حالات و واقعات، بیانات، مطالبات، تحفظات،حلیہ جات، جلوسات، دھرناجات اور حشرات نشرات میں آج کل ایک ہی بات گونج رہی ہے کہ اس مملکت جس کا نام خداداد اور تخلص ناپرسان ہے،نیا سویرا طلوع ہوچکا ہے اور وہ دیدہ ورجس کے لیے نرگس، سنیل دت اور راج کپور کے ساتھ ہزاروں سال سے رورہی تھی پیدا ہوچکا ہے اور کرکٹ کے میدان میں وایا اسپتال ایرائیول دے چکا ہے۔
اس لیے مناسب ہے کہ وہ سارے توپ طمانچے ہٹ جائیں جو ناجائز طور پر اور غیرمستحق ہوکر کرسی کرسی کھیل رہے تھے یا کھیل رہے ہیں یا کھیل چکے ہیں کہ اس ملک کا اصلی مالک پیدا ہوبھی چکا ہے اور ایک مخصوص راستے سے آبھی چکا ہے
میں نظر کوروک بھی لوں میں خیال کا کروں کیا
مرے دل میں آچکا ہے کوئی راستہ بدل کے
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ہوائی رتھ پر آسمان سے اتر کر نزول اجلال فرماتا۔یا وہ ایک زرین تخت پر بیٹھا ہوتا جسے چار کروبیاں کاندھوں پر رکھے ہوئے ہوتے اور وہ کسی ماورائی ساز کی دھن پر بمقام اسلام آباد لینڈ کرتا ، ساتھ ہاتف غیبی کی آواز بھی گونجتی کہ
تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا
لیکن یہ اس کی خاکساری تھی کہ بالکل سادہ طریقے پر پہلے کرکٹ کے گراؤنڈ میں اترا۔پھر وہاں سے ایک اسپتال میں قدم رنجہ فرمایا جہاں مریضوں کی عیادت کی اور ایک دنیا جہاں کے دل جیت لیے۔ان دعاؤں کو ساتھ لے کر اس نے ملک کے اس گراؤنڈ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے شرف یاب کیا۔
جہاں ملک کا سب سے بڑا یادگاری مینار تھا اور اس مینار کے سائے میں اس نے اعلان کیا کہ یہ ادھر ادھر کے ناجائز قابضین میری اس موروثی جائیداد سے ہٹ جائیں کہ لوح ازل میں یہ مملکت میرے نام ہوچکی ہے، اب میں جانوں اور اس ملک میں انصاف کا ترازو۔اس پر ہر طرف سے اہلاً و سہلاً زندہ باد، پایندہ باد کے نعرے بلند ہوئے اور تمام پٹواریوں نے فرد بدل کر اعلان کیا کہ
سیردم بتومائی خویش را
تو دانی حساب کم وبیش را
دراصل دنیا میں جب کبھی بے انصافی پھیل جاتی ہے تو حضرت کوئی نہ کوئی اوتار لے کر آتے ہیں اور انصاف کا بول بالا کرتے ہیں ناجائز قابضوں کو بھگا دیتے ہیں۔پہلا اوتار اس نے نوشیروان عادل کی روپ میں لیاتھا اور انصاف کو اتنا عام کردیاتھا کہ گلی کوچوں میں بہنے لگاتھا۔
کہتے ہیں کہ شہنشاہ جہانگیر نے جو زنجیر عدل لگوائی تھی نورجہان نے خفیہ طور پر کچھ پہرداروں کی ڈیوٹی لگائی کہ اگر کوئی زنجیر کھینچنے اور گھنٹی بجانے کے لیے آئے تو اسے پکڑ کر گمشدہ کردو۔یوں جب کسی نے بھی زنجیر نہیں کھینچی اور گھنٹا نہیں بجایا تو عدل جہانگیری نے اعلان کیا کہ ملک میں انصاف ہی انصاف کا دور دورہ ہوگیا۔اور اب شاید پاکستانیوں کی سن لی گئی کہ اس نے نیا جنم لے کر کرکٹ کے میدان سے وایا اسپتال نزول اجلال فرمادیا۔لیکن دوسری طرف طاغوتی قوتیں بھی سرگرم پیرگرم اور منہ گرم ہیں کبھی امپورٹڈ حکومت لاتی ہیں کبھی ایکسپورٹڈ۔کبھی سلیکٹڈ۔اور کبھی جعلی مینڈیٹ والی۔
لیکن یہ غاصب قبضہ گیر نہیں جانتے کہ اب تو اینٹ روڑے پتھر پیڑ پودے اور دیواریں بھی اس کے ساتھ ہیں۔کوئی کچھ بھی کرے انصاف کا بول بالا ہوکر رہے گا۔ہر طرف حقدار کو اس کا حق مل کر رہے گا۔ہر طرف شورشیں برپا ہیں نعرے بلند ہورہے ہیں ڈھول نقارے بج رہے کہ آئے گا آنے والا۔ویسے جب سے موصوف نے اس ملک میں قدم رنجہ فرمایا ہے، تب سے ملک میں انصاف قائم کرنے والے ادارے صرف ایک ہی کام کر رہے ہیں انصاف،انصاف،انصاف
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟