شکاگو سے شیمپئن تک
سیکیورٹی کلیرنس کی لمبی لائنوں میں لگنا اس پر مستزاد ہے جو انور مسعود کے لیے بعض اوقات بہت زیادہ تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔۔
سب سے پہلے تو عمران خان اور آپ سب سے اس بات کی معذرت کہ گزشتہ کالم میں عمران خان کے کچھ خاندانی رشتوں کے بارے میں دو غلط اطلاعات شائع ہو گئیں۔ ہوا یوں کہ خلافِ عادت میں مسوّدے پر آخری نظر نہیں ڈال سکا اور ایک جملے کی غلط ترتیب کے باعث یہ گھپلا ہو گیا مجھے اچھی طرح علم ہے کہ ماجد جہانگیر، جاوید برکی اور عمران خان آپس میں خالہ زاد ہیں اور ڈاکٹر جہانگیر خان مرحوم عمران کے والد نہیں بلکہ خالو تھے۔
میں نے اپنی طرف سے اسد جہانگیر (جو ماجد خان کے بڑے بھائی ہیں) کے والد کا نام جہانگیر خان لکھا تھا لیکن جملے کی وضع میں خرابی کی وجہ سے گڑبڑ ہو گئی۔ جن دوستوں نے ای میلز کے ذریعے اس غلطی کی نشاندہی کی ہے میں ان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
شکاگو کے علاقے Dewan کی شعری نشست کے بعد ہمیں اکنا فاؤنڈیشن کی کانفرنس میں شرکت کرنا تھی جس میں ایک مشاعرہ بھی شامل تھا۔ یہ کانفرنس PEORYA نامی ایک شہر میں تھی جو شکاگو سے تقریباً 30 میل کے فاصلے پر ہے۔ شہر کے نام پی اوریا کے حوالے سے برادرم اوریا مقبول جان کو بہت یاد کیا گیا۔
اکنا ICNA اور اسنا ISNA امریکا میں مسلمانوں کی دو اہم ترین مذہبی تنظیمیں ہیں جو کچھ عرصہ قبل تک اپنے پروگراموں کو صرف دینی معاملات کی حد تک محدود رکھتی تھیں لیکن اب یہ مشاعرے اور کچھ دیگر تہذیبی نوعیت کی تقریبات کا بھی اہتمام کرنے لگی ہیں جو بلاشبہ ایک مثبت اقدام ہے کہ انسانی شخصیت کی تکمیل کے لیے اس طرح کی وسعت قلب و نظر انتہائی ضروری ہے۔
مشاعرے میں چار سو کے قریب خواتین و حضرات موجود تھے جنھوں نے ڈاکٹر حسین پراچہ کے نثری خطاب اور ہم دو بھائی انور مسعود اور میری شاعری کو بہت توجہ اور دلچسپی سے سنا۔ کانفرنس کے منتظمین تجربے یا باہمی رابطے کی کمی کی وجہ سے بعض اوقات آسان کاموں کو خوامخواہ مشکل بناتے دکھائی دیے لیکن مجموعی طور پر یہ ایک اچھی اور بامقصد کانفرنس تھی۔
ہمارا اگلا پڑاؤ مشہور یونیورسٹی ٹاؤن شیمپئن تھا جو یہاں سے بذریعہ کار دو گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ شہر کے نام سے یاد آیا کہ یہ ایک مشہور شراب کا نام بھی ہے جس کی بوتلیں عام طور پر عالمی سطح کے کھیل کے مقابلوں کے فاتحین کو بھی پیش کی جاتی ہیں اور پھر یہ بھی یاد آیا کہ چند برس قبل پیرس سے فرینک فرٹ جاتے ہوئے راستے میں شیمئپین نامی ایک قصبہ آیا تھا جس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اس شراب کی پہلی فیکٹری یہاں قائم ہوئی تھی اور اسی رعایت سے یہ نام بھی رکھا گیا تھا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ وہ شیمپئن شہر مئے ارغوانی کے لیے مشہور تھا اور یہاں صہبائے علم کا دور دورہ ہے۔ یعنی نشہ مشترک ہے صرف اس کے رنگ بدل گئے ہیں یہاں کی تقریب کے روح رواں شہباز گل تھے جو یہاں یونیورسٹی میں پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی نمائندہ یونیورسٹیوں میں بھی لیکچرز کے لیے آتے جاتے رہتے ہیں اور انتہائی لائق فائق ہونے کے علاوہ بہت بذلہ سنج اور سخن فہم بھی ہیں سو ان کی وجہ سے اس شہر میں قیام کا مختصر عرصہ بھی دو آتشہ ہو گیا۔ رات کا کھانا ان ھی کے گھر پر تھا جہاں برادرم حسین پراچہ، عزیزی بلال پراچہ اور اس کی بیگم بھی مدعو تھے۔ مشاعرے کا وقت دوپہر سے سہ پہر کے درمیان تھا کہ ایک تو وہاں کی مقامی کمیونٹی مختصر تھی جب کہ بہت سے دوست نزدیکی شہروں سے بھی آئے تھے اور دوسرے اگلا دن کام کا دن یعنی سوموار تھا۔ اگرچہ ہمیں اس سے پہلے بھی کئی بار دن دہاڑے مشاعرہ پڑھنے کا اتفاق ہو چکا ہے مگر سچی بات یہی ہے کہ اس کا مناسب ترین وقت وہی ہے جب آسمان پر چمکنے والے ستارے بھی سامعین میں شامل ہو جائیں۔
دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر بالعموم اور امریکا کے ہوائی اڈوں پر بالخصوص بہت زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے۔
سیکیورٹی کلیرنس کی لمبی لمبی لائنوں میں لگنا اس پر مستزاد ہے جو انور مسعود کے لیے بعض اوقات بہت زیادہ تکلیف دہ ہو جاتا ہے سو اس کے لیے ہر اسٹیشن پر ویل چیئر کا اہتمام کیا گیا۔ شہباز گِل کے مشورے پر میں نے بھی زندگی میں پہلی بار اس سہولت سے استفادہ کیا۔ تھوڑی سی نفسیاتی جھجک سے قطع نظر یہ تجربہ بہت کامیاب رہا کہ اس کی وجہ سے ہمیں سیکیورٹی کی لائن میں نہیں لگنا پڑا۔
اگرچہ یہ سہولت ایئرلائن کی طرف سے بزرگ اور بیمار مسافروں کو مفت مہیا کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ویل چیئر کھینچنے والے اہل کار (جن میں خواتین کی اکثریت ہوتی ہے) ٹپ کی توقع رکھتے ہیں اب اس سے قطع نظر کہ کوئی لڑکی یا خاتون یہ خدمت انجام دے رہی ہو جو مشرقی آداب کے حوالے سے کچھ غیر مناسب سا لگتا ہے۔ سب سے زیادہ قابل تعریف بات ان لوگوں کی مستعدی اور خوش باشی ہے کہ یہ اپنا کام اس قدر دیانتداری سے کرتے ہیں کہ واقعی دل خوش ہو جاتا ہے۔
ہماری نیویارک کےJFK ایئرپورٹ پر شوکت فہمی اپنی مخصوص اور محبت سے بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا منتظر تھا۔ گزشتہ پندرہ برس میں تقریباً چھ بار مجھے اس کے گھر پر قیام کا خوشگوار تجربہ حاصل ہوا ہے سو جب کئی مانوس سڑکوں اور عمارتوں کو پہچانتے ہوئے اس کے ڈرائنگ روم تک پہنچے تو یوں لگا جیسے اپنے گھر میں آ گئے ہوں اس کی بیگم اسماء جو میری بیٹیوں جیسی چھوٹی باجی ہے اور ان کے تینوں بچے آریز، رامین اور ضوریز بھی آ گئے اور دنیا واقعی چھوٹی چھوٹی سی لگنے لگی۔
نیویارک کا مشاعرہ ہمارے میزبانوں کے پروگرام میں شامل نہیں تھا لیکن برادرم سعید نقوی، عبدالرحمن عبد، وکیل انصاری اور شوکت فہمی نے حلقۂ ارباب ذوق کے زیر اہتمام ایک One for the Road ٹائپ مشاعرے کا انتظام کر لیا جس میں حمیرا رحمن، مقسط ندیم، الطاف ترندی، اعجاز بھٹی اور اردو ٹائمز والے خلیل الرحمن ان کے معاونین میں شامل ہیں۔ یہ مشاعرہ آج رات ہو گا جہاں بہت سے اور دوستوں سے بھی ملاقات متوقع ہے۔
کیپٹن شاہین بٹ آج کل پاکستان گئے ہوئے ہیں جن کی کمی بری طرح محسوس ہو رہی ہے۔ خیال تو یہ تھا کہ یہاں قیام کے تین دنوں میں خوب گھومیں پھریں گے لیکن ہوا یہ کہ صبح ناشتے کے بعد ہم ٹی وی کے سامنے بیٹھتے اور پھر کم و بیش سارا دن وہیں گزر جاتا۔ تمام ملنے والے بھی وہیں آتے رہے اور یوں لگا جیسے اسلام آباد کے دھرنوں سے دور ایک منی دھرنا نیویارک میں بھی دیا جا رہا ہے۔
نیویارک میں مین ہٹن، بروکلین، جیکسن ہائٹز، کوئنز اور کونی آئی لینڈ کے بعد اب لانگ آئی لینڈ بھی ایشیائی بالخصوص پاکستانی کھانوں میں خود کفیل ہوتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر سعید نقوی کل رات ڈنر کے لیے ہمیں ایک حلال چینی ریستوران میں لے گئے جو ایک سردار جی کی ملکیت ہے۔ اتفاق سے ہمیں میز بھی وہی ملی جس پر بیٹھ کر ہم نے تین برس قبل کھانا کھایا تھا اور اتفاق سے سعید نقوی کے ڈینٹسٹ دوست ڈاکٹر مسعود اس بار بھی اسی نشست پر بیٹھے جہاں گزشتہ بار ہم نے مل کر کھانا کھایا تھا۔
خلیل الرحمن اور مقسط ندیم کا خیال تھا کہ یہاں کے پاکستانیوں کی اگلی نسل کا تعلق ہمارے مذہب، ادب اور تہذیب سے بالکل ختم ہو جائے گا جب کہ باقی شعرائے محفل کا خیال ان سے قدرے مختلف تھا۔ سو اس حوالے سے تقسیم ہند اور امریکا میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کے بہت سے ایسے مسائل پر بھی گفتگو ہوئی جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ان پر انشاء اللہ آئندہ کبھی بات ہو گی کہ اب کالم کی وسعت داماں اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔