہیں کیوں انھیں دوبارہ اس ریستوران کو شروع کرنے کی اجازت بھی نہیں ملی جو لاہور کی تہذیبی تاریخ میں ایک اہم یادگار کی حیثیت رکھتا ہے) دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا اور کسی نے اس پہلو پر غور کرنے کی کوشش تک نہیں کی کہ جلوس میں شامل جذباتی طور پر مشتعل ہجوم اگر کسی ''خاص'' وجہ یا ردعمل میں ایسا کرتا تو شاید یہ بات کسی حد تک سمجھ میں آ جاتی مگر جلوس تو ابھی وہاں پہنچا ہی نہیں تھا یعنی یہ کام کچھ ایسے تخریب کاروں اور لوٹ مار کرنے والوں کا تھا جو باقاعدہ پلان کے تحت عوامی مظاہروں میں شامل ہو جاتے ہیں اور نہ صرف اپنا کام کرتے ہیں بلکہ بڑی مہارت سے اصل مظاہرین کے ہجوم میں سے بھی کچھ غیر ذمے دار لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیتے ہیں۔

جب تک اس طرح کی وارداتوں کی رپورٹنگ پرنٹ میڈیا تک محدود تھی صورتحال خراب تو تھی مگر قابو سے باہر نہ ہوئی تھی لیکن جب سے الیکٹرانک میڈیا کی Live Coverage، Breaking News اور ایک دوسرے سے بڑھ کر سنسنی خیزی پیدا کرنے کے جنون نے اس آگ پر تیل چھڑکنے کا کام شروع کیا ہے۔

یہ معاملہ مسلسل پیچیدہ، گمبھیر اور خطرناک ہوتا جا رہا ہے اور ان تخریب کار لوگوں کی چالاکی اور عیاری کا کمال یہ ہے کہ یہ ایسے کاموں کے لیے ہمیشہ ایسے موقعوں کا استعمال کرتے ہیں جن سے عوام کی شدید مذہبی اور جذباتی وابستگی ہو خاص طور پر اگر کسی معاملے کا تعلق حرمت رسولؐ اور اس کے تحفظ سے ہو تو ہم مسلمان ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے آمادہ اور تیار رہتے ہیں کہ یہی حب رسولؐ کا تقاضا بھی ہے سو ہوتا یہی تھا کہ لوگ جانتے بوجھتے ہوئے اس مقدس جذبے کی آڑ میں ہونے والی ان تخریبی کارروائیوں سے اغماض برت جاتے تھے اس بار اگرچہ الیکٹرانک میڈیا نے سنسنی خیزی کے حوالے سے کچھ غیر ذمے داری کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔

لیکن ان کے اس رویے سے اس شر میں ایک خیر کا پہلو بھی پیدا ہو گیا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگوں نے ان لوگوں کو دیکھ اور پہچان لیا ہے جن کا نہ تو عشق رسولؐ سے کوئی تعلق تھا اور نہ تحفظ حرمت رسولؐ سے۔ یہ لوگ گھروں یا اپنی کمین گاہوں سے باقاعدہ تیار ہو کر نکلے ہی لوٹ مار اور جلائو گھیرائو کے لیے تھے۔

بدقسمتی سے ان کی دانستہ یا نادانستہ پردہ پوشی کرنے والوں میں ہمارے وزیر داخلہ رحمٰن ملک جیسے بھی ہیں جنھیں یہ پاکستان دشمن لوگ پنجاب حکومت کے گماشتے نظر آتے ہیں۔ تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو
گزشتہ چند دنوں میں تخریب کاری کے ان واقعات کے ردعمل کے طور پر جو بہت سی باتیں SMS اور E-Mail کے ذریعے مجھ تک براہ راست پہنچی ہیں طنز و مزاح کے شاعر حکیم ناصف کا یہ قطعہ انھی میں سے ایک ہے ناصف فن شعر سے اچھی طرح واقف ہیں سو ان اشعار کے فنی مسائل الیکٹرانک لکھائی کی وجہ سے بھی ہو سکتے ہیں۔

ذرا سوچو
پولیس، رینجرز نے کیا تھا اس میں کام!
کیا ''ریڈزون'' سے وہ بُری فلم آئی تھی؟
کیا سینما گھروں کا بھی اس میں تھا کوئی ''رول''
کیا بینکس، اے ٹی ایم نے مووی بنائی تھی؟

اس طرح علمدار بخاری صاحب کا بھیجا ہوا یہ شعر بھی بہت فکر انگیز اور توجہ طلب ہے کہ

کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفویؐ
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی

بولہبی
اسی طرح شجاعت قریشی صاحب کا بھجوایا ہوا پیغام بھی بہت اہم ہے کہ ''ہمیں ''ایمان'' کے معاملات کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ یہ فیصلہ محض عشق رسولؐ کے حوالے سے بھجوائے گئے ان جذباتی پیغامات کا نہیں جنھیں فارورڈ نہ کرنے سے آپ ایمان کے دائرے سے خارج ہو جاتے ہیں۔ حرمت رسولؐ، کا اولین تقاضا اتباع سنت رسولؐ ہے سو ہمارا ہر عمل اسی کے تابع ہونا چاہیے۔''

اب دنیا بھر کے مسلمانوں پر بالعموم اور پاکستان کے مسلمانوں اور حکومت پر بالخصوص یہ لازم آتا ہے کہ وہ ایسے تخریب کار عناصر کو نہ تو اپنی صفوں میں داخل ہونے دیں اور نہ ہی انھیں ملکی اور قومی املاک کو تباہ کرنے اور ڈیوٹی پر موجود سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کرنے کی اجازت دیں اور اس کے ساتھ ساتھ احتجاج کے ایسے طریقے اختیار کریں جن کے نتیجے میں آیندہ اس طرح کی گستاخیوں کے مؤثر اور مستقل انسداد کی صورت نکل سکے یعنی اللہ کی رحمت اور مومن کی حکمت سے اس شر سے بھی خیر کا پہلو نکالا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں