مرے معبود‘ آخر کب تماشا ختم ہو گا
ہم نے کہاکہ پھر ایک ہی صورت رہ گئی ہے۔ پوچھا‘ وہ کیا۔۔۔۔
یار و اغیار کے شب و روز ان دنوں عجب رنگ سے گزر رہے ہیں۔ صبح سے شام تک' شام سے آدھی آدھی رات تک ٹی وی سے جڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ ایک ایک چینل کو دیکھتے ہیں۔ تقریریں' نعرے' دھمکیاں سب کچھ سنتے ہیں۔ ہنگامے' یلغاریں' اینٹ کھڑکا سب کچھ دیکھتے ہیں۔ حتی کہ غلیل سے غلے چلتے ہوئے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ آخر میں یہی کہتے دیکھے جاتے ہیں کہ یار' کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ کیا سمجھ میں نہیں آ رہا۔ یہی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
دوسرے نے ٹکڑا لگایا۔ میں تو اخبار بھی بڑے غور سے پڑھتا ہوں۔ اداریے' سیاسی تجزئیے' اچھے برے کالم۔ پھر بھی کچھ پلے نہیں پڑتا۔
ہم نے کہاکہ پھر ایک ہی صورت رہ گئی ہے۔ پوچھا' وہ کیا۔ ہم نے کہا کہ فال نکالو۔ فال' یاروں نے تعجب سے کہا۔ ہم نے کہا کہ ایسے پر آشوب وقتوں میں ہمارے بزرگ دیوان حافظ سے فال نکالا کرتے تھے۔ اور پھر مطمئن ہو جاتے تھے۔
ایک تن جلے نے کہا کہ چلو یہ بھی کر کے دیکھے لیتے ہیں۔ کسی پڑھے لکھے سے مانگ تانگ کر دیوان حافظ لائے۔ وضو کر کے آنکھیں بند کیں۔ دیوان کو کھولا تو لیجیے جو غزل برآمد ہوئی اس کے مطلع سے ہی دل و دماغ کے چودہ طبق روشن ہو گئے ؎
ایں چہ شور یست کہ در دور قمر می بینم
ہمہ آفاق پر از فتنہ و شر می بینم
پورے دور قمر میں یہ کیسا شور برپا ہے۔ لگتا ہے کہ پوری دنیا میں فتنہ اور شر کا طوفان برپا ہے۔
ارے ارے کمال ہے۔ پوری اسلامی دنیا میں جو فتنہ و فساد برپا ہے کس طرح بیان کیا ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ خیر اگلے دو چار شعروں پر بھی نظر دوڑا لیں۔ شاعر ہمارے زمانے میں ہمیں کیا بتا رہا ہے۔ ہر ایک دعا کر رہا ہے کہ حالات بہتر ہوں۔ مگر
مشکل این ست کہ ہر روز بتر می بینم
مگر مشکل یہ آپڑی ہے کہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
ہیچ رحمے نہ برادر بہ برادر دارد
ہیچ شفقت نہ پدر را بہ پسر می بینم
بھائی بھائی پر رحم نہیں کرتا۔ بیٹے باپوں کی شفقت سے محروم ہیں۔
ارے کیسا سچا نقشہ ہے ہمارے زمانے کا۔ لگتا ہے کہ آج ہی یہ شعر لکھے گئے ہیں۔ حافظؔ کا زمانہ کونسا تھا۔
شاعری کے بارے میں یہ نہیں پوچھا کرتے کہ کب لکھی گئی کیسے لکھی گئی۔ سمجھ لو کہ حافظ نے آج ہی غزل لکھ کر عالم بالا سے ہمیں بھیجی ہے۔ ویسے ہم پچھلے دو ڈھائی ہفتوں سے ایک ہی شعر کا ورد کر رہے ہیں ؎
روز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے
اب تم پوچھو گے کہ یہ شعر کب لکھا گیا'کس نے لکھا۔ جواب آیا کہ خیر اس شعر کے بارے میں یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ شعر پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ میں انھیں پرآشوب ایام کا حاصل کلام ہوں۔ ہم نے کہا کہ برادر نہیں ایسا نہیں ہے۔ یہ غالبؔ کا شعر ہے۔ جب 1857ء کے آس پاس انگریزوں نے دلی پر دوبارہ قبضہ کیا تھا۔ اس دوران جو کچھ ہو رہا تھا یہ اس کا بیان ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ غالبؔ کے زمانے میں بھی وہی کچھ ہو رہا تھا جو آج ہو رہا ہے۔
ہم نے کہا کہ اصل میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان تاریخ سے سیکھتے نہیں۔ بس اپنی تاریخ کو دہراتے رہتے ہیں۔ نہ وہ بدلتے ہیں نہ ان کے حساب میں زمانہ بدلتا ہے۔
پھر ہمیں خیال آیا کہ ہم غالبؔ اور میرؔ کے یہاں سے حافظؔ اور سعدیؔ کے یہاں سے ایسے شعروں کا کھوج لگاتے رہتے ہیں جو ہمارے آج کے حسب حال ہیں مگر کیا مضائقہ ہے کہ کبھی کبھی اپنے زمانے کے شاعروں کے کلام سے بھی فال نکال لیا کریں۔ تو لیجیے ہم نے اسی زمانے کے ایک شاعر کی کلیات سے فال نکالنے کی ٹھانی۔ کلیات کھولی تو جو غزل برآمد ہوئی پہلے اس کا مطلع سن لیجیے ؎
بکھر جائیں گے ہم' کیا جب تماشا ختم ہو گا
مرے معبود' آخر کب تماشا ختم ہو گا
تماشا' تماشا' تماشا۔ شاعر نے بالکل ٹھیک کہا۔ ہم تماشا بنے ہوئے ہیں۔ دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے۔ ہم نے کہا کہ برادر' کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم خود ہی تماشا ہیں اور خود ہی تماشائی ہیں۔ دنیا میں اور خاص طور پر اسلامی دنیا میں اتنے تماشے ہو رہے ہیں۔ کسے فرصت ہے کہ ہمارے تماشے کو مستقل دیکھے جائے۔ بہر حال یہ غزل مسلسل ہے۔ کیا مضائقہ ہے کہ اس کے چیدہ چیدہ دوسرے شعر بھی نقل کر دیے جائیں ؎
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
اگے ملاحظہ فرمائیے ؎
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا' کب تماشا ختم ہو گا
اور مقطع یوں ہے کہ
دل نا مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا
جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا
خیر یہ شاعر کی خوش فہمی ہے۔ خلق ہمارے یہاں کم کم ہی اٹھتی ہے۔ تب ہی تو جو تماشا شروع ہوتا ہے وہ مشکل ہی سے ختم ہوتا ہے۔ اب یوں دیکھئے کہ یہ غزل افتخار عارف کی ہے۔ کتنے سال پہلے انھوں نے یہ غزل لکھی تھی۔ لیکن کیا تازہ غزل ہے۔ لگتا ہے کہ اسی ہفتے پندھرواڑے میں یہ لکھی گئی ہے۔ یہ شاعر کا کمال ہے یا تماشا ہی ایسا ہے کہ کب شروع ہوا تھا اور اسی تازگی کے ساتھ جاری ہے۔ ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہا۔ تو یہ تھی آج کی تازہ غزل۔