زباں فہمی 230 ، جغرافی، ماحولی اور موسمی وغیرہ کے بارے میں

زباں فہمی 230 ، جغرافی، ماحولی اور موسمی وغیرہ کے بارے میں۔ تحریر سہیل احمد صدیقی۔ فوٹو : ایکسپریس


سہیل احمد صدیقی November 26, 2024
زباں فہمی 230 ، جغرافی، ماحولی اور موسمی وغیرہ کے بارے میں۔ تحریر سہیل احمد صدیقی۔ فوٹو : ایکسپریس

ہمارے نِیم خواندہ (یا بقول کَسے ناخواندہ) معاشرے کا المیہ یہ نہیں کہ شرحِ خواندگی کم ہے ، بلکہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ، سند یافتہ اور ہر شعبے میں کسی نہ کسی اچھے منصب پر فائز اَفراد شعور وآگہی سے عاری اور اپنی کم علمی ولاعلمی پر نازاں دِکھائی دیتے ہیں۔

ہمارے بزرگ ادیب جناب اشفاق احمد مرحوم کے ڈراموں میں اَن پڑھ لوگوں سے کچھ سیکھنے کی ترغیب بہت سوں کو بہت کھَلتی تھی اور آج بھی ایسے لوگ ملیں گے جو یہ کہتے نظر آئیں گے کہ جاہلوں سے کیا سیکھا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کا مفہوم بہت محدود کردیا گیا ہے اور خاکسار اپنی تحریروتقریر میں متعدد بار دُہرائی ہوئی، اپنی یہ بات پھر دُہرانے پر مجبور ہے کہ علم اُٹھ گیا، تعلیم عام ہوگئی۔ ذاتی تجربہ ہے کہ بہت کم ایسا ہوا اور ہوتا ہے کہ کسی اَن پڑھ یا کم خواندہ کو کوئی بھی بات سمجھانے میں دِقّت ہو۔ صرف ایک چھوٹی سی مثال عوامی مقامات بشمول سواریوں میں سگریٹ نوشی کی ہے۔

خواہ ایک جمّ غفیر کسی مقام پر اِکٹھا ہو، گاڑی کھچاکھچ بھری ہوئی ہو، دفتر میں لوگ کام کررہے ہوں، ہر جگہ ایسے جُہلاء موجود نظر آتے ہیں جو اپنی اور دوسروں کی زندگی دائو پر لگا کر خوب کَش لگاتے ہیں۔ ایک سے زائد بار ایسا ہوا کہ اَن پڑھ یا کم پڑھے لکھے نے تو ہماری درخواست سُنتے ہی سگریٹ بجھا دی، مگر پڑھے لکھے بحث کرنے لگے کہ اتنے پیسے خرچ کرکے سگریٹ خریدی ہے، کیوں بُجھائوں؟ بعضے تو کہتے ہیں کہ آپ کو زیادہ تکلیف ہے تو یہاں سے چلے جائیں یا گاڑی سے اُترجائیں۔ کسی نے صحیح کہاتھا کہ تعلیم یافتہ کج بحثی کے معاملے میں  زیادہ جاہل ہوتا ہے۔

آپ کو بھی اپنی زندگی میں ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہوگا جو کوئی اعلیٰ سند حاصل کرنے کے کچھ ہی دن کے بعد، اپنی تعلیم کے مخصوص موضوع ہی کے متعلق اظہارِخیال کے قابل نہ ہوں، ایسے استاد ملے ہوں گے جن کی اپنی زبان اور معلومات انتہائی ناقص ہوں گی، ایسے ڈاکٹر (ایلوپیتھک) ملے ہوں گے جنھیں انجیکشن لگانا نہیں آتا ہوگا علیٰ ہٰذا القِیاس۔ ہمارے یہاں ہر شعبے میں زوال، پستی، انحطاط اور تنزل نمایاں نظر آتا ہے۔ شعبہ ادب میں بھی ایسے لوگ خال خال ہیں جن کی زبان سند مانی جائے، شعبہ صحافت بشمول ٹیلیوژن صحافت [TV journalism] میں تو بہت ہی بُرا حال ہے۔

ہمارے یہاں لوگ چالیس چالیس سال قلم گھِسنے کے باوجود، اردو قواعد کے لحاظ سے صحیح جملہ لکھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اس فضاء میں بندہ کوشش کرسکتا ہے اور دعا کہ اے کاش! ہمارے یہاں بہتری اور ترقی کی راہ جلد کھُل جائے۔ سلسلہ زباں فہمی کے آغاز [2015] سے ایسے لوگ ملتے رہے ہیں جو کہتے کہ آپ بلاوجہ محنت کررہے ہیں، جو جیسا چل رہا ہے، چلنے دیں اور آج کل کون ایسی چیزیں پڑھتا ہے ..........ایسی حوصلہ شکن گفتگو کا مجھ پر تو کوئی اثر نہیں ہوتا، مگر اس سے متکلم کی اپنی لیاقت، قابلیت اور دیکھا جائے تو بحیثیت مجموعی پوری شخصیت کا بھرم کھُل جاتا ہے۔

نوبت بہ ایں جا رَسید (یعنی نوبت یہاں تک جاپہنچی) کہ BBC جیسے معتبر خبر رَساں اِدارے کی ویب سائٹ پر موجود ایک مضمون میں جابجا موسمی کی بجائے موسمیاتی اور ماحولی کی بجائے ماحولیاتی در ج کیاگیا۔ ایک اقتباس اُنہی کی ویب سائٹ پر موجود مضمون سے ملاحظہ فرمائیں:

’’جب سائبیریا جیسی جگہوں پر منجمد زمین پگھلتی ہے، وہاں میتھین جو ایک گرین ہاؤس گیس ہے فضا میں خارج ہوتی ہے، جس سے موسمیاتی تبدیلی کی صورتحال مزید خراب ہوتی ہے‘‘۔ اس جملے کی بناوٹ بھی یہ پتا دینے کو کافی ہے کہ لکھنے والے کی اپنی زباں دانی مشکوک ہے۔ اب صحیح جملہ یوں ہوگا: جب سائبیریا جیسے برف زار میں منجمد برف پگھلتی ہے تو گرین ہائوس گیس کے اخراج سے موسمی تبدیلی کا عمل مزید متأثر ہوتا ہے۔

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پچھلا کالم دُہرانا ناگزیر ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

زباں فہمی نمبر 24

’ماحولی‘  یا  ’ ماحولیاتی‘

انگریزی سے اُردو ترجمہ کرتے ہوئے الفاظ، اصطلاحات اور تراکیب کی ہئیت کیا ہونی چاہیے اور کیا نہیں، اس بابت بنیادی شرط یہ ہے کہ مترجم کو دونوں زبانوں پر یکساں عبور ہو۔ قدیم دور کی بات کی جائے تو اِنگریز سرکار کی ایماء پر جو سلسلہ شروع ہوا تو اُس وقت مقامی ماہرین ِ لسانیات کے ساتھ فرنگی ماہرین بھی کہیں نہ کہیں مدد کے لیے موجود ہوا کرتے تھے۔ اُس دور میں اُردو زبان کی عمومی فضاء پر حاوی عربی وفارسی کی علمیت دَم توڑرہی تھی، مگر اَبھی ایسے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی جو بڑے سے بڑے مضمون پر فی البدیہ تحریروتقریر کے ماہر تھے۔

ہمیں سرِدست دِلّی کالج اور جامعہ عثمانیہ کی مثالیں یاد آتی ہیں، جہاں تراجم کا کام کسی مِشن کی طرح انجام دیا گیا تھا۔ ہرچند انجمن ترقی اردو کے وابستگان کا اِس ضمن میں بڑا حصہ ہے، مگر پھر یہ معاملہ سائنسی ادب کی خدمت کرنے والے معدودے چند رسائل تک محدود ہوکر رہ گیا اور نابلد عوام ہی نہیں بعض اُردو اہل ِ قلم نے بھی یہ گُمان کیا اور اِس گُمان کا خوب پرچار کیا کہ صاحب! اردو تو بہت چھوٹی زبان ہے اور نسبتاً نئی ہے، اس کے دامن میں یہ گنجائش کہاں کہ وضعِ اصطلاحات کا وَقیع کارنامہ انجام دے اور یہ نیا ذخیرہ اپنے آپ میں سمولے۔ جب ہمارے اُدَباء کا یہ حال ہو تو طُلَبہ سے کوئی امید کیا لگانا۔ راقم نے اس سے قبل اپنی بعض تحریروں میں، خصوصاً روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والے مضامین میں اردو کے متعلق ایسی کئی، بے پَر کی، بے کار باتوں کا تکنیکی اور مُسَکّت جواب دیا ہے، مگر معترض لوگ صرف وہی بات یاد رکھتے ہیں جو اُن کے مطلب کی ہو۔

گزشتہ دنوں بھی اس طرح کے الفاظ مسلسل بصارت وسماعت دونوں پر گراں گزرے: ماحولیاتی، موسمیاتی، جغرافیائی .....یہ الفاظ نہ صرف ٹیلیوژن اور اَخبارات وجرائد (بشمول ادبی رسائل) میں اسی طرح لکھے اور بولے جارہے ہیں، بلکہ ہمارے ادیب وشاعر بھی انھیں درست سمجھ بیٹھے ہیں، حتیٰ کہ اب تو لغات میں بھی اسی طرح درج کرنا رَوا ہوچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ بَربِنائے ضرورت، وضع کیے گئے تھے، مگر اپنی اصل شکل کھوبیٹھے۔ ماحول جب انگریزی متبادل اِنوائرنمنٹ (Environment) کی جگہ استعمال ہوتا ہے تو اُس سے متعلق مضمون یا علم کو علم ماحولیات (Environmental science)کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح یوں وضع کی گئی: ماحول، یات ۔ یہ ماحولی یات نہیں، جیسا کہ اِن دِنوں بولا جارہا ہے۔ اب جو اِسم یا لفظ ماحول سے متعلق ہوگا، اُسے ماحولی (Environmental) کہا جائے گا نہ کہ ماحولیاتی، کیوں کہ اس کا تعلق بنیادی لفظ ماحول سے ہے۔ اسی طرح موسم سے متعلق مضمون یا عِلم یا محکمہ موسمیات کہلائے گا۔

کُلّیہ وہی رہے گا ;موسم، یات، مگر موسم کے متعلق یا اِس لفظ سے مُشتق الفاظ موسمی کہلائیں گے نہ کہ موسمیاتی۔ مثال کے طور پر موسمی تغیّر ۔یا۔تغیّرات یعنی موسم میں ہونے والی تبدیلی۔یا۔تبدیلیاں۔ آخری مثال نسبتاً یوں مختلف ہے کہ جغرافیہ کوئی عربی الاصل لفظ نہیں، بلکہ Geographyکا مُعرّب ہے، اس لیے اس علم سے متعلق اسم یا اصطلاح ہوگی : جغرافی ...نہ کہ جغرافیائی جو غلط رائج ہے۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل ایک تقریب میں راقم بطور صدرِمحفل مدعو تھا تو وہاں ایک بزرگ نے اپنا سائنسی کلام پیش کرتے ہوئے برملا اِس اَمر کی نشان دہی فرمائی تھی کہ کیمیاء سے بنا ہے کیمیاوی نہ کہ کیمیائی جو بالکل غلط رائج ہے۔ اس فہرست میں ایک اضافہ بھی کرتا چلوں، Physics کا ترجمہ ہے طبیعیات اور Physical کا ترجمہ ہے طبیعی (نہ کہ طبعی)۔ اب استعمال کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

شعر:  اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات

  ہنس کر گُزار  یا اُسے  روکر گزار دے

نثر:  فُلاں شخص کی موت طبیعی (نہ کہ طبعی) تھی۔

گزشتہ روز ایک ادبی تقریب کے اختتام پر ہمارے بزرگ شاعرو اَدیب پروفیسرسحر انصاری کسی سے محوِگفتگو تھے، موضوع تھا: حلیم یا دَلِیم۔ انھوں نے کم وبیش وہی نِکات دُہرائے جو اِس خاکسار نے اسی عنوان کے تحت گزشتہ دنوں ’زباں فہمی‘ کے تحت کالم میں تحریر کیے تھے۔ جب انھیں برسبیل ِ تذکرہ یاد دلایا تو معلوم ہوا کہ یہ تو فُلاں صاحب بتارہے تھے۔ (بزرگ موصوف قدرے حیران ہوکر مسکراتے ہوئے کہنے لگے: ’’اچھا، بھئی، بہت خوب‘‘)۔ چلیے بقول کسے 

 ع   مجھ سے بہتر ہے مِرا ذکر تِری محفل میں

(مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، ادبی صفحہ ’ادب نگری‘ مؤرخہ4دسمبر 2015ء)

قدیم اُردو اور فارسی لغات میں ماحولیات کی اصطلاح نہیں ملے گی کیونکہ یہ بربِنائے ضرورت، جدید دور میں Environmental scienceیا Ecology  کے مترادف یا متبادل کے طور پر وضع کی گئی ہے۔ اردو لغت بورڈ کی مرتب وشایع کردہ عظیم وضخیم لغات (اردو لغت: تاریخی اصول پر) میں اس کا اندراج نہیں، کم از کم آنلائن تلاش میں نہیں ملا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اِن دو بظاہر مماثل یا مترادف اصطلاحات  میں کیا فرق ہے تو آپ مندرجہ ذیل ربط پر موجود آنلائن مواد ملاحظہ فرماسکتے ہیں:

https://byjus.com/biology/difference-between

-environment-and-ecology/

آج کل اکثر لوگ کسی بھی معاملے میں فوری حوالے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں اور لغات (اردو) میں سب سے زیادہ ریختہ ڈکشنری دیکھتے ہیں۔ بندہ بھی بہ امرِمجبوری ایسا کرتا ہے، مگر محض انہی مآخذ پر اِکتفا کرتا ہے نہ انھیں مستند سمجھتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ آنلائن دستیاب تمام معلومات غلط بھی نہیں ہوتیں، مگر صحت ِ بیان کا التزام ہر جگہ نہیں کیا جاتا۔ اب  ریختہ ڈکشنری میں مندرجات کا معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی لفظ یا اصطلاح یا ترکیب یا مُحاورے، حتیٰ کہ کہاوت کے معانی میں صحیح غلط کا تعیّن کیے بغیر ہی بس نقل اور چسپاں کرنے کا رجحان ہے۔ ماحولیات کے باب میں یوں لکھا ہوا دیکھا ہے:

’’ماحَولِیات

اصل:  عربی

اشتقاق:  حَوَلَ

ماحَولِیات کے اردو معانی: اسم، مؤنث‘‘

اس بیان میں بنیادی خرابی یہی ہے کہ عربی میں ماحَولِیات موجود نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ لفظ ماحول یات ہے نہ کہ ماحولی یات۔ آگے چلتے ہیں۔ ریختہ والوں نے ماحولیات کی تعریف یوں بیان کی ہے:’’علم ماحَولِیات، حیاتیات کی ایک شاخ جس میں جانداروں کا ایک دوسرے اور ماحول کے مابین تفاعل کا مطالعہ کیا جاتا ہے، حیاتیات کی ایک شاخ جس میں اجسام نامی اور ان کے ذی روح اور غیرذی روح مجموعی ماحول کے مابین روابط کا مطالعہ کیا جاتا ہے، ماحولی زمین کے آس پاس کی ہوا، روئے زمین کا بقائے انواع کے نقطہ نظر سے مطالعہ‘‘

اس تعریف کے بعد ریختہ ڈکشنری میں انگریزی مفہوم اس طرح درج کیا گیا ہے:

Environment, Ecology; Study of the relationships between people, social groups, and their environment

یہاں مرتبین نے تساہل سے کام لیا اور دونوں انگریزی اصطلاحات کا فرق دیکھے بغیر ایک ہی معنیٰ لکھ دیا۔ مجبوراً یہاں انگریزی عبارت نقل کرتا ہوں:

Environment refers to the interaction between the physical, chemical and biological components. Ecology is the study of the relationship between organisms and their environment. The environmental issues include pollution, deforestation, global warming, and other broader issues.

ماحول کی آلودگی ہر لحاظ سے اہم موضوع ہے جس کی بابت شعور اور آگہی کا فقدان بھی مسائل میں اضافہ کررہا ہے۔ آزاد دائرۃ المعارف عُرف وِکی پیڈیا کے الفاظ میں ’’آلودگی سے مراد قدرتی ماحول میں ایسے اجزاء شامل کرنا ہے جس کی وجہ سے ماحول میں منفی اور ناخوشگوار تبدیلیاں واقع ہوں۔ آلودگی کی بنیادی وجہ انسانی مداخلت ہوتی ہے۔ آلودگی عام طور پر صنعتی کیمیائی مادوں کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن یہ توانائی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے شور، حرارت یا روشنی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ آلودگی کی اقسام میں صوتی آلودگی، آبی آلودگی، فضائی آلودگی، برقی آلودگی، غذائی آلودگی، زمینی آلودگی اور بحری آلودگی اہم ہیں۔ یہ بہت جان لیوا ہے‘‘۔

اس تعریف کے بعد عرض کروں کہ ’ماحولیاتی آلودگی‘ صحیح نہیں، بلکہ ’ماحولی آلودگی‘ صحیح ہے ، کیونکہ ماحول میں آلودگی ہوتی ہے نہ کہ پورے مضمون، شعبے، محکمے یا وزارت ماحولیات میں۔ یہ باریک نُکتہ راقم کی بارہا کاوشوں کے باوجود، کسی حکومتی بقراط کی سمجھ میں آیا نہ کسی خبررساں ٹیلیوژن چینل والوں کی۔

ماحولی آلودگی میں اِن دنوں سب سے اہم اور پریشان کُن مسئلہ اسماگ یا اسموگ کا ہے جس کے اردو نام پر ابھی اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ یہ اصطلاح بھی قدرے جدید ہے۔ انگریزی لغات اور آنلائن انسائیکلو پیڈیاز بشمول وِکی پیڈیا کی طے کردہ تعریف کے مطابق یہ دُھند کی وہ قسم ہے جس میں دھواں بھی شامل ہے۔

Smog, or smoke fog, is a type of intense air pollution. The word "smog" was coined in the early 20th century, and is a portmanteau of the words smoke and fog to refer to smoky fog due to its opacity, and odor.

مفہوم: اسماگ یا اسموک فوگ شدید قسم کی فضائی آلودگی ہے۔ لفظ اسماگ بیسویں صدی کے اوائل میں وضع کیا گیا اور یہ لفظ دو الفاظ  smoke اورfog  کو ملا کر’دُھواں دار دُھند‘ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کا سبب دھندلاہٹ (دھندلاپَن) اور بدبو ہے۔ جب تک کسی ایک لفظ پر اِتفاق نہ ہو ہم Smog کے لیے ’دُھواں دار دُھند‘ ۔یا۔ ’غلیظ دُھند‘ استعمال کرسکتے ہیں۔

یہاں ایک دل چسپ انکشاف کرتا چلوں۔ فارسی میں وضع ِ اصطلاحات کا کام اردو کی نسبت بہت سرعت اور سوجھ بوجھ سے کیا جاتا ہے۔ فارسی لغات میںSmog کا لغوی مطلب ’ہوائے آلودہ بہ دُود وبُخار‘ بیان کرنے کے بعد، اس کے مترادف ’دُودمَہ ‘، ’مہ ِ غلیظ ‘اور ’مہ و دُود‘درج کیے گئے ہیں۔

جغرافیہ یا جغرافیا کی بابت ماقبل بات ہوئی۔ اب استعمال بھی دیکھ لیں:

ا)۔ اُس جگہ کا جغرافی محلّ وقوع بہت اچھا ہے۔

ب)۔ پاکستان کا جغرافی نقشہ کئی اعتبار سے منفرد ہے۔

لفظ موسم سے ’’موسم۔یات‘‘ اور موسم  ہی سے موسمی بنتا ہے، اسے بھی یاد رکھنا ضروری ہے۔ موسم کی تبدیلی کو موسمی تبدیلی کہنا چاہیے نہ کہ موسمیاتی تبدیلی، کیونکہ یہ پورے محکمہ، شعبہ، مضمون یا علمِ موسمیات میں واقع ہونے والی تبدیلی نہیں!

اب ملاحظہ فرمائیں کہ ہمارے سرکاری ادارے اردولغت بورڈ کی شایع کردہ اردولغت (تاریخی اصول پر) میں کس طرح ’بقراطوں‘ نے اندراجات کیے ہیں:

مَوسَِمِیات

موسم اور آب و ہوا کا علم (Meteorology)۔

 مَوسَِمِیات

موسم اور آب و ہوا کا علم (Meteorology)۔

 مَوسَِمِیات داں

ماہرموسمیات، موسم اور آب و ہوا کی کیفیات جاننے والا۔

 مَوسَِمِیاتی

موسمیات (رک) سے منسوب یا متعلق، موسمی۔

 مَوسَِمِیاتی

موسمیات کے شعبے کا فرد؛ ماہر موسمیات، موسمیات داں۔

 یوں لگتا ہے کہ حرف ’م‘ تک آتے آتے وہی دور آگیا ہوگا جب ’غیر اہل ِ زبان ‘ اور لسانیات سے بے بہرہ افرا د کی بھرتی ہوئی اور دَرونِ خانہ اس بابت احتجاج بھی لاحاصل رہا۔ اس بارے میں ماقبل بھی اظہارِ خیال کرچکا ہوں۔ اگر سہل پسندی کی روایت ترک کردی جائے تو ہر مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور ہر بات سیکھی جاسکتی ہے۔ ورنہ بقول غالبؔ:

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو  بھی میّسر نہیں  انساں ہونا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں