عوام کی بھی سن لیجیے

آپ آزادی مارچ کریں نہ کریں ان کا بربادی مارچ 68 سالوں سے جاری ہے ۔۔۔


راؤ سیف الزماں August 22, 2014
[email protected]

میرا موضوع بحث وہ فطری قوانین ہیں جو امر ہیں، اٹوٹ ہیں۔ اور کائنات کا سچ ہیں۔ جیسے یہ تحریر لکھتے ہوئے میرے سامنے وہ تمام اشیا ہیں جو موجود ہیں۔ اپنا وجود رکھتی ہیں اور میں بہ ہوش و حواس انھیں دیکھ رہا ہوں۔ مثلاً اس وقت رات کے ڈھائی بج رہے ہیں۔

اگر کوئی اس وقت کو دوپہر یا شام قرار دینے لگے تو ایسا کہنے پر وہ قادر ہے لیکن کرنے پر تو قادر مطلق ہی قادر ہے۔ باقی کوئی نہیں۔ پھر بھی ہم عمران خان کے سابقہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر غلط قرار نہیں دے سکتے۔ ان میں یقینا کہیں نہ کہیں سچائی موجود ہے۔ خواہ اس کی شرح 25 فیصد ہو۔ لیکن ہے ضرور۔ عمران خان کا اس پر احتجاج بھی غلط نہیں۔ کوئی احتجاج دراصل جمہوری روایت کا حصہ ہی ہوتا ہے۔

غلط ہے وہ ضد جو ان کے مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد بھی بدستور موجود ہے۔ غلط ہے وہ بغض جو ان کی تقاریر میں حکمران خاندان کے لیے صاف محسوس ہوتا ہے۔ اس ملک میں امراء کی ایک باقاعدہ فوج ہے۔ جو بہت منظم ہے۔ یا ممکن ہے ان کی کوئی یونین بھی موجود ہو۔ بہت سے ارب، کھرب پتی ہیں۔ جن کی جائیدادیں ساری دنیا میں موجود ہیں۔ جن کے بچے بھی وہیں پر رہتے ہیں۔ اور کروڑوں کے گھروں میں ان کے اہل خانہ رہائش پذیر ہیں۔ لیکن عمران خان کا ہدف صرف حکمران اور ان کے اہل خانہ یا اہل خاندان ہیں۔ بادشاہت بھی اپنے وطن عزیز میں کم عرصے کے لیے نہیں رہی۔ بہت سے سابق حکمراں، فوجی جرنیل پاکستان کے سکندر اعظم رہے ہیں۔ تب شریف برادران ہی ہدف تنقید کیوں؟

چنانچہ ہمارے کپتان اب اس حوالے سے کچھ ایسے ڈھکے چھپے بھی نہیں رہے کہ ان کا غم و غصہ ایک مخصوص دائرے میں نظر نہ آتا ہو۔ میں نے ان کی تمام تقاریر، انٹرویوز بغور سماعت کیے ہیں۔ جو گزشتہ دنوں سے مسلسل میڈیا پر، اخبارات میں چل رہے ہیں۔ ان سب کا جائزہ لینے کے بعد میں نے ان پر جو رائے قائم کی اسے ایسے صائب الرائے حضرات سے بھی Discuss کیا جو کسی طور سیاست کے یا ریاست کے اسرار و رموز سے واقفیت رکھتے ہیں اور جب میں نے ان سب کی رائے کو اپنی رائے سے سراسر مماثل پایا تو یہ تحریر لکھنے کی جسارت کی۔

محترم خان صاحب! ہم اہلیان پاکستان کسی طور پر آپ کے مطالبات کو غلط یا بے جا قرار نہیں دے رہے۔ بلکہ آپ کے ہم قدم ان کے نفاذ پر اصرار بھی کرتے ہیں۔ لیکن بات اتنی ہی ہونی چاہیے جتنی وہ ہے۔ اور اگر فریق دوئم فریق اول کی شکایات دیر سے ہی سہی۔ دور کرنے کا وعدہ بلکہ عزم کرتا ہے تو اسے بھی اپنا احتجاج ملتوی کر دینا چاہیے۔ کیونکہ اہم آپ کی وزارت عظمیٰ نہیں ہے۔ اہم ملک ہے۔ اور وہ 18 کروڑ لوگ ہیں جو پہلے ہی سے ظلم و جبر کی چکی میں مہنگائی اور بدامنی کے ہاتھوں پس رہے ہیں۔ جن کا جینا یوں بھی دوبھر ہو گیا ہے۔

آپ آزادی مارچ کریں نہ کریں ان کا بربادی مارچ 68 سالوں سے جاری ہے۔ وہ لوگ اہم ہیں۔ ملکی سالمیت اہم ہے۔ آپ کی Ego اہم نہیں ہے۔ اگر کسی وجہ سے وہ مجروح ہو گئی ہے تو ہم بحیثیت قوم آپ سے معافی کے خواستگار ہیں۔ خدارا! لوٹ آئیے۔ ملک کو اس وقت کسی اچھے، بہت اچھے حکمران سے بھی کہیں زیادہ جمہوری تسلسل کی ضرورت ہے اور انشاء اللہ یہ تسلسل جاری رہا تو ایک دن آپ بھی ملک کے وزیر اعظم ہوں گے۔

میں حکومتی حلقوں سے بھی ملتمس ہوں۔ بالخصوص وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے کہ اپنے رویوں میں درستگی کے لیے قدرت آپ کو وسیع تر مواقع فراہم کر چکی ہے۔ اور تنبیہہ بھی۔ آپ کی ہٹ دھرمی دراصل دھرنوں کا اصل کارن ہے۔ انتہائی فوری نوعیت کے معاملات پر آپ کی دانستہ تاخیر بعد میں آپ ہی کی شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے۔

آپ آج جو مطالبات عمران خان کے مان رہے ہیں بلکہ مانتے مانتے تھک نہیں رہے۔ انھیں وقت پر مان لینے میں کیا حرج تھا۔ اور کسی حد تک عمران خان کا آپ حضرات کو بادشاہ قرار دینا غلط بھی نہیں ہے۔ آپ کا طرز حکومت اکثر اس گلے کی ترجمانی کرتا رہا ہے۔ جس جمہوریت کا، جمہوری روایات کا ذکر آپ کثرت سے فرماتے ہیں آپ خود کس قدر ان پر عمل پیرا ہیں۔ ایمانداری سے اس کا جائزہ لیجیے۔

انسان اپنے معاملات میں یکساں نہیں رہ سکتا لیکن میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ غیر جانبدارانہ اپنی طرز حکومت کے اس پہلو پر غور فرمائیں گے تو عمران خان کا یہ لقب آپ کو کچھ ایسا غلط بھی نہیں لگے گا۔ لہٰذا 14 اگست کے بعد جو بات سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہی ہے کہ آپ اپنے گزارے ہوئے ان 14 ماہ کے ایک ایک دن کا از سر نو جائزہ لیں کہ آپ سے غلطیاں کہاں کہاں سرزد ہوئی ہیں۔

وہ کون سے ملکی مسائل تھے جن پر کام ترجیحی نوعیت سے ہونا چاہیے تھا۔ عوام کے مسائل کی ایسی فہرست بہت ضروری ہے۔ جس میں وہ بھوک اور افلاس سے دم توڑ رہے ہیں۔ اور ان بھوک اور افلاس سے مرتے ہوئے لوگوں کو آپ کس شاہراہ عظیم پر سفر کروانا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جب آپ میٹرو بس کی اور موٹرویز کی باتیں کرتے ہیں تو اس پوری قوم کو مفلوک الحالی میں بھی ہنسی آ جاتی ہے۔ دکھ اور درد میں ڈوبی ہوئی ہنسی۔

حالات تو آپ کے بہتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ لیکن باقی لوگ۔ جن کے ووٹ لے کر آپ کو صرف حکومت ہی نہیں عزت بھی ملی ہے۔ وہ کہاں جائیں؟ میرے بھائی! ان پکی سڑکوں کو ہم دیہاتی کیسے ناپ سکیں گے۔ آپ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم اس جھلستی دھوپ کے عادی ہیں جن پر میٹرو بس کا 20 منٹ کا سفر اور 20 منٹ کی ٹھنڈی ہوا کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہمیں تو پھر باہر آ کر پتھر کوٹنے ہیں۔ آپ حکمرانوں کے محلات کی تعمیر میں اینٹ اور گارے سے دیواریں چننی ہیں۔ اپنی بیٹیوں کو رخصتی میں ایک ٹوٹا ہوا ٹین کا بکس، دو جوڑے اور کچھ آنسو دینے ہیں۔

آپ ہمارے راہنما ہیں تو ہمیں پیٹ بھر کر روٹی دے دیں لیکن ہو دو وقت کی۔ ہمیں پانی، بجلی دے دیں۔ ہم بے گھر ہیں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں کوئی ٹھکانہ کر دیں ہمارا۔ صرف وعدوں، تسلیوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا۔ فلاں سال سے فلاں سالوں میں یہ ملک ترقی کر جائے گا۔ یہ سن سن کر ہم چھوٹے سے بڑے ہوئے، بوڑھے ہوئے اور مر گئے۔ خدارا! ہمیں بھی سمجھو۔۔۔۔! ہماری بھی سن لو۔۔۔۔!

اگر ایک رات وہ آسمان کا نظام دے مرے ہاتھ میں

تو میں تمام تارے اٹھا اٹھا کے غریب لوگوں میں بانٹ دوں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔