بڑھتا ہوا ظلم ۔۔۔۔۔آخر کب تک

معاشرے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے جامع اور ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے


معاشرے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے جامع اور ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ فوٹو : فائل

دس سالہ تبسم کو کیا پتہ تھا کہ اس کے ساتھ کیا ظلم ہونے والا ہے، وہ معصوم تو زمیندارکے ڈیرے پر نہانے کے لئے آیا تھا مگر سفاک زمیندار نے اس کے باپ سے رنجش کا بدلہ اس سے لیا اور اس کے دونوں بازو تن سے جدا کر دیئے۔

تھانہ صدر گجرات کے نواحی گاؤں چک بھوالا کے محنت کش نصر اقبال کی گاؤں کے زمیندار غلام مصطفیٰ کے ساتھ بجلی کا میٹر ڈیرے پر لگوانے کے دوران 5 ہزار روپے کے تنازع پر تلخ کلامی ہوئی جس کی رنجش پر غلام مصطفیٰ نے ڈیرے پر نہانے آئے نصر اقبال کے10 سالہ بیٹے تبسم کو بوتلوں کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا اور اُس پر گرم پانی انڈیل دیا جس پر تبسم کھیتوں میں چھپ گیا، تاہم سفاک درندے نے اُسے پکڑ کر رسیوں اور کپڑے سے اُس کے ہاتھ اور پاؤں باندھ دیئے اور پیٹر انجن کی مدد سے اُس کے دونوں بازو تن سے جدا کر دئیے ۔

اس کے بعد خود ہی اُسے پرائیویٹ ہسپتال منتقل کر دیا جہاں وہ اپنے طور پر معاملہ چھپانے کی کوشش کرتا رہا اورہسپتال میں علاج معالجہ کے لئے اپنا خون بھی دیا۔ صورتحال کا علم ہونے پر نصر اقبال نے پولیس کو درخواست دی تاکہ ایف آئی آر درج کر کے قانونی کاروائی کی جا سکے مگر ایس ایچ او تین روز تک ٹال مٹول کرتا رہا جس پر نصر اقبال نے میڈیا کے ذریعے اپنی بات حکومتی ایوانوں تک پہنچائی، جب وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو وقوعہ کا علم ہوا تو انھوں نے پولیس کو فوری کاروائی کا حکم دیا ، تب پولیس کے کان پر جوں رینگی اور مقدمہ درج کر کے ملزم کوگرفتار کیا ، ملزم غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ تبسم میرا رشتے میں بھتیجا لگتا ہے۔



ہم معمول کے مطابق کھیل رہے تھے کہ سہواً ایسا ہو گیا جس پر ندامت ہے۔ ادھردونوں بازؤں سے محروم ہونے والے بچے کا کہنا ہے کہ وہ نہانے کیلئے ٹیوب ویل پر گیا تھا کہ ظالم نے اُسے اپنا شکار بنادیا جبکہ اُس کی والدہ کا کہنا ہے کہ اس کے بچے کو نجانے کس بات کی سزا دی گئی ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف واقعے کا نوٹس لینے کے بعد عزیز بھٹی ہسپتال گجرات پہنچ گئے۔ وزیراعلیٰ تقریباً ایک گھنٹہ تک بچے کے پاس بیٹھے اُس سے باتیں کرتے رہے اور اس دوران کئی باراُن کی آنکھیں نم ناک ہوگئیں۔ وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے بچے سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ کاش میں تمہارے بازو واپس دلا سکتا لیکن ایسا ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں جہاں سے بھی ممکن ہوا اس بچے کے لیے جدید ترین مصنوعی بازوؤں کا انتظام کروں گا اور جس ملک میں ضروری ہوا اسے علاج کے لیے بھیجوں گا۔ محمد شہباز شریف نے کہا کہ کم سن بچے کو عمر بھر کے لیے اپاہج بنانے والے سفاک شخص کو ایسا کرتے ہوئے اپنی اولاد کا خیال کیوں نہیں آیا۔ ایسے مجرم دھرتی کا ناسور ہیں اور انہیں جو بھی سزا دی جائے کم ہے۔

وزیراعلیٰ نے متاثرہ بچے کی عیادت کے موقع پر اُس کے غم زدہ والدین سے واقعہ کی تفصیلات دریافت کیں جنہوں نے بچے کے کٹے ہوئے بازوؤں کی تصاویر وزیراعلیٰ کو دکھاتے ہوئے کہا کہ اُن کے بچے کے ساتھ انتہائی ظلم ہوا ہے اور اُس کو عمر بھر کے لیے معذور کردیا گیا ہے اب وہ پڑھائی لکھائی بھی نہیں کر سکتا جبکہ وہ پانچویں کلاس کا طالب علم اور پڑھنے لکھنے کا شوقین ہے۔ وزیر اعلی پنجاب نے متاثرہ بچے کے ورثا کو تسلی دی اور یقین دلایا کہ انہیں فوری انصاف دلایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ معصوم بچے کو عمر بھر کے لئے معذور کرنے والا سنگدل اور انسانیت کا دشمن شخص کسی رعایت کا مستحق نہیں اور اسے کڑی سے کڑی سز ا ملنی چاہیے۔



انہوں نے کہا کہ بچے کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ اور اس کی حالت زار دیکھ کر انہیں شدید صدمہ ہوا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے ضلعی انتظامیہ اور عزیز بھٹی شہید ہسپتال کے حکام کو ہدایت کی کہ متاثرہ بچے تبسم شہزاد کو علاج معالجہ کی ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے ۔ انہوںنے اعلان کیا کہ بچے کے علاج، بحالی اور تعلیم کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ وزیراعلی نے بچے کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے کا امدادی چیک بھی دیا۔

تشدد کا ایک ایسا ہی دلدوز واقعہ لاہور ہائیکورٹ کے گیٹ پر پیش آیاجب انصاف لینے کے لئے آئی فرزانہ کو اس کے رشتہ داروں نے اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیا اور قانون کے رکھوالے خاموش کھڑے سب کچھ دیکھتے رہے۔ فرزانہ نے اقبال کے ساتھ پسند کی شادی کی تھی اور وہ حاملہ تھی، اس کے گھر والوں نے اقبال کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کروا رکھا تھا ، وہ مقدمہ کے اخراج کی درخواست میں بیان دینے ہائیکورٹ آئی تھی کہ ہائیکورٹ مسجد گیٹ کے باہر اس کے 30 سے زائد رشتہ داروں نے حملہ کر دیا ، قریب ہی کھڑے پولیس اہلکار خاموش تماشائی بنے رہے ، سر پر اینٹیں لگنے سے فرزانہ نے موقع پر ہر دم توڑ دیا۔

بنت حوا کے ساتھ ایسا ہی ایک واقعہ خیرپور ٹامیوالی کے علاقے چک 24 میں پیش آیا۔ جہاں پر ایک لڑکی (ش) کو ملزم شاہد خان نے اغواء کر لیا تاہم لڑکی کے بھائی نے تعاقب کیا تو ملزم نے چاقو سے لڑکی کی ناک کاٹ دی اور فرار ہو گیا۔ لڑکی نے پولیس کو بتایا کہ ملزم اُس سے ناجائز تعلقات قائم کرنا چاہتا تھا' انکار پر اس نے ناک کاٹ دی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے بہاولپور میں لڑکی پر تشدد اور ناک کاٹنے کا نوٹس لیتے ہوئے آر پی او بہاولپور سے رپورٹ طلب کی اور ہدایت کی کہ زخمی لڑکی کو ہسپتال میں علاج معالجہ کی بہترین سہولتیں فراہم کی جائیں اور ملزمان کو فی الفور گرفتار کر کے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

استحصال اور تشددکی اندوہناک مثال اس وقت سامنے آئی جب ضلع حافظ آباد کے نواحی گاؤں کوٹ لدھا میں پولیس اسٹیشن سے چند گز کے فاصلے پر قائم اینٹیں بنانے والے بھٹے پر نجی جیل کا انکشاف ہوا۔ رتہ پور ریحان تحصیل کوٹ مومن ضلع سرگودھا کے 100 سے زائد مرد و خواتین اور بچوں کو کئی سالوں سے با اثر زمیندار سیف اللہ، مشتاق احمد اور محمد آصف نے اپنی نجی جیل میں قید کر رکھا تھا اور اُن سے بھٹے پر اینٹیں بنانے اور فصلیں کاشت کروانے سمیت اپنے دیگر کاموں کیلئے جبری مشقت لی جاتی تھی، بازیاب ہونے والے مرد و خواتین کا کہنا ہے کہ زمیندار صبح سے رات تک اُن سے جبری مشقت کرواتے، نہ تو اُنہیں پوری اُجرت دی جاتی اور نہ ہی اُنہیںدو وقت کا کھانا دیا جاتا۔



بازیاب ہونے والے افراد نے انکشاف کیا کہ ان کی نجی جیل سے بھاگنے پر 6 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے جبکہ متعدد کو تشدد کرکے اُن کے ہاتھ پاؤں توڑ دیئے گئے ہیں اور بعض خواتین کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ سی پی او گوجرانوالہ کی ہدایت پر سی آئی اے اور ایلیٹ فورس کی بھاری نفری نے با اثر زمیندار سیف اللہ، مشتاق احمد اور محمد آصف کے ڈیرہ اور بھٹہ خشت پر چھاپہ مار کر اُن کی نجی جیل میں قید 100 سے زائد مرد و خواتین اور بچوں کو بازیاب کروا یا ۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ نجی جیل پولیس سٹیشن سے چند گز کے فاصلے پر کئی سالوں سے موجود تھی مگر پولیس والوں کی لاپرواہی دیکھئے کہ کبھی انھوں نے اس کا نوٹس ہی نہ لیا۔

عدم برداشت، سفاکی، سنگ دلی اور ظلم کی وہ کون سی سطح ہوگی جس کی مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود نہ ہوں۔ کسی لڑکی کو اس کے سسرال میں زندہ جلا دینے، بچوں کو اغوا کرکے رقم وصول کرنے کے باوجود انہیں قتل کردینے، زبردستی زیادتی کا نشانہ بنانے، نو عمر بچوں، بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات اب ہمارے معمولات زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایسے واقعات پر ردعمل کا دائرہ ایک محلے یا ایک مخصوص علاقے تک محدود رہتا ہے۔

کوئی سڑک روک کر اس پر ٹائر جلائے جاتے ہیں، ایک آدھ گاڑی کے شیشے ٹوٹتے ہیں، تھوڑی مارا ماری بھی ہوسکتی ہے اور اس کے بعد یہی سمجھا جاتا ہے کہ جو معاشرتی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے آج پوری ہوگئی۔ حالانکہ اس طرح کی عوامی طاقت کے مظاہرے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی معاشرے کی اجتماعی یادداشت کس قدر بہتر ہے اور معاشرتی سطح پر ہونے والے قابل نفرت واقعات کو لوگ کتنا یاد رکھتے ہیں۔ اسی ایک نقطے پر مستحکم اور زندہ انسانی معاشروں کی عمارت تعمیر ہوا کرتی ہے۔

مثال کے طور پر ایسے ظلم، دھونس، دھاندلی اور من مانی کے واقعات کے خلاف ٹائر جلانے اور نعرہ بازی کرنے کے بجائے عوامی سطح پر منظم جدوجہد کا عہد کیا جائے تو اس کے اثرات کہیں زیادہ مؤثر اور دوررس ہوں گے۔

اگر لوگ بااختیار ، باوسیلہ اور بالادست طبقات کی من مانی کے خلاف قانونی اور اخلاقی جدوجہد کا عہد کر لیں اور اس کے لیے اپنے وسائل مجتمع کرکے میدان میں آجائیں تو موجودہ گلے سڑے تعفن زدہ نظام کے باوجود بے وسیلہ لوگوں کو کسی حد تک تحفظ فراہم کرنا ممکن ہو جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کم از کم ہر ضلع کی سطح پر ماہرین قانون اور وکلاء پر مشتمل ایسی ٹیمیں موجود ہوں جو عوامی حلقوں کے ساتھ تنظیمی سطح پر منسلک ہوں اور ایسے واقعات رونما ہونے پر ظلم کا شکار ہونے والوں کی پیروی کریں اور اس بات پر بھی نظر رکھیں کہ بالادست لوگوں کو بچانے کے لیے قانون اور انتظامیہ جب سودی بازی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو انھیں ایسی قابل نفرت سرگرمیوں کو کس طرح بے نقاب کرنا ہے اور کس طرح ظالم کو تحفظ دینے کی کوششوں کا راستہ روکنا ہے۔



اس طرح کے ہولناک اور دہلا کر رکھ دینے والے واقعات کے ردعمل کے طور پر ایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہمارا معاشرہ اخلاقی انحطاط کی اس سطح تک گر میں اتر گیا ہے، اس کی وجوہات تلاش کرنا چاہیں تو جو بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کے بعد اس ملک کے وسائل اور اقتدار پر مستحکم گرفت کی کشمکش شروع ہوگئی تھی۔ اس کشمکش کی شدت نے ملک کے تمام اداروں کو بردباد کرکے رکھ دیا ہے۔

ملکی ادارے اپنی آزاد حیثیت میں بہترین کارکردگی دکھایا کرتے ہیں لیکن گزشتہ دس بیس برسوں میں اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ایس ایچ او، پٹواری اور نائب تحصیلدار تک کی تقرری صوبائی حکومتوں، اراکین اسمبلی اور وزراء اپنی مرضی سے کروانا چاہتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں موجود شخصیات کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی بھی معاملے کی تحقیقات میں قانون خود اپنا راستہ اختیار کرنے کے بجائے طاقت کے مرکز سے رجوع کرکے ہدایات لے کہ اسے کس کے حق میں فیصلہ کرنا ہے، اوپر سے لے کر نیچے تک سارے کا سارا معاشرہ بدترین طبقاتی تقسیم کا شکار ہے جو نظام اس ملک میں کسی نہ کسی طرح سے چل رہا ہے وہ صرف اور صرف طاقت کے مراکز اور مقتدر شخصیات کو جوابدہ ہے۔

ایسے نظام سے عدل کی توقع رکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان میں ایک سادہ سا اصول کارفرما نظر آتا ہے کہ انتظامیہ اور قانون اپنا رویہ اسی تناسب سے طے کرتے ہیں جو فریقین کے درمیان طاقت کا تناسب ہوتا ہے۔ اگر ایک کمزور بے وسیلہ غریب شخص کو قتل کردیا جاتا ہے تو سمجھ لیں کہ جس طرح گلی میں کوئی لاوارث جانور دم توڑ گیا اسی طرح انسان مرگیا، لیکن اگر دو طاقتوروں کے درمیان ٹھن جائے تو پھر فیصلہ قانون نہیں طاقت کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں سردار شوکت حیات کی صاحبزادی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بعد میں اس معاملے کا کوئی منطقی نتیجہ سامنے نہیں آسکا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادتی کرنے والے زیادہ باوسیلہ لوگ تھے۔

اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے دور کے ابتدا میں اس وقت کی ممتاز فلم سٹار شبنم کو ان کے شوہر روبن گھوش کی موجودگی میں زبردستی ان کے گھر میں گھس کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، جن لوگوں نے یہ شرمناک حرکت کی تھی ان کے بارے میں معلومات بھی گردش میں رہیں ۔

اس وقت کے چیف مارشلاء ایڈمنسٹریٹر نے بڑے دبدبے کے ساتھ حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی لیکن بعد میں کسی کا بال بیکا نہیں ہوا اور اداکارہ کو صبر شکر کرنا پڑا (شبنم اب اپنے دیس بنگلہ دیش میں رہائش پذیر ہیں جو کبھی مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا)۔ جہاں قانون کی حکمرانی نہیں رہتی اور قصور واروں کو فوری سزا اور اس کی تشہیر کا بندوبست نہیں ہوتا وہاں قانون سے خوف کا عنصر غائب ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ہر خودسر کے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ اگر قانون اور انتظامیہ راستے میں آئے تو انہیں خریدنا مشکل نہیں یا ان پر اثر انداز ہونا مشکل نہیں۔

ہمارے ملک میں ایک اور بڑا ستم یہ ہے کہ ایسے دلخراش واقعات پر بھی سیاست شروع ہو جاتی ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں اچھا نظم و ضبط ہے، ادارے کسی سے ڈکٹیشن لیے بغیر اپنے قواعدو ضوابط کے مطابق کام کرتے ہیں اور ان کے کام میں سیاسی مداخلت نہیں ہوتی، سرکاری اہلکار اور افسر خود کو وزیراعلیٰ، وزراء اور ان کے سیاسی حواریوں کا غلام سمجھنے کی بجائے ریاست کا ملازم اور آئین کا تابعدار سمجھتے ہیں۔

وہاں کسی غیر معمولی واقعہ پر وزیراعظم، وزیراعلیٰ، صدر یا گورنر کو ظلم کا نشانہ بننے والوں کے گھروں میں جاکر فوٹو سیشن کرانے کی حاجت نہیں ہوتی۔ اس ملک میں آئے روز دل دہلا دینے والی وارداتیں ہوتی ہیں اور اہم شخصیات کی آنسو بہاتے ہوئے تصاویر صفحہ اول کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن اس بے فائدہ مشق سے ہمارے معاشرے اور اداروں کی کارکردگی میں رتی بھر بہتری نہیں آسکی اور یہ بات لکھ کر رکھ لیں کہ ایسی باتوں سے کوئی مثبت تبدیلی آبھی نہیں سکتی۔

جس انتظامی مشینری نے معاشرے کو عدل و انصاف دینا تھا اسے ہمارے سیاسی ناخداؤں نے خود اپنے ہاتھوں کرپٹ کیا ہے تاکہ ان کی ہر طرح کی جائز ناجائز خواہشات کی تکمیل ہو سکے تو پھر ایسے حالات میں قومی رہنما ظلم کا شکار ہونے والوں کے گھروں میں بیٹھ کر آنسو بہانے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے۔ بہتر منتظم وہ ہوتا ہے جس کو کہیں چل کر جانا نہ پڑے۔ اس کی ملک میں موجودگی ہی انتظامی مشینری کو سیدھے راستے پر رکھنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

ہمارے ملک کے اندر رونما ہونے والے واقعات کی تفصیلات ہمارے لیے اس قدر شرمناک ہیں کہ دوسرے ملکوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر زبان کھولتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ اگر ہم ظلم کے خلاف میدان عمل میں نہیں نکل سکتے، اگر ہماری جدوجہد سماجی انصاف، انسانی حقوق اور سب کے ساتھ مساوی سلوک جیسے نکات پر مرکوز نہیں ہوسکتی، اگر ہمارے علماء دین ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے جبر کے مراکز کے ساتھ معاملات درست رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے تو پھر ہمارے لیے شرمندگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔

ہمیں ظلم کا ہاتھ روکنے کے بجائے ندامت اور شرمندگی کا اظہار کرنے پر اکتفا کرنا ہوگا اور اس ملک کا نصیب بالادست، طاقتور طبقات کے ہاتھوں یرغمال بنا رہے گا۔ ایسے میں کسی کو اینٹیں مار مار کر سفاکی کے ساتھ ہلاک کردینے یا کسی کے بازو کاٹ دینے پر بھی کوئی آسمان نہیں گرے گا جو بھی پیسہ پھینکے گا جس کے پاس وسائل ہوں گے، جس کے سیاسی سائیں تگڑے ہوں گے اسے کسی بات کا ڈر نہیں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں