شخصیت پرستی سے نجات

نواز شریف ماضی میں PPP کو سیکیورٹی رسک قرار دیتے تھے لیکن اب وہ باہم ایک ہیں۔۔۔۔


جبار قریشی September 04, 2014

''اے اٹھارہ کروڑ انسانو! اپنی قوت کو پہچانو'' فیض احمد فیضؔ کی نظم کا یہ ایک مصرعہ (ترمیم کے ساتھ) اپنے وجود سے لے کر آج تک بطور سیاسی نعرہ استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیکن عوام الناس نے نہ ہی اس نعرے پر کبھی اپنا کان دھرا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ان کے کان پر کوئی جوں رینگی ہے۔ پاکستان میں بسنے والے 18 کروڑ سے زائد عوام اپنی قوت پر انحصار کرنے کے بجائے یہ سمجھتے ہیں کہ طاقتور شخصیات ہی حالات تبدیل کرتی ہیں حالات کی تبدیلی میں عام آدمی کا کوئی کردار نہیں، یہی وجہ ہے کہ عوام الناس بے عمل ہو کر ایسی شخصیت کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کے مسائل کا تیار شدہ حل لے کر آ جائے اور بغیر مزاحمت اور کوشش کے ان کے تمام مسائل حل کر دے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے عوام الناس کی ایسی سوچ کیوں پروان چڑھی ہے۔ دراصل ہمارا معاشرہ طویل عرصے تک آمریت اور ملوکیت کے زیر اثر رہا ہے جس کے باعث ہمارے حکمرانوں کی تعریف اور توصیف لکھی جاتی رہی ہے اس سے شخصیت کی اہمیت میں اضافہ ہوا اور اس سے شخصیت پرستی کو فروغ حاصل ہوا۔ آج بھی ہمارے یہاں بیشتر سیاسی، دینی اور مذہبی جماعتیں شخصیت پرستی کی سیاست کا شکار ہیں۔

یہ جماعتیں اپنے منشور کے بجائے شعلہ صفت شخصیات پر انحصار کر رہی ہیں ان کی سیاست شخصیات کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شخصیات حالات تبدیل نہیں کرتیں بلکہ خود حالات کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یعنی حالات و واقعات ہی شخصیات کا روپ دھار لیتے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک وقت نہ صرف ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے بلکہ کانگریس کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ بعد میں حالات تبدیل ہوئے تو انھوں نے نہ صرف کانگریس سے علیحدگی اختیار کی بلکہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔

اسی طرح علامہ اقبال نے لکھا ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا''
بعد میں حالات تبدیل ہوئے ان کے خیالات میں تبدیلی آئی اور انھوں نے لکھا:

چین و عرب ہمارے ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سا را جہاں ہمارا

مولانا مودودی نے ایک عرصے تک جماعت اسلامی کو ایک اصلاحی تحریک کی حیثیت دے رکھی تھی اور اس کو سیاست سے دور رکھا۔ لیکن جب عالمی حالات تبدیل ہوئے اور عالمی طاقتوں نے دنیا پر اپنے اپنے نظام کمیونزم اور کیپٹل ازم کے نفاذ کی کوشش کی اسے حالات میں مولانا مودودی کے خیالات میں تبدیلی آئی وہ سمجھنے لگے کہ سیاسی میدان خالی چھوڑنے کی وجہ یہ طاقتیں غالب آ جائیں گی اس لیے انھوں نے جماعت اسلامی کا ایک سیاسی کردار بھی متعین کر دیا ۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کی بات کی جب حالات تبدیل ہوئے تو اسی ملک بھارت سے مذاکرات کے ذریعے اپنے نوے (90) ہزار قیدی رہا کرا لیے۔ الطاف حسین ماضی میں یہ سمجھتے تھے کہ مہاجروں کو متحد کر کے ان کے حقوق کو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ملک کے 98 فیصد عوام 2 فیصد استحصالی طبقے کے خلاف متحد نہیں ہو جاتے اس وقت پاکستان میں بسنے والی کسی قوم کو حقوق حاصل نہیں ہو سکتے۔

نواز شریف ماضی میں PPP کو سیکیورٹی رسک قرار دیتے تھے لیکن اب وہ باہم ایک ہیں۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر قادری یہ سمجھتے تھے کہ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے ملک کے حالات تبدیل کیے جا سکتے ہیں لیکن اب ان کے خیالات تبدیل ہو گئے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب کے ذریعے ہی پاکستان کے عوام کے حالات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

ان مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حالات تبدیل ہو جانے سے نظریات بدل جاتے ہیں اس کے باوجود نہ جانے کیوں ہمارے دانشور اور اہل علم حضرات اس بات پر بحث کرتے اور دلائل کے ڈھیر لگاتے نظر آتے ہیں کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے سیکولر یا اسلامی۔

راقم الحروف کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے اگر آج وہ زندہ ہوتے اور ان کے نظریات میں تبدیلی آتی وہ پاکستان کے لیے سیکولر نظام کو سودمند سمجھتے تو ایسی صورت میں اسلامی نظام کے حامی عناصر کا ردعمل کیا ہوتا۔

اسی طرح ممکن ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے لیکن آج وہ یہ سمجھتے کہ ملک کے لیے اسلامی نظام سے بہتر کوئی نظام نہیں ایسی صورت میں سیکولر عناصر کیا لائحہ عمل اختیار کرتے۔

دونوں جانب کے سقراطوں اور بقراطوں کو اس کا جواب ضرور دینا چاہیے۔ میری ذاتی رائے میں یہ ایک لاحاصل بحث ہے۔ یہ سوال ہمیں پاکستان میں بسنے والے 18 کروڑ جیتے جاگتے عوام الناس سے کیا جانا چاہیے کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں عوام الناس سے پوچھا جائے تو ان کا ایک ہی جواب ہے۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

میرا مقصد یہاں قائد اعظم کی عظمت اور خدمات کی نفی کرنا ہرگز نہیں ہے بلاشبہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک عظیم شخصیت تھے۔ انھوں نے جس فہم اور بصیرت سے تاریخ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔راقم الحروف شخصیات کا مخالف نہیں ہے بلکہ شخصیت پرستی کا مخالف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی معاشرے کی مختلف تحریکیں شخصیت کے بغیر نہ وجود میں آتی ہیں اور نہ ہی کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہیں اس لیے انھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن عوام کو محض مقلد قرار دینا اور ان کے شعور اور قربانیوں کو نظرانداز کر کے یہ ثابت کرنا کہ شخصیت ہی تاریخ ساز ہوتی ہیں وہی حالات تبدیل کرتی ہیں عوام الناس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ایسا تصور عدل و انصاف کے منافی ہے۔

اس غلط تصور سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں ایک عام آدمی کو جب روزگار کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ کسی تھانے یا کچہری کا مسئلہ اسے درپیش آتا ہے تو وہ اداروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے مضبوط شخصیات کے سہارے تلاش کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شخصیات مضبوط اور ادارے کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس نظام میں آمریت اور خوشامد پسندی (چاپلوسی) کے کلچر کا پیدا ہونا فطری ہے۔

اس کے فروغ سے جمہوری اقدار کا خاتمہ ہو جاتا ہے اس وقت سیاسی میدان میں مختلف شخصیات کا جو باہم تصادم اور ٹکراؤ نظر آ رہا ہے وہ اسی صورتحال کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ شخصیت پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان سے نجات کیسے حاصل کی جائے یا اس کا خاتمہ کس طرح کیا جائے۔ اس کی ایک ہی صورت ہے کہ پاکستان میں رہنے والے 18 کروڑ عوام اپنی قوت پر انحصار کریں اس ضمن میں سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں وہ اپنی جماعتوں کی قیادت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ جماعتوں میں جمہوری عمل کو فروغ دیں بالخصوص تاحیات قیادت کا تصور ختم کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے شخصیت پرستی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

خانقائی نظام (صوفی ازم) ہماری زندگی کا ایک اہم شعبہ ہے اس شعبہ زندگی کا بنیادی فلسفہ کردار سازی کے ذریعے انسان کے باطنی زندگی کے پہلو کو روشن بنانا ہے۔ بقول علامہ اقبال:

خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

بدقسمتی سے اس شعبہ زندگی یعنی خانقائی نظام میں بھی ہمارے سیاسی نظام کی طرح ملوکیت داخل ہو گئی ہے۔ ایسا نظام جس میں سیرت و کردار کو بنیادی حیثیت حاصل ہونی چاہیے اسے عموماً نظرانداز کر کے طویل عرصے سے نسلی تعلق کو اولین حیثیت دی جانے لگی ہے۔ میرا اس حوالے سے عام مشاہدہ ہے میری ناقص رائے میں اس نظام میں اس خرابی کی بنا پر جہاں یہ نظام اپنی افادیت کھو رہا ہے وہاں اس نظام کی اس خرابی نے شخصیت پرستی کو بہت زیادہ فروغ دیا ہے۔

میرا مذہبی اور دینی علم بہت محدود ہے اس لیے اس نظام میں اصلاح کے لیے کیا کیا جانا چاہیے اس پر اپنی علمی رائے دینے سے قاصر ہوں۔ اہل علم بالخصوص دینی علم رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ اس ضمن میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں