سپریم کورٹ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ججز کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ سے متعلق درخواست کیس واپس لینے پر نمٹا دی۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ ہرجج بڑے شہر بیٹھنے کی خواہش رکھتا ہے۔
ججز کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ سے متعلق درخواست پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے کی۔ درخواست گزار میاں داؤد نے موقف اختیار کیا کہ ایک سال میں 3 چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ میں تبدیل ہوئے۔ ایک سال میں تین چیف جسٹس ائے تو تین مرتبہ ٹرانسفر پوسٹنگ ہوئی۔ ہائیکورٹ آزاد ہے لیکن پالیسی کیلئے ہدایات ضروری ہے۔ ہر چیف جسٹس نے ججز کو ٹرانسفر کیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ججز کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ پالیسی ہائی کورٹ کا کام ہے۔ کیا ہائی کورٹ آزاد ہے یا نہیں۔ آزاد ہے تو ان کو اپنا کام کرنے دیں۔ ٹرانسفر پوسٹنگ پالیسی ہونے سے متفق ہوں تاہم یہ ہمارا کام نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ ہر جج بڑے شہر میں بیٹھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ٹرانسفر اور پوسٹنگ ہر چیف جسٹس کا اپنا اختیار ہوتا ہے۔ آپ کیوں انتظامی کاموں کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔درخواست پڑھی توخیال آیا یہ میاں داود کی ہوگی۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ دادو صاحب آج ہم آپ کی بات نہیں مان رہے جس پر درخواست گزار نے استدعا کی کہ پھر عدالت اجازت دے کہ ہائی کورٹ جا سکوں۔ عدالت نے درخواست واپس لینے پر نمٹا دی۔