نہیں سنتا کوئی فغاں پانی
سیلاب کے دوران سرکاری امداد کے مراکز بھی عمومی معاشرتی کرپشن کی وجہ سے اپنا کام صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے
اگست 2010ء کا سیلاب آج تک اپنی جگہ پر معمہ ہے کہ اس کی نوعیت اور تباہ کاری کا پھیلاؤ وطن عزیز کے قیام کے بعد آنے والے سیلابوں میں اپنی مثال آپ تو تھا ہی لیکن اس کی ممکنہ وجوہات کے بارے میں کچھ ایسی باتیں بھی سننے کو ملیں جو بیک وقت انوکھی بھی تھیں اور خطرناک بھی۔
اس وقت میں نے ایک مسلسل غزل میں اس کیفیت کو محفوظ کرنے کی کوشش کی تھی جن سے پوری قوم گزر رہی تھی۔ آج تقریباً چار برس بعد ایک بار پھر وہی منظر ہے اور وہی آنکھیں۔ فرق شاید صرف اتنا ہے کہ آج قوم بوجہ اس وقت سے زیادہ منقسم اور پریشان ہے یوں تو تمام کی تمام قدرتی آفات زندگی کے نظام کو تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہیں لیکن سیلاب کی تباہ کاری اس اعتبار سے خطرناک ترین ہے کہ یہ متاثرین کی آنکھوں کے سامنے ان کے ماضی حال اور مستقبل تینوں کو تاراج کر کے رکھ دیتی ہے اور وہ بس دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
ان کے گھر بار، بیوی، بچے، جمع پونجی، ڈھور ڈنگر اور فصلوں سے بھرے کھیت کچھ بھی محفوظ نہیں رہتا۔ پانی تو کچھ عرصے میں اتر جاتا ہے لیکن اس کے دیے ہوئے زخم برسوں تک ہرے رہتے ہیں۔ پانی گھروں کے ساتھ ساتھ ان کے خواب بھی اجاڑ کے رکھ دیتا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
تو سیلاب زدگان کے لیے بھی ہر طوفان صرف ہمارے علاقے سے ہی مخصوص نہیں یہ دنیا بھر میں آتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر سمندری طوفانوں کی گزرگاہیں تو ہمیشہ آباد رہتی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ جن معاشروں میں انسان کی قدر ہے وہاں پورا معاشرہ ان کی حفاظت اور دوبارہ آباد کاری کا ضامن بن جاتا ہے۔ سیلاب اور سمندری طوفانوں کا پانی پورے پورے شہروں کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ ان کا بھی سب کچھ رزق آب ہو جاتا ہے مگر ان کی حکومتیں ناقابل تلافی نقصانات سے قطع نظر ان کے تمام نقصانات پورے کر دیتی ہیں اور یوں وہ پھر سے نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایسے سسٹم بھی بنا رکھے ہیں کہ نہ صرف متاثرہ علاقے کے لوگوں کو پہلے سے خطرے کی اطلاع مل جائے بلکہ ایسے متبادل انتظامات بھی موجود ہوں کہ وہ کم سے کم نقصان اٹھا کر محفوظ مقامات پر پناہ لے سکیں۔ جہاں ان کی خبر گیری کا مکمل نظام ان کی مدد کے لیے موجود ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں یا تو اس نوع کے انتظامات سرے سے موجود نہیں یا اتنے کم اور غیر منظم ہیں کہ جانی و مالی نقصان کی شرح بے حد بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح متاثرین کی بحالی کے انتظامات بھی نہ صرف ناکافی ہوتے ہیں بلکہ بے شمار امداد ان تک پہنچنے کے بجائے راستے ہی میں کہیں خورد برد ہو جاتی ہے۔
سیلاب کے دوران سرکاری امداد کے مراکز بھی عمومی معاشرتی کرپشن کی وجہ سے اپنا کام صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے البتہ گزشتہ کچھ برسوں سے بعض فلاحی اداروں کے لوگ نہ صرف سرکار سے پہلے متاثرہ علاقوں میں پہنچتے ہیں بلکہ بہت منظم انداز میں متاثرین کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ ان تک خوراک، کپڑے، پینے کا صاف پانی اور فوری ضرورت کی اشیا بر وقت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سیلاب کے دوران اور بعد میں طبی سہولیات اور وبائی امراض سے بچاؤ کے لیے بھی حتی الامکان مؤثر اقدامات کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود اب بھی سیلاب کا منہ زور پانی اپنے پیچھے بے شمار آہیں اور کراہیں چھوڑ جاتا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مشترکہ قومی آفت اور ذمے داری کے ہنگامہ میں بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں پوائنٹ اسکورنگ کے شرمناک کھیل سے باز نہیں آتے، خدا جانے ہم کب ریاست اور حکومت کے درمیان موجود واضح فرق کو سمجھیں اور یہ جان سکیں گے کہ سیلاب جیسی قدرتی آفات کا تعلق کسی حکومت سے نہیں بلکہ ریاست پاکستان سے ہے جس کے ہم سب ایک جیسے شہری ہیں۔ ہمارے حقوق بھی مشترک ہیں اور فرائض بھی۔ سو اگر میاں شہباز شریف لانگ بوٹ پہن کر پانی میں کھڑا نظر آئے تو اسے ڈرامہ کہنا اتنا ہی غلط ہے جتنا دھرنے والوں سے یہ تقاضا کہ وہ اس وجہ سے اپنے دھرنے ختم یا ملتوی کر دیں۔ متاثرین سیلاب کی امداد، حکومت کا منصبی اور تمام اہل وطن کا اخلاقی اور دینی فرض ہے۔ سو دونوں کو اپنے اپنے حصے کا کام اپنی اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے کرتے رہنا چاہیے اور اس کی بنیاد پر حب الوطنی کی ڈگریاں جاری نہیں کرنا چاہئیں۔
پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کو ٹی وی کے خبرناموں میں دیکھنا اور خود ان لوگوں کی صف میں شامل ہونا دو بالکل مختلف باتیں ہیں کہ مشاہدہ کبھی تجربے کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اگر مشاہدہ کرنے والا اس درد کی شدت اور پھیلاؤ کو بھی محسوس کر سکے جس سے پانی میں گھرے ہوئے لوگ گزرتے ہیں یا وہ ان سے براہ راست رابطے میں آتے تو یہ ممکن ہے کہ ایک خاص حد تک وہ ان کے محسوسات کی ترجمانی کر سکے۔ ان اشعار میں مشاہدے کے ساتھ ساتھ بالواسطہ تجربے کی بھی کچھ جھلکیاں موجود ہیں۔ اگر آپ ان کودیکھ جان اور پہچان سکیں تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت کسی کنارے لگ گئی ہے۔
کہہ کے گزرا ہے بے اماں پانی
پھر وہی تلخ داستاں، پانی
کھیت، گھر، مسجدیں نہ آدم زاد
بستیوں کا ہے اب، نشاں پانی
لے گیا ساحل یقیں بھی ساتھ
ایسے آیا تھا گے گماں، پانی
موت وادی میں جو اترتی ہیں
بن گیا ایسی سیڑھیاں، پانی
سر پہ چھت ہے نہ پیٹ میں روٹی
کچھ اگر ہے تو ہے، یہاں پانی
ایک ریلے میں گم ہوئی بستی
کھا گیا سب کو ناگہاں پانی
بن گیا رات کے اندھیرے میں
حشر کے دن کا ترجماں پانی
ہاتھ کو ہاتھ کی خبر نہ رہی
آ گیا ایسے درمیاں، پانی
وہ جو گلیاں تھیں زندگی افروز
اب وہاں پر ہے نوحہ خواں، پانی
جانور، لوگ، خواب، بام و در
کر گیا سب کو بے نشاں پانی
بین کرنے کو، سر چھپانے کو
رہ گیا ایک ہی مکاں! پانی!
موت اس کے جلّو میں رقصاں تھی
جا رہا تھا جہاں جہاں، پانی
اُترا سیلاب تو کھلا امجد
خاک فانی ہے، جاوداں پانی