پاکستان پر قرضوں کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ملک پر قرضے اور واجبات ریکارڈ پچاسی ہزار آٹھ سو چھتیس ارب روپے پر پہنچ گئے ہیں۔ ایک سال میں قرضوں اور واجبات میں سات ہزار چار سو سترہ ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ملک پر قرضے اور واجبات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق ستمبر 2024 تک ملک پر مجموعی قرضے پچاسی ہزار آٹھ سو چھتیس ارب روپے پر پہنچ گئے۔ ستمبر 2024 تک ملک پر مقامی قرضہ سینتالیس ہزار پانچ سو چھتیس ارب روپے اور غیر ملکی قرضہ 33 ہزار 722 ارب روپے تھا۔ بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے سال 2025 میں پاکستان کے سود کے اخراجات بجٹ کے تقریباً 40فیصد تک پہنچ جانے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔
آسان الفاظ میں پاکستان کا 40 فیصد بجٹ سود ہی کھا جائے گا تو پھر پاکستانی عوام کے لیے بچے گا کیا؟ دفاع کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے ؟ تعلیم ، صحت پر اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے۔ ترقیاتی بجٹ کا کیا بنے گا، حکومتی مشینری کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے۔ حکمران طبقات ماضی میں قرضے لے چکے ہیں ان کو اُتارنا تو درکنار صرف ان کا سود ہی ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جا رہے ہیں۔ ہم ڈیٹ ٹریپ میں پھنس چکے ہیں۔
قرضوں کا تباہ کن جال جس نے پاکستانی عوام کا سانس لینا اور جینا حرام کر دیا ہے۔ اب تو نئے قرضے ملنے بھی انتہائی مشکل ہو چکے ہیں سوائے چند برادر اسلامی ملک اور چین کے۔ انتہائی کوشش سے وہ بھی صرف اتنے مل رہے ہیں جو وقتی طور پر ہمیں سانس لینے کے قابل بنا سکیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے ہیں لیکن اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں۔ یہ امریکا سمیت عالمی طاقتیں ہی ہیں جو اس وقت ہمارا ڈیفالٹ ہونا اپنے مفادات کے لیے افورڈ نہیں کر سکتی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں قرض لے کر ادا کی جا رہی ہیں۔
موڈیز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے اپنے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے جو 7 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا ہے اس نئے قرض کی شرائط کو پورا کرنا آسان نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ موڈیز نے خطرناک بات یہ بتائی کہ پاکستان غذائی قلت کے خطرات سے دوچار ہے جو اسے خطے میں سب سے زیادہ خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔ اس کے آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں کہ پاکستان کو اگلے سال کے وسط میں گندم کے پیداواری رقبہ میں کمی کی شکل میں گندم کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مزید یہ کہ پاکستان اس سال ہی کپاس کی قلت کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دو ارب ڈالر کی بیلز امریکا سے درآمد کرے گا۔
اوپر سے سونے پر سہاگہ حکومت کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں رہا اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے کہ وہ پچھلے چند مہینوں سے مسلسل رائٹ سائزنگ کر رہی ہے۔ چند دن پہلے کی خبر یہ ہے کہ وزارت صنعت و پیداوار نے اپنی 29 میٹنگ میں 16 اداروں کو ممکنہ بندش یا نجکاری کے لیے شناخت کر لیا ہے کہ جو نجکاری کی جامع حکمت عملی کا حصہ ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ 6 ماہ میں اہداف حاصل نہ کرنیو الے ادارے بند ہوں گے۔
جس میں یو ٹیلٹی اسٹور آرگنائزیشن ، نیشنل فرٹیلائزر کمپنی ، آٹو موبائل کارپوریشن وغیرہ اہم ادارے شامل ہیں۔ اس امر کا انکشاف وزیر صنعت اور ایڈیشنل سیکریٹری نے سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ ایڈیشنل سیکریٹری نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان اداروں کی بندش کے سنگین نتائج ہوں گے۔ اس کے علاوہ توانائی کے شعبے میں ہمارا گردشی قرضہ 2 ہزار 393 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ ایک ایسا معاشی بھنور ہے جس کی گہرائی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور رواں مالی سال میں اس میں مزید 36 ارب روپے اضافے کا خدشہ ہے۔
نجکاری کی وجہ سے بے روزگاری کا ایک سیلاب ہے جس میں پاکستانی عوام ڈوبتے جا رہے ہیں۔ صرف سرکاری سیکٹر سے ہی ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہونے جا رہے ہیں۔ مہنگی بجلی کی وجہ سے صرف فیصل آباد میں ٹیکسٹائل سیکٹر سے وابستہ 40 فیصد لیبر جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، بے روزگار ہو چکے ہیں، ابھی اس گنتی میں لاہور، کراچی، گوجرانوالہ ، گجرات وغیرہ شامل نہیں ہیں۔
علاوہ ازیں پنجاب میں 14 ہزار پرائمری اسکولوں کی نجکاری ہونے جا رہی ہے اور اگلے چند مہینوں میں مڈل اور ہائی اسکولوں کی بھی نجکاری ہونے والی ہے اور اس کے بعد سرکاری کالجوں کی باری ہے۔
ان لاکھوں افراد کی اچانک بے روزگاری سے ان لوگوں کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ سب سے پہلے دو وقت کی روٹی کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا ۔ بچوں کو اسکولوں، کالجوں اور درسگاہوں سے اُٹھانا پڑے گا کیونکہ ادا کرنے کے لیے والدین کے پاس فیس ہی نہیں ہو گی، بجلی گیس وغیرہ کے بل کہاں سے ادا ہوں گے، بچیوں کی شادیاں ناممکن ہو جائیں گی، لاکھوں گھروں کے چولھے ٹھنڈے ہونے سے صرف گھریلو نظام ہی نہیں پورے معاشرے کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا جب قوت خرید ہی نہیں ہو گی تو چاہے کتنی ہی سستائی ہو جائے کیا فرق پڑتا ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔