دہشت گردی ایک قومی مسئلہ ہے مگر ہماری سیاسی،انتظامی اور ریاستی حکمت عملی میں تضادات اور اندرونی سہولت کاری کی وجہ سے پاکستان اس سے نمٹ نہیں پا رہا ہے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے کئی معاملات میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں یا ہماری حکمت عملیوں میں ابہام کا پہلو غالب ہے ۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ اس کا علاج مذاکرات سمجھتے ہیں جب کہ کچھ لوگ طاقت کے استعمال کے حق میں ہیں۔
یوں کوئی موثر حکمت عملی تیار ہوئی بھی ہے تو اندرونی مفاداتی تضادات ،سوچ وفکر کے تضادات کے باعث ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ بلوچستان اورخیبر پختونخواہ میں جو دہشت گردی کی لہر ہے اس نے کئی پہلوؤں کو آشکار کیا ہے ۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کا کردار مربوط نہیں ہے ۔ بلوچستان خصوصاً خیبرپختوا کی صوبائی حکومت کا دہشت گردی کے خلاف عزم اور کمٹمنٹ کمزور ہے جب کہ وفاقی حکومت بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتی ہے۔
وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں سول اور فوجی قیادت نے مل کر ’’بلوچستان میں دہشت گردوں سمیت دہشت گرد تنظیموں ‘‘ کے خلاف ایک بڑے آپریشن کی منظوری دی ۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیکٹا کو فعال کرنا ، قومی و صوبائی انٹیلی جنس خطرات کے جائزہ کے لیے سینٹرز کا قیام اور اپیکس کمیٹیو ں کی بنیاد پر ضلعی رابطہ کمیٹیاں قائم کرنے پر اتفاق بھی کیا گیا ۔
بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں تواتر کے ساتھ دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں اور سیکیورٹی تنصیبات کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جارہاہے۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں میں سیکیورٹی اداروں کے جوانوں اور افسران کی شہادت کی اطلاعات تواتر سے آرہی ہیں ۔ دہشت گرد عام لوگوں کو شانہ بناتے ہیں، صوبائی منافرت پھیلانے کے لیے دوسرے صوبوں خصوصاً پنجاب کے باشندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ فرقہ وارانہ نفرت اور فساد کو ہوا دینے کے لیے بھی دہشت گردی کی جارہی ہے۔
دہشت گردوں کے ماسٹرمائنڈز کی یہ حکمت عملی نئی نہیں ہے۔ اب جو کچھ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے صدر مقام پارا چنار سے پشاور جانے والی گاڑیوں پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں 45سے زیادہ افراد کی شہادت ہوئی ۔ اس واردات نے خیبر پختونخوا کے مجموعی سیکیورٹی نیٹ ورک پر سوالات کھڑے کردیے ہیں ۔ خیبرپختونخوا کا ضلع کرم پچھلے ایک برس شدید بدامنی، دہشت گردی اور قبائلی منافرت اور فرقہ واریت کا شکار ہے۔
اس علاقہ میں پچھلے چندماہ میں 75سے زیاد ہ افراد کی اموات ہوئی ہیں لیکن مسائل کو ہر حل کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ وفاقی حکومت کے اپنے مسائل ہیں جب کہ خیبر پختونخوا کی حکومت سوائے چند جرگوں کے انعقاد کچھ نہیں کرسکی ۔ادھر ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی بھی ان فسادات میں شریک ہوچکی ہے ۔جس کی وجہ سے حالات زیادہ خراب ہورہے ہیں۔ اگر مقامی قبائلی تنازعات یا فرقہ وارانہ مسائل میں افغان کنکشن برقرار رہا تو علاقے کے عوام کو بھاری قیمت ادا کرناہوگی ۔
ہمارے یہاں جو دہشت گردی ہورہی ہے یا دہشت گردوں کی جو سرپرستی کی جاتی ہے، اس میں خارجی یا علاقائی عوامل کارفرما ہیں ۔ یہ بات درست بھی ہو تو تب بھی یہ ہماری ریاستی ، حکومتی اور ادارجاتی پہلووں کی ناکامی کو عیاں کرتی ہے ۔
بنیادی مسئلہ اندورنی سہولت کاری اور مالی فنانسنگ جاری رہنا ہے۔ ہمیں ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں، دہشت گردوں اور ان کے اندرونی سہولت کاروں سے کوئی رعایت نہیں کرنی اور ان کو کڑی سزا بھی دینی ہے ۔لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں وفاقی، صوبائی حکومتوں، انتظامی مشینری ، پاپولر سیاسی قیادت میں عزم کا فقدان نظر آتا ہے۔ اندورنی سہولت کاری کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ۔
سیاسی قیادت اور ملک کی مذہبی قیادت محض خاموش تماشائی بن کر ریاست کے وسائل کھا رہی ہے۔ یہ بااثر مفت خور طبقہ نجی مجالس میں کھل کر نظریاتی ابہام پیدا کرتا ہے ۔ اپنے آپ کو بچانے کے لیے عوام میں یہ بیانیہ پھیلاتا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کی پالیسی کا اختیار ہمارے پاس نہیں بلکہ طاقت کے مراکز کے پاس ہے ۔
یعنی سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے میں سنجیدہ نہیں بلکہ سیکیورٹی اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ اہداف حاصل نہیں کررہے جو ہم کرنا چاہتے ہیں ۔بلوچستان کا مسئلہ ہو یا خیبر پختونخوا کا، ایسے لگتا ہے کہ ہم فکری تضادات کا شکار ہیں۔
ان صوبوں کی مقامی سیاسی قیادت کبھی جرگوں کی آڑ لے کر سیکیورٹی اداروں کو آپریشن کرنے سے روکتی ہے اور کبھی صوبائیت کا لبادہ اوڑھ کر قوم پرستی کے نعرے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتی ہے۔ صوبائی قیادت اپنی نااہلی، موقع پرستی کو چھپانے کے لیے سارا ملبہ مرکز پر ڈالنے کی دانستہ کوشش کرتی ہے۔
ریاستی اور حکومتی سطح پر اس نقطہ پر غور ہونا چاہیے کہ ہم اس جنگ سے نمٹنے کے لیے کس حد تک اپنے سیاسی فورمز، پارلیمنٹ اور سیاسی ومذہبی سطح پر موجود اہل دانش کوبطور حکمت عملی اختیار کررہے ہیں ۔ دہشت گردوں کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پاکستان کی سیاسی قیادت اور بزنس کمیونٹی اپنی سمت درست نہیں کرتی اس جنگ میں جب تک ریاست کے تمام سیاسی و کاروباری اسٹیک ہولڈرز، بیوروکریسی، پارلیمنٹ ، عدلیہ اور شہری اپنی اپنی سطح پر براہ راست کردار ادا نہیں کریں گے ، ہماری کامیابی ممکن نہیں۔
دہشت گرد بنیادی طور پر ریاستی و حکومتی داخلی ناکامیوں اور خلیج سمیت مختلف نوعیت کی سیاسی ،سماجی ،مذہبی یا معاشرتی تقسیم کا فائدہ اٹھا کر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرکے اپنی رٹ کو قائم کرتے ہیں ۔ دہشت گردی کا مسئلہ گھمبیرہوگیا ہے او راس کا حل کوئی آسان نہیں بلکہ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہمیں مختلف سطح کی حکمت عملیوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
اس اہم مسئلہ پر فوری طورپر تمام پارلیمانی اور غیر پارلیمانی جماعتو ں پر مشتمل کانفرنس بلائی جائے ۔ایک مسئلہ افغانستان بھی ہے، طالبان قیادت ٹی ٹی پی کے معاملے پر ہی نہیں بلکہ دیگر امور میں بھی پاکستان کے مفادات کے برعکس حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم اس اہم مسئلہ پر کوئی بڑی سفارتی کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکے ہیں ، وجہ بھی داخلی تضادات ہیں۔ پاکستان کے اندر رہنے والا ایک بااثر اور باوسائل گروہ اپنی بقا اور اختیار کے لیے افغانستان اور طالبان کو اپنے ہی ملک کے خلاف ایک پریشر کے طور پر استعمال کررہا ہے۔