غریب قوم اور دوسری قوم
کیسے اقتدار کو چھوڑے گی ’’غریب قوم‘‘ کے ٹھپوں نے ان کو اس چیز کے اختیارات دے دیے ہیں۔۔۔
اشرافیہ (ٹرائیکا) نے مغربی طرز حکمرانی جسے جمہوریت کہتے ہیں اس کی آڑ میں ملکی وسائل پر قبضہ کر کے ہر دور میں لوٹا ہے۔ ایک پارٹی جاتی ہے تو دوسری پارٹی آ جاتی ہے اور آئین کو مقدس گائے بنا کر ایک دوسرے کی لوٹ مار کو چھپاتی آ رہی ہیں، جب بھی عوامی سطح پر اس ظالمانہ طریقوں کے خلاف احتجاج سامنے آتا ہے تو اسے قوت سے دبایا جاتا ہے۔
افواج پاکستان ہوں، عوام ہوں، دونوں کو اشرافیہ کی پیدا کردہ مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بد حالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہنے کو تو جمہوریت اور تمام شہریوں کو آزادی ہے تو پھر آج اسمبلیوں میں عام شہری اپنی اکثریت ہونے کے باوجود ایک سیٹ بھی نہیں رکھتا ہے۔ تمام سیٹوں پر جاگیردار، سرمایہ کار قابض ہیں۔ پاکستان میں ایک قوم نہیں ہے بلکہ ایک ''غریب قوم'' اور ''دوسری قوم'' اشرافیہ (ٹرائیکا) ہے۔
آج پاکستان کے تمام معاشی وسائل پر امیر قوم قابض ہے اور غریب قوم آج قدرتی وسائل سے محروم کر دی گئی ہے۔ امیر قوم مالیاتی ہتھکنڈوں سے کس طرح ملکی وسائل لوٹ رہی ہے، بجٹ سازی کے ذریعے غریب قوم کو کس طرح دھوکا دے کر امیر قوم ملک کو لوٹ رہی ہے۔ کتاب Pakistan Economic Survey 2013-14 میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2012-13ء میں غریب قوم سے وصول کیا گیا ریونیو 29 کھرب 82 اب 43 کروڑ 60 لاکھ روپے تھا۔
(2) سامراج قرض وصولی 2 ارب 99 کروڑ 85 لاکھ 43 ہزار روپے (3) بیرونی ملکوں سے ''غریب قوم'' کے افراد نے زر مبادلہ ملک میں 13 کھرب 146 ارب 62 کروڑ 25 لاکھ 37 ہزار روپے بھیجا۔ ان تینوں کا ٹوٹل 43 کھرب 32 ارب 5 کروڑ 70 لاکھ 80 ہزار روپے بنتا ہے۔ حکومت نے بجٹ کے اخراجات 48 کھرب 16 ارب 30 کروڑ روپے دکھائے۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں حقیقی خسارہ 4 کھرب 84 ارب 24 کروڑ 29 لاکھ 20 ہزار روپے تھا۔ ''امیر قوم '' نے ''غریب قوم'' کو دھوکہ دے کر اور بجٹ سازی میں ہیر پھیر کر کے بجٹ خسارہ 18 کھرب 33 ارب 86 کروڑ 40 لاکھ روپے دکھایا اور خسارے کو جواز بنا کر اسٹیٹ بینک اور دیگر ملکی اداروں سے 18 کھرب 80 ارب روپے کا قرضہ لیا۔ پھر حکومت پر قابض ''امیر قوم'' نے اصل خسارے کو نکال کر باقی 13 کھرب 95 ارب 75 کروڑ 71 لاکھ روپے ہڑپ کر لیے۔
اتحادیوں کو کتنا حصہ دیا؟ اسمبلیوں کے ہر ممبر کو کتنا حصہ دیا؟ یہ افواج پاکستان کے بجٹ سے تین گنا سے زیادہ رقم ''امیر قوم'' محض اس لیے کھا گئی کہ ''امیر قوم'' نے ''غریب قوم'' سے ووٹوں کے ذریعے اقتدار اور اختیارات حاصل کر لیے تھے۔ یہ اختیارات نام نہاد جمہوریت کے ذریعے حاصل کرنے کے بعد ''امیر قوم'' جس کے منہ کو غریبوں کا خون لگ چکا ہے۔
کیسے اقتدار کو چھوڑے گی ''غریب قوم'' کے ٹھپوں نے ان کو اس چیز کے اختیارات دے دیے ہیں کہ ''غریب قوم'' اب اگر اپنے زندہ رہنے کا حق مانگتی ہے تو ان کو ربر کی گولیاں، شیلنگ اور براہ راست فائر کھول کر قتل کیا جا رہا ہے۔ جمہوری کرسی کی آڑ میں اربوں روپے کے قرضے معاف کرائے گئے۔ لا تعداد سہولتیں لی جا رہی ہیں۔ کیا غریب قوم کو زندہ رہنے کا بنیادی حق بھی نہیں ہے۔ اگر نہیں تو آج ''غریب قوم'' یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہ کرے کہ پاکستان کی مالک ''غریب قوم'' ہے ''امیر قوم'' نے کھربوں روپے ہر سال ہڑپ کیے ہیں۔ فوجی حکمرانوں کو شاید معلوم ہی نہ ہو کہ ان کے سائے تلے ''امیر قوم'' کیا کارنامے کرتی رہی ہے۔
پاکستان ''غریب قوم'' کا ہے جو اکثریت ہے۔ پاکستان ''امیر قوم'' کا نہیں ہے جو اقلیت ہے پاکستان کے غریبوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ''امیر قوم کے حکمران'' نہیں بنتے۔ یہ صرف اور صرف وسائل کو لوٹ لوٹ کر عوام کی خوش حالی میں مسلسل کمی کرنا چاہتے ہیں۔ غریب قوم کو چاہیے کہ امیر قوم کے شکنجے سے پاکستان چھین لے۔ اگر آج نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ آج بھی مرنا کل بھی مرنا اگر غریب قوم ظالموں سے اپنا حق معاشی آزادی چھین لیتی ہے تو غریب قوم پھر اپنے فیصلے بھی آپ کر کے ترقی کر سکے گی۔ غلامی میں غلام فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں ''آزاد غریب قوم'' ہی آزاد فیصلے کر سکتی ہے۔
ان لٹیروں، ظالموں سے حق مانگو نہیں حق چھین لو۔ آج پاکستان کو امیر قوم نے تقسیم کیا ہوا ہے ایک غریب قوم جو امیر قوم کی نظر میں اچھوت ہے۔ امیر قوم اپنے جبر تلے کی رٹ کو ختم کر کے غریب قوم کی رٹ کو بحال کرنا ہے یہی جنگ امیر قوم اور غریب قوم کے درمیان ہے۔ آج کیا اکثریتی غریب قوم امیر قوم کی رٹ تلے ہمیشہ غلام رہنا پسند کرے گی یا غریب قوم اپنی رٹ قائم کر کے زندہ رہنا چاہے گی۔ آج امیر قوم نے دو پاکستان بنا دیے ہیں غریب قوم کو امیر قوم کے اس عمل و نظریے کو حرف غلط کی طرح مٹانا ہو گا۔