سب کرسی کے ہیں دیوانے
دھرنا اور لانگ مارچ اس وقت کیا جاتا کہ جب 12 لاکھ بے گھر افراد اپنے بوڑھے ماں باپ، باپردہ عورتوں، معصوم بچوں کو ۔۔۔
سب کچھ صحیح ہے، بس وقت کا چناؤ غلط ہے۔ بارہ لاکھ گھروں سے بے گھر لوگ خیموں میں پڑے ہیں، فوج دہشت گردوں سے لڑ رہی ہے، 18 کروڑ عوام کی نظریں شمالی وزیرستان پر لگی ہوئی ہیں۔ یہ وقت تو یکجہتی دکھانے کا ہے اور ہم دنیا بھر میں رسوا ہورہے ہیں۔ بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم۔
عمران خان کے مطالبات درست ہیں۔ انتخابات میں گھپلے ہوئے ہیں، ہمارا انتخابی نظام درست نہیں ہے، اس میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ انگوٹھوں کی جانچ پڑتال، معیاری سیاہی اور سب سے بڑھ کر مشین کے ذریعے ووٹنگ، گو وڈیروں، جاگیرداروں کا رعب، دبدبہ تو ہوگا مگر پھر بھی خاصا بہتر نظام ہوجائے گا۔
بس ذرا سا خیال کیا جاتااور دھرنا اور لانگ مارچ اس وقت کیا جاتا کہ جب 12 لاکھ بے گھر افراد اپنے بوڑھے ماں باپ، باپردہ عورتوں، معصوم بچوں کو لے کر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے، فوج بھی ضرب عضب سے فارغ ہوجاتی۔ ایک ایسے وقت سیاسی ہلچل کہ جب پورا ملک اندرونی اور بیرونی خطرات میں بری طرح گھرا ہوا ہے، کراچی ایئر پورٹ پر اتنا بڑا حملہ، پشاور ایئرپورٹ پر جہاز راکٹوں کی زد پر، فوج رینجرز اور اس کے علاوہ ہیں۔ کراچی میں روز تین چار لاشیں گرتی ہیں، ایسے میں اس دن پوری قوم کو مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ غاصبوں کی جگہ میں لیڈرو لکھ کر جالب کا شعرپیش کر رہا ہوں۔
''لیڈرو'' تم خدا سے کچھ تو ڈرو
باقی ماندہ وطن پہ رحم کرو
آدھے سے زیادہ وطن لیڈروں نے گنوا دیا۔ اب باقی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ملک کو ذاتی اناؤں، پسند نا پسند کی بھینٹ چڑھارہے ہیں۔ میں نام کیا لوں، سب دیکھ رہے ہیں کہ کل کون کس کے ساتھ بیٹھا تھا، حکومتوں، وزارتوں کے مزے لوٹے جارہے تھے۔
آج وہی مزے پھر۔ ملک داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ وطن کا پاس انھیں تھا نہ ہو سکے گا کبھی کہ اپنی حرص کے بندے ہیں ''خواہشوں کے غلام''۔ کل ایک آمر آئین و قانون کی دھجیاں اڑا رہا تھا اور یہ لوگ کہتے تھے ''ہم سوبار مشرف کو وردی سمیت صدر بنائیںگے'' آج یہ خود آئین و قانون سے انکاری ہیں۔ آج کون سی پارٹی ہے جس میں آمر کے بندے موجود نہیں ہیں۔ ایسے کیسے کام چلے گا۔
جنرل ایوب کے زمانے میں ''بیس گھرانے'' اور جالب نے لکھا تھا:
بیس گھرانے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد
صدر ایوب زندہ باد
آج بھی ہم پر جاری ہے
کالی صدیوں کی بے داد
صدر ایوب زندہ باد
اور آج بیس گھرانے بیس ہزار گھرانے بن چکے ہیں۔ اب کون سے رنگ کی صدیوں کی بے داد ہم پر جاری ہے! سچ تو یہی ہے کہ غریب کا حال ہر دور میں برا تھا۔ آج تو انتہا ہو چکی ہے۔ ابھی کل ہی ایک ماں نے تین بیٹیوں سمیت دریائے کابل میں چھلانگ لگا کر خود کو بچیوں سمیت ختم کر لیا۔
ایک بیٹا دریا کے پل پرکھڑا ماں اور بہنوں کو خودکشی کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ آٹھ سالہ بچہ کچھ نہ کر سکا۔ محض دیکھتا رہ گیا اور ان لیڈروں کے کلف زدہ کپڑوں پر شکن تک نہیں آتی۔ ان کی بلٹ پروف اور کروڑوں کی کاریں، گاڑیاں، جدید ترین مہنگے اسلحے سے لیس گارڈز کے جتھے، خون خوار، مونچھوں سمیت قائم ودائم ہیں۔ ان لیڈروں کی عورتیں زیورات سے لدی بھندی، بیوٹی پارلرز سے فیض یاب، سر پر قیمتی عینک، پیروں میں قیمتی جوتیاں، ہوا میں اڑتے آنچل، حشر بداماں! لو جالب کا شعر در آیا ہے۔ منیر نیازی کو بھی یہ شعر پسند تھا:
اس کے آنچل کو چھو رہی ہے صبا
وائے قسمت کہ میں صبا نہ ہوا
اس وقت میرے ذہن میں ایک پنجابی فلمی گانے کا مکھڑا آگیا ہے۔ مکھڑا گیت نگاری میں ابتدائی مصرع یا شعر کو کہا جاتا ہے تو ذہن میں آئی بات کو رد نہیں کروںگا بلکہ لکھوں گا۔
کوئی جھوٹا لارا، لاکے مینوں رول جا
جھوٹیا، وے اک جھوٹ ہور بول جا
یعنی ''جھوٹی تسلی دے کر مجھے مزید برباد کردے، اے جھوٹے، ایک جھوٹ اور بول دے'' جب سے پاکستان بنا ہے چند سچے لوگ تھے جنھیں مار دیا گیا باقیوں کو جیلوں، قلعوں، تھانوں، حوالات کی نذر کر دیا گیا، ریڈیو پاکستان سے مسلسل جھوٹ بولا جاتا رہا اور جھوٹے حکمران آتے رہے۔ جھوٹ بولتے رہے اور جاتے رہے۔ حتیٰ کہ یہ دن آگئے کہ جب ہمارا لوٹا ہوا پیسہ باہر کے بینکوں میں پڑا ہے، عوام کو سبز باغ دکھایا جا رہا ہے، محل، جائیدادیں، کاروبار، غریبوں کے سڑتے خون تھوکتے، بیمار جسموں کے عوض باہر ہیں۔ وہ سب باہر ہی رہیں گے۔ سیاست تو لیڈروں کے لیے ایک کھیل ہے وہ فارغ ہیں۔ ایک عوامی کہاوت ہے۔
فکر نہ فاقہ
عیش کر کاکا
یعنی ان سیاست دانوں کو نہ کوئی فکر ہے نہ یہ بھوک سے مر رہے ہیں تو یہ عیش ہی کریں گے۔ لہٰذا یہ سیاست، سیاست کھیلتے ہیں۔ بڑا مشہور شعر ہے، خاصے پانے کسی شاعر کا ہے۔ نام یاد تھا اس وقت بھول رہا ہوں۔ بہر حال شعر سنیے۔
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
آمنے سامنے کھڑے ہوکر ''منے ونے'' جاگیردار، وڈیرے، سردار، خان، سجادہ نشین، الیکشن الیکشن کھیلتے ہیں، جیتتا تو جاگیردار، وڈیرا، سردار، خان یا سجادہ نشین ہی ہے۔ جب تک یہ سلسلہ نہیں ٹوٹے گا حالات کہاں سدھریں گے!!! مگر جمہوریت بہترین چیز ہے ''اسے چلنے دیں، اسے چلنا چاہیے۔ چلے تو لٹ ہی جائے گا۔ سفر آہستہ آہستہ'' ایک پنج سالہ دور کٹ گیا۔ موجودہ دور کو بھی پانچ سال پورے کرنے دو، موجودہ حکمرانوں کو پانچ سوال حل کرنے ہیں۔ (1) دہشت گردی (2) بجلی پانی، گیس (3) تعلیم (4) علاج معالجہ (5) بے روزگاری۔
سوال تو دس ہیں مگر Option ہے کہ ترجیحاً یہ پانچ ضرور حل کرنا ہیں۔ امتحانی پرچے کا وقت پانچ سال ہے، ایک سال گزر گیا، ابھی چار سال باقی ہیں، پھر پاس یا فیل کا نتیجہ نکلے گا۔ الیکشن کے عمل کو چلنے دیں۔ اپوزیشن دباؤ برقرار رکھے، مگر یہ وقت افرا تفری کا نہیں ہے۔ بارہ لاکھ افراد اپنے گھروں کو بخیریت لوٹ جائیں۔ ضرب عضب ختم ہوجائے تو لانگ مارچ، دھرنے ضرور کریںگے۔ میں بھی شرکت کروں گا۔ ہمارے ایک مرحوم دوست تھے۔ شاعر بھی اچھے تھے اور انسان دوست بھی تھے، کراچی کے شعرا کو انوار حبیب کا نام ضرور یاد ہوگا، ان کا مجموعہ کلام ''سچائی'' کے نام سے شایع ہوا تھا، گاندھی جی کے ساتھی پنڈت حبیب الرحمن شاستری، انوار حبیب کے والد تھے، انوار حبیب کے چار مصرعوں میں سے ایک آج کے کالم کا عنوان ہے۔ چار مصرعے پیش خدمت ہیں۔
کوئی نہیں ہے سچا لیڈر
سب کرسی کے ہیں دیوانے
کرسی چھوڑ کے ملک سدھارے
قوم تو اس کو لیڈر مانے