بچے اور جبری مشقت

عام رَوِش یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ہر چوتھے گھر میں کوئی نہ کوئی بچہ ملازم رکھا جاتا ہے


شکیل فاروقی November 26, 2024
[email protected]

26 جنوری 2023 کو لاہور میں 13 سالہ گھریلو ملازمہ مریم کو اس کے مالکان نے بری طرح مارا پیٹا اور جلایا۔ بچی بُری طرح زخمی ہوگئی۔ یہ واقعہ کوئی پہلا نہیں بلکہ اِس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور میڈیا میں واویلا ہونے کے بعد فراموش کردیے جاتے ہیں۔

عام رَوِش یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ہر چوتھے گھر میں کوئی نہ کوئی بچہ ملازم رکھا جاتا ہے۔ اِس میں زیادہ تر تعداد 10 سے 14 سال کے درمیان بچوں کی ہوتی ہے جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے اندازے کے مطابق وطن عزیز میں گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرنے والے بچوں کی تعداد 264,000 کے لگ بھگ ہے۔

گزشتہ 10 سال کے دوران میڈیا میں رپورٹ ہونے والے بدقسمت بچوں کے ساتھ زیادتی کے 140 سے زیادہ واقعات منظر عام پر آچُکے ہیں۔ رپورٹ کیے جانے والے 79 فیصد واقعات کا تعلق پنجاب سے ہے جب کہ سندھ میں 14 فیصد، اسلام آباد میں 6 فیصد اور خیبر پختونخوا میں ان کی شرح 1 فیصد ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اِس قسم کے کریہہ واقعات اس ملک میں مسلسل ہو رہے ہیں۔ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے ان واقعات کی اصل تعداد میڈیا میں رپورٹ نہ ہونے والے واقعات سے بہت کم ہے۔ اس قسم کے واقعات کا چرچا محض وقتی ہوتا ہے اور پھر معاملہ دب جاتا ہے اور بات آئی گئی ہوجاتی ہے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ قوانین کی موجودگی کے باوجود اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ قوانین کا نافذ نہ ہونا ہے۔

پاکستان نے 2001 میں آئی ایل او کے قانون کی شق نمبر C-182 کی توثیق کی جس کا تقاضہ ہے کہ آئی ایل او کے فیصلوں پر عمل درآمد انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان ان فیصلوں کی ہرگز رو گردانی نہیں کرسکتا، اگرچہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 11 غلامی اور جبری مشقت سے منع کرتی ہے، تاہم اس کے باوجود بچوں سے گھریلو مشقت کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کے آئین کا تقاضہ تو یہ بھی ہے کہ 16 سال کی عمر تک کے بچوں کے لیے تعلیم مفت اور لازمی ہو لیکن بھلا اِس کی کون پرواہ کرتا ہے۔

 ہمارے معاشرے میں بچوں سے مشقت لینا عام سی بات ہے۔ بچے کہیں بازاروں اور مارکیٹوں میں چائے سپلائی کر رہے ہوتے ہیں اور کہیں ورکشاپوں میں کام کر رہے ہوتے ہیں جہاں انھیں ’’چھوٹے‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور ان کا طرح طرح سے استحصال کیا جاتا ہے۔

ان بیچاروں کا نہ کوئی حال ہوتا ہے اور نہ کوئی مستقبل۔ یہ صبح سے لے کر رات گئے تک اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں۔ بے تحاشہ محنت اور مشقت کے باوجود پیٹ بھر روٹی نہ ملنے کی وجہ سے ان کی صحت خراب سے خراب تر ہوتی جاتی ہے۔ علاج معالجہ کی سہولت نہ ہونے کے سبب ان کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق وطن عزیز میں تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچے جبری مشقت کا شکار ہیں۔ ان بچوں کی غالب اکثریت زراعت سے تعلق رکھتی ہے۔ ان سے سخت مشقت کے کام لیے جاتے ہیں اور انھیں پیٹ بھر کر کھانا بھی میسر نہیں ہوتا۔ نامساعد حالات میں کام کرنے کے باوجود انھیں خواہ مخواہ کی ڈانٹ پھٹکار الگ سننی پڑتی ہے۔

 ان بیچاروں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ان کا تعلق غریب گھرانہ سے ہے۔ اس کے علاوہ یہ بچے کان کُنی میں بھی کام کرتے ہیں جہاں ان کی صحت اور زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن محکمہ لیبرکو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائے یا کارروائی کرے جس کی وجہ مالکان کا اثر و رسوخ ہے۔

 ان بچوں کی بھاری اکثریت مال اسباب ڈھونے کے کاموں میں بھی خدمات انجام دیتی ہے۔ ہر صوبے میں لیبرکا محکمہ موجود ہے لیکن ان بچوں پر ترس کھانے والا کوئی نہیں ہے۔

جرائم پیشہ افراد ان معصوم بچوں کو اپنا آلہ کار بناتے ہیں۔ بچوں سے بھیک منگوانا توکوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن ہمارے معاشرے کی اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ معصوم بچوں کو جنسی مشقت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سلسلے میں انتہائی بے حسی اور غفلت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ بچے ہماری قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہیں،کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں