میڈیا واچ ڈاگ – نرم ہاتھ

گیمز سے نہ تو صحیح حقائق پر مقدمہ درج ہو سکتا ہے، نہ تفتیش اور نہ ہی جزا و سزا دی جاسکتی ہے۔


شہباز علی خان August 17, 2014
گیمز سے نہ تو صحیح حقائق پر مقدمہ درج ہو سکتا ہے، نہ تفتیش اور نہ ہی جزا و سزا دی جاسکتی ہے۔

انقلاب فرانس میں عوامی غیض و غضب کا نشانہ بننے والے کرپٹ ، نا اہل اور ظالم حکمرانوں اور اشرافیہ طبقے نے جہاں دیگر عوامی نفرت کا سامنا کیا وہیں انسان تاریخ میں ایک انوکھا کام یہ ہوا کہ صدیوں کے مظالم کے شکار مشتعل جتھوں نے ہر اس شخص کو اذیت دے کر قتل کیا جس کے ہاتھ نرم تھے اور یہ شبہ تھا کہ یہ نرم ہاتھ والا شخص کوئی کام کاج نہیں کرتا بلکہ عوام کا خون چوستا ہے، حرام کماتا ہے اور رعایا کے پیسے پر عیاشی کرتا ہے۔انقلاب فرانس کا پاکستان کے معروضی حالات سے کوئی تعلق ہے یا نہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے مگر نرم ہاتھ اور عوامی رد عمل کا خیال مجھے سماجی ویب سائیٹس اور انٹر نیٹ پر چلنے والی وڈیوگیمز اور اپلیکیشنز " گلو بٹ، اینگری عمران ، کینٹینر رن" اور اس طرز کی متعد د گیمز کو دیکھ کر آیا جو عوامی نفرت و جذبات کے اظہار ہیں جس کے لیے انگریزی زبان میں کیتھارسس کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

ماہر سماجیات کے مطابق انسانی زندگی میں جتنی اہم محبت اور نفرت ہے اتنی ہی اہمیت اور ضرورت محبت اور نفرت کا اظہار بھی ہے۔ پرانے زمانے میں دشمن کی طرف سے بھیجے گئے ایلچی کا سر قلم کر کے اظہار نفرت کے طور پر واپس بھیج دیا جاتا تھا ۔پھر کہتے ہیں کہ انسان مہذب ہو گیا اور بات سر سے پتلوں اور جھنڈوں کے جلانے یا بے حرمتی تک آ گئی ، اور جب کبھی موقع ملتا تو جوتا مار کر بھی کیتھارسس ہونے لگاخواہ وہ امریکی صدر ہو ، سیاستدان یا حکمران، عوامی نفرت کا اظہار جوتا پھینک کر کیا جانے لگا حالانکہ مارنے والے کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ ٹارگٹ پورا ہونے پر بھی کوئی زیادہ جسمانی نقصان کا احتمال نہ ہے پھر بھی علامتی طور پر یہ عمل اب تک جاری و ساری ہے۔

مگر صاحب کیا کیجیے کہ یہ نیا دور ہے اور حضرت انسان مہذب ہونے کا دعویدار ہے۔ اب سماجی سائٹس پر اظہار ، وڈیو گیمز اور اپلیکیشنز کے ذریعے متعلقہ شخص عوامی غیض و غضب کا نشانہ بنتا ہے۔پچاس کی دہائی میں وڈیو گیمز شروع کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ بچوں کے لیے ہلکی پھلکی تفریح ، معلومات اور تعلیم کے لئے شروع کی جانے والی گیمز آنے والے وقت میں سیاسی، سماجی اور انقلابی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہونگی اور بعض اوقات غیر اخلاقی اور ملک دشمن ہتھکنڈے بھی اس کا حصہ بنیں گے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں وڈیو گیمز سے متعلق قوانین اور ضابطے بنائے گئے جن کے تحت ہزارہا وڈیو گیمز یا اپلیکیشنز پر پابند ی لگی یا استعمال کرنے والے کے لیے عمر کی حد مقرر کی گئی تاکہ ان بصری کھیلوں کے مضر اثرات سے بچا جا سکے۔

مگر یہ سب باتیں ایک طرف۔ ہم تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں جہاں مادر پدر قسم کی آزادی ہے، پاکستان میں راہ چلتے ہوئے پان کی پیک پھینکنے سے لے کر قومی اداروں کے اربوں روپے ہڑپ کرنے کی آزادی ہے، ملک کے صدر سے لے کر عام آدمی تک کسی کا بھی مضحکہ خیزاور تضحیک آمیز کارٹون بنا یا جا سکتا ہے، نقلیں بھی اتاری جا سکتی ہیں اور مہذب الفاظ میں گالم گلوچ بھی کیا جا سکتا ہے۔

یہ الگ بات کہ شنوائی اسی وقت ہو گی جب یا تو خود سوزی کی جائے یا لانگ مارچ کیا جائے۔ ایسے میں ہم جیسے کمپیوٹر کی اسکرینوں پر بیٹھے بے وقعت عوام کے پاس اس کے سوا کیا رستہ بچتا ہے کہ وہ گلو بٹ کی دھلائی وڈیوگیمز پر ہی کر لیں جب پولیس کا بیج لگا کر اعلی افسران کی تھپکی تلے دو دو ٹکے کے میرے جیسے عام آدمی کی درجنوں گاڑیا ں توڑ دی جائیں ، با ریش بوڑھوں کی کپڑوں کی طرح دھلائی کی جائے اور اٹھارہ جانور نما انسانوں کو گولی مار کر قتل کر دیا جائے اور پھر چند ہفتوں بعد ہی یہ بڑے صاحبوں کے مصاحب ہاتھ میں آزادی کا پروانہ لیے آپ کے اور میرے درمیان موجود ہوں اور پھر یہ گلو ایک نئے روپ میں پومی بٹ کے روپ میں جلوہ گر ہوں تو دو دو ٹکے کے عوام کیا کریں؟۔

یہی کچھ کریں گے کہ اپنا کیتھارسس کے لیے وڈیو گیم یا اپلیکیشن بنا ئیں گے اور پھر کمپیوٹرا سکرین پر گاڑیا ں توڑتے، پولیس افسران کی تھپکیاں لیتے ،بندے مارتے یا پھر کنٹینرز کو پھلانگتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچ کر اپنے جذبات کی جھوٹی تسکین کریں گے۔مانا کی ریلیز ہوتے ہی اسی طرح کی گیمز عوام خصوصا نوجوانوں میں بے حد مقبول ہوجاتی ہیں لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد اس طرح کی گیمز کی بے معنی ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ گیمز سے نہ تو صحیح حقائق پر مقدمہ درج ہو سکتا ہے، نہ تفتیش اور نہ ہی جزا و سزا دی جاسکتی ہے۔ بس آپ یوں سمجھئے کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔

بات اگر گیمز تک ہی رہے تو ہی ٹھیک رہے گا اور یہی اس ملک کی بگڑی ہوئی امن و امان کی صورتحال اور سلامتی کے لئے ضروری ہے۔ مگر میرے ذہنی فتور کا کیا کریں کہ میں سوچتا ہوں کہ اگر بات گیمزسے بڑھ کہ نرم ہاتھوں تک پہنچ گئی تو پھر کیا ہوگا؟۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں