30 نومبر1967پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا دن جسے قوم کبھی بھلا نہیں سکتی۔ اس دن پاکستان کی سیاست نے ایک نئی کروٹ لی اور جمہور کی بالادستی کی منزل کا سفر شروع ہوا۔ اس تاریخ ساز دن کو پاکستان کے عظیم لیڈر شہید ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کا اعلان کیا اور لاہور میں ایک ایسی پارٹی کی بنیاد رکھی جس نے چند برسوں میں ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی کی بنیاد اس عزم کے ساتھ رکھی کہ عوام کی آواز کو بلند کیا جائے گا۔ اس جماعت کا مقصد ایک ایسی حکومت کا قیام تھا جو اشرافیہ کے بجائے عوام کے مفادات کی حفاظت کرے،انھیں سماجی انصاف، معاشی مساوات اور سیاسی آزادی فراہم کرے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو پیپلزپارٹی کے قیام سے پہلے ہی مقبول ہوچکے تھے ۔ عوام کو قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پہلی بار کوئی ایسا رہنما نظر آیا تھا جو ان کے حقوق کے لیے سربکف اور سینہ سپر کھڑا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر سے کراچی اور گلگت سے گوادر تک عوام نے ان کی آواز پر لبیک کہا۔ پیپلزپارٹی دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔ 1970کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں۔
1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کی معیشت بدحال اور عوام غم و غصے سے نڈھال تھے۔ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو نے نہ صرف قوم کا حوصلہ بلند کیا بلکہ انقلابی اقدامات کے ذریعے معیشت کو بھی مستحکم کردیا۔ شملہ معاہدے کے ذریعے وہ جنگی قیدیوں کو واپس لائے اور بھارت سے پاکستان کا مقبوضہ رقبہ واپس حاصل کیا۔ انھوں نے ملک کو 1973 کا متفقہ آئین دے کر ایک طرف بکھری ہوئی قوم کو یکجا کیا تو دوسری طرف 1974میں عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرکے عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بحال کیا۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی انھیں کا تحفہ ہے۔ عالمی استعمار نے دباؤ ڈالا، دھمکیاں دیں مگر وہ نہ جھکے اور ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ ان کے یہی وہ اقدامات تھے جو عالمی استعمار کو پسند نہیں آئے اور ان کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا جس کا نتیجہ 1977 میں جنرل ضیا کی آمریت کی صورت میں نکلا۔آمر ضیاء الحق نے عدالتی گٹھ جوڑ کے ذریعے ایک بوگس مقدمے میں انھیں شہید کردیا۔ 50 سال بعد سپریم کورٹ نے خود تسلیم کیا کہ قائد عوام کو منصفانہ ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا تھا۔
آمر ضیا الحق اور پیپلزپارٹی کے دیگر مخالفین یہ سمجھتے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کا شیرازہ بکھر جائے گا، عوام بھی جلد انھیں فراموش کردیں گے اور ملک پر آمریت اور اس کے گماشتوں کا اقتدار ہمیشہ قائم رہے گا۔ مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ شہید کبھی مرا نہیں کرتے، سو بھٹو بھی زندہ رہے، عوام کے دلوں میں، کارکنوں کی دھڑکنوں میں، اپنی سیاسی میراث کے وارثوں کی سوچ میں اور پارٹی کے نظریے میں۔ قائد عوام کی شہادت کے بعد عوام کے حقوق اور جمہوریت کی جدوجہد کا علم ان کی بہادر بیٹی بے نظیر بھٹو نے اٹھایا ۔
ضیاء الحق کے تاریک دور میں بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر جو مظالم کیے گئے ، وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے مگر ظلم و ستم کی یہ طویل سیاہ رات عوام کی آنکھوں سے وہ روشن خواب نہیں چھین سکی جس کی بنیاد پیپلزپارٹی کی قیادت نے رکھی تھی۔ شہید بے نظیر بھٹونے کئی مرتبہ جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور کئی سال جلاوطنی میں گزارے، لیکن ان کا عزم کبھی نہیں ٹوٹا۔ ان کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے 1988میں ایک مرتبہ پھر اقتدار حاصل کیا اور بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بن کر عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔
بے نظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں عوام کی فلاح کے لیے کئی اہم اقدامات کیے۔ خواتین کے حقوق کے لیے اصلاحات کی گئیں، صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے اور ملک میں ایک نئے معاشی رجحان کا آغاز ہوا۔ لیکن یہ سفر بھی آسان نہ تھا۔ بے نظیر بھٹو کو مقتدر حلقوں اور سیاسی مخالفین کی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1990 میں ان کی حکومت کو معزول کر دیا گیا لیکن وہ عوامی حقوق کی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں اور 1993 میں دوبارہ وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔
1996میں دوبارہ سیاسی بحران کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی اور انھیں ایک مرتبہ پھر جلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔ شہید بی بی اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف سیاسی انتقام کی بنیادوں پر کیس بنائے گئے۔ آصف علی زرداری کو قید کردیا گیا جہاں انھیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ پیپلزپارٹی کے دیگر رہنما اور کارکنوں کے خلاف بھی انتقامی کارروائیاں کی گئیں جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی جاری رہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف بھی مؤثر آواز بلند کی اور ملک میں آئین اور بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے تحریک کا آغاز کیا۔
اپنی زندگی کو لاحق شدید خطرات اور دھمکیوں کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس آئیں۔ کراچی میں ان کا ویسا ہی تاریخی استقبال ہوا جیسا 10 اپریل 1986 کو لاہور میں ہوا تھا۔ لاکھوں لوگ اپنی محبوب قائد کو دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ محترمہ کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا، خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہیں مگر 180 کے قریب کارکن شہید ہوگئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس حملے کے باوجود چھپ کر نہیں بیٹھیں، نہ ملک سے فرار ہوئیں بلکہ آئین کی بحالی کی جنگ جاری رکھی اور 27 دسمبر 2007 کو ملک اور جمہوریت کے دشمنوں نے انھیں راولپنڈی میں جلسے کے بعد شہید کردیا۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ ان کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے 2008 میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور ملک میں سیاسی استحکام کے لیے اہم اقدامات کیے۔
صدر آصف علی زرداری نے جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے 18ویں ترمیم جیسے اہم اقدامات کیے، جس سے پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا گیا، صوبوں کو حقوق دیے گئے اور ملک میں سیاسی افہام و تفہیم کو فروغ ملا۔ صدر آصف علی زرداری نے سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کا آغاز کیا۔ پاکستان میں توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ کیا۔ ’آغازِ حقوق بلوچستان‘ پیکیج کا اعلان کیا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا جس کی تعریف دنیا بھر میں کی جاتی ہے۔
آج پیپلزپارٹی کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں میں ہے، انھوں نے اپنے شہید نانا اور والدین کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے جمہوریت، انسانی حقوق اور عوام کی فلاح کے لیے جدوجہد جاری رکھی ہے اور ملکی مسائل کے حل کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ سندھ میں عوام کی خوشحالی اور فلاح کے لیے جاری سیکڑوں منصوبے بلاول بھٹو زرداری کے ویژن کا نتیجہ ہیں۔
دل کے مفت علاج کا دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک این آئی سی وی ڈی، سائبر نائف کے ذریعے کینسر کے مفت علاج کی فراہمی، گمبٹ میں جگر کی مفت پیوند کاری، ٹراما سینٹر اور ایس آئی یو ٹی سمیت اسپتالوں میں مفت علاج اور سیلاب متاثرین کے لیے 21 لاکھ مفت گھروں کی تعمیر ان وعدوں کی تکمیل ہے جو بلاول بھٹو زرداری کے نانا اور والدہ نے عوام سے کیے تھے۔ غریب گھرانوں کو مفت سولر سسٹم کی فراہمی، بے نظیر مزدور کارڈ، بے نظیر کسان کارڈ اور ایسے درجنوں پروگراموں کے ذریعے بھی بلاول بھٹو زرداری اور ان کی پارٹی عوامی خوشحالی اور خدمت کے جذبے کے عکاس ہیں۔
غرض یہ کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی تاریخ قربانیوں، جدوجہد اور عوامی خدمت کی داستانِ مسلسل ہے۔ پیپلز پارٹی نے زبانی دعوؤں سے نہیں بلکہ ہمیشہ عمل سے ثابت کیا ہے کہ اس کا مقصد صرف اور صرف عوام کی بہبود اور جمہوریت اور آئین کا تحفظ ہے۔
چاہے ذوالفقار علی بھٹو ہوں، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، یا بلاول بھٹو زرداری، پیپلزپارٹی کے ہر رہنما نے پاکستان کی فلاح اور عوام کے حقوق کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس عوام، آئین اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو یاد کرنے، قیادت کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان سے عہدِ وفا دہرانے کا دن ہے۔