فواد چوہدری کی جھوٹی ٹویٹ ریکارڈ کی درستی کیلیے ایکسپریس میڈیا گروپ کا موقف

فواد چوہدری نے ٹیکسٹ میسیج کی بنیاد پر اسلام آباد میں ربڑکی گولی چلنے کی خبر رپورٹ کی جو انتہائی خطرناک ہوسکتی تھی


Express Report August 25, 2014
تحقیقات میں الزام ثابت ہوگیا تو انھوں نے انتظامیہ پر حکومتی دبائوکی بے بنیاد ٹویٹ کردی، ہم ناظرین کے اعتماد پر پورا اتریں گے۔ فوٹو: فائل

ایکسپریس نیوز کے تجزیہ کار فواد حسین چوہدری نے 23 اگست کو ٹویٹ کی کہ حکومت ایکسپریس نیوزکی انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ مجھے تجزیہ کاروں کے پینل سے نکال دیا جائے، اس کے بعد یہ الزام سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر چلایا گیا اور خاص طور پر صحافتی برادری میں پھیلایا گیا، کچھ لوگوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔

عمومی طور پر ہمارا ادارہ اس طرح کے انفرادی الزامات کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا مگر موجودہ سیاسی عدم استحکام تقاضا کرتا ہے کہ شفافیت کو یقنی بنانے کیلیے جواب دیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ فواد چوہدری خبریں گھڑنے کے ذمے دار ہیں اور ٹویٹ کرکے مزید جھوٹ بول رہے ہیں اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ واقعے کی مکمل تحقیقات سے واضح ہوا ہے کہ فواد چوہدری کے الزامات مکمل طور پر بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔

19 اگست کی شام تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں نے اسلام آباد میں ریڈ زون کی جانب مارچ شروع کیا، یہ انتہائی حساس موقع تھا اور یہ غیرواضح تھا کہ حکومت کا ردعمل کیا ہوگا۔ ایکسپریس نیوز دیگر چینلوں کی طرح اس واقعے کی لائیو کوریج کررہا تھا۔ نشریات کے دوران فواد چوہدری نے ڈاکٹر معید پیرزادہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیگر چینلز اور افرادکا کہنا ہے کہ انھوں نے سنا ہے کچھ مقامات پر ربڑ کی گولیاں چلی ہیں اور لاٹھی چارج کیا گیا ہے، ہمارے رپورٹرز اس بات کی تصدیق نہیں کررہے مگر دیگر چینلز چلا رہے ہیں۔

ایکسپریس نیوز نے یہ خبر نشر نہیں کی کیونکہ یہ خبر جھوٹی تھی، دیگر چینلز نے اس خبر کا ٹکر چلایا مگر ہمارے رپورٹرز نے اس کی تصدیق نہیں کی اور ہم نے صحافتی ذمے داریوں کے مطابق اس جھوٹی خبر کو نہیں چلایا۔ اس جھوٹی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے فواد چوہدری نے تصدیق کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کی بلکہ اس جھوٹی اور خطرناک خبر کو آن ائیر کرتے ہوئے نیوز روم کو بھی بائی پاس کیا۔ خبریں جمع کرنے اور انھیں نشر کرنے کی گائیڈ لائنز میں واضح ہے کہ اپنے بیوروز اور وائر سروسز کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونیوالی خبروں کی نشر کرنے سے قبل نیوز روم سے تصدیق کی جائے۔

دھرنوں کے شرکا کے ریڈ زون میں داخلے کے وقت ایسی جھوٹی خبر کے تباہ کن اثرات ہوسکتے تھے، یہ جذبات بھڑکا کا آگ لگانے کے مترادف تھی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ فواد چوہدری نے ''ذرائع'' کے ٹیکسٹ میسیج کے بعد یہ جھوٹی خبر آن ایئر کی، وہ ایسی خبر نشر کرنے کی اتھارٹی نہیں رکھتے تھے۔ فواد چوہدری نے اس خطرناک سیاسی صورتحال میں ایسی خبر رپورٹ کرنے کے خطرے کو محسوس کرلیا تھا۔ اس کے باوجود ایکسپریس نیوز کی انتظامیہ نے فواد چوہدری کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے اندرونی تحقیقات کے نتائج کو التوا میں رکھا اور انھیں واپس آن ایئر ہونے کی اجازت دیدی۔

اس کے فوری بعد فواد چوہدری نے ایکسپریس نیوز کی انتظامیہ پر الزام لگایا کہ وہ انھیں نکالنے کے حوالے سے بیرونی دباؤ کے سامنے جھک رہی ہے۔ یہ واضح ہے کہ انھوں نے یہ ٹویٹ تحقیقات کا اندازہ لگاتے ہوئے کی تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ حکومتی دباؤ پر انھیں سنسر کیا جارہا ہے ناں کہ تخریبی سرگرمی کی سازش کی وجہ سے۔ فواد چوہدری سے جب ان لوگوں کے نام پوچھے گئے جن پر دباؤ ڈالا گیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

ایکسپریس نیوز اظہار رائے کی آزادی پر فخر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آزادی پیشہ وارانہ ذمے داریوں کے ساتھ ہی آتی ہے۔ ہم یہ ذمے داری بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اپنے ناظرین کو یقین دلاتے ہیں کہ ہماری اسکرین پیشہ وارانہ صحافت کی اعلیٰ ترین شکل ہے،ہم کسی کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ جھوٹے، اشتعال انگیز اور خطرناک بیانات کے ذریعے اس بھروسے کو نقصان پہنچائے۔ ہم ناظرین کے بھروسے کا ہر قیمت پر تحفظ کرینگے اور جو اس بھروسے کو نقصان پہنچائے گا اسکی ہمارے ادارے میں کوئی جگہ نہیں۔

ہر ادارے یا ممبرشپ باڈی میں کچھ گندے انڈے ہوتے ہیں اور یہ ایسے افراد ہوتے ہیں جو اپنے مالی یا دیگر فوائد کیلیے اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔ جب انھیں روکا جاتا ہے تو وہ 'شیر آیا، شیر آیا' کا شور مچا دیتے ہیں اور ادارے پر 'تعصب' اور 'سنسرشپ' کا الزام لگاتے ہیں۔ صحافتی برادری کو چاہیے کہ ایسے رویے کی حوصلہ شکنی کریں، اسے رویے سے نہ صرف میڈیا پر لوگوں کا اعتماد کم ہوتا ہے بلکہ ایسے رویہ کے جاری رہنے کی بھی حوصلہ افرائی ہوتی ہے، ایسا رویہ میڈیا کے نمائندگان پر حقیقی دباؤ کے سنجیدہ اور اہم کیسز سے بھی توجہ ہٹاتا ہے، ایسے واقع پر ہمیں مکمل اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں