(تحریر: سہیل یعقوب)
آج کل ملک میں جس تیزی سے نوسر بازوں، فراڈیوں، چوروں، ڈاکووں اور دھوکے بازوں کا اضافہ ہوا ہے اور ان کی وارداتوں کے نت نئے طریقے سامنے آرہے ہیں جس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید من حیث القوم اب یہی ہمارا قومی ذریعہِ معاش بن گیا ہے۔
تمام مالیاتی ادارے بشمول بینک بار بار اپنے صارفین کو یہ پیغامات بھجواتے ہیں کہ وہ اپنے رابطہ کرنے والے نمبر سے خود کال یا رابطہ نہیں کرتے اور دوم یہ کہ اپنی خفیہ معلومات میں کسی اجنبی اور غیر متعلقہ شخص کو حصہ دار بنانا اپنے ہی کھاتے میں نقب لگوانے اور اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔
اس سے پہلے کہ ہم ان چوروں اور دھوکے بازوں کے طریقہِ واردات پر آئیں، پہلے ہم دھوکے کی تعریف پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ ’’دھوکا ایک دانستہ غلط نمائندگی ہے تاکہ کوئی شخص غیر منصفانہ یا غیر قانونی فائدہ حاصل کرے یا حقدار/ مظلوم کو کسی قانونی حق سے محروم کرے۔‘‘
اب جبکہ ہم نے دھوکا دہی کی تعریف بیان کردی ہے اب ہم ان کے طریقہِ واردات پر آتے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ یہ سمجھ لیجیے کہ ان کے پاس آپ کے بارے میں بہت محدود معلومات ہوتی ہیں اور اس معلومات کے ذریعے ہی وہ آپ کی نفسیات سے کھیل کر آپ سے اپنے مطلب اور ضرورت کی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ واردات کی جاسکے۔
اگر وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ آپ کے متعلقہ بینک یا مالیاتی ادارے کی جانب سے آپ کو کال کررہے ہیں تو وہ سب سے پہلے آپ کو آپ کا شناختی کارڈ نمبر بتائیں گے (جس کا حصول آج کل کچھ بھی مشکل نہیں رہا) پھر وہ آپ کو آپ کی رہائش گاہ کا پتہ بتائیں گے، جو کہ آپ کے شناختی کارڈ پر ویسے ہی درج ہے۔ اس کے بعد وہ آپ کو آپ کا ہی موبائل نمبر بتائیں گے جس پر وہ پہلے ہی آپ سے بات کررہے ہیں۔
اب اگر آپ ان کی بتائی معلومات سے مرعوب ہوچکے ہیں تو پھر وہ آپ سے آپ کے اے ٹی ایم کارڈ کے آخری آٹھ نمبر (پہلے آٹھ نمبر ان کے پاس ہوتے ہیں جو وہ آپ کو کال پر بتاتے ہے) بتانے کا کہتے ہیں۔ آپ کے کھاتے کا پن نمبر مانگتے ہیں یا اگر آپ کے فون پر کوئی او ٹی پی (OTP) آیا ہوتا ہے تو وہ طلب کرتے ہیں تاکہ آپ کو آپ کے اپنے پیسوں سے محروم کرسکیں۔ وہ معلومات جو وہ آپ کے سوا کہیں اور سے حاصل نہیں کرسکتے وہ آپ کی والدہ محترمہ کا نام ہے جو آپ نے کبھی فون پر کسی اجنبی کو نہیں بتانا۔ جس طرح پرانی کہانیوں میں جادوگر کی جان طوطے میں ہوتی تھی بالکل اسی طرح آپ کی معاشی فلاح و بہبود اور حفاظت اس معلومات میں ہے اور جیسے ہی آپ نے ان معلومات میں کسی کو حصہ دار بنایا تو اب آپ ان کے رحم و کرم پر ہیں۔ اب وہ جب چاہے غاصبانہ طریقے سے آپ کو آپ کے ہی پیسوں سے محروم کرسکتے ہیں۔ اس لیے بھرپور احتیاط کریں اور یہ معلومات کسی کے ساتھ بھی نہ بانٹیں۔
ایک اور اہم بات، عام طور پر یہ کال انتہائی نامناسب وقت پر آئے گی۔ صبح اس وقت جب آپ اپنے دفتر کےلیے تیار ہورہے ہوں گے۔ دوپہر کو آرام کے وقت، غرضیکہ ایسا وقت کہ جس وقت آپ یا تو مصروف ہوں یا ذہنی طور پر مکمل بیدار نہ ہوں۔
اب اس سے کیسے بچا جائے؟ سب سے پہلے تو اگر آپ ان کے فون نمبر کو بھی غور سے دیکھیں گے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ کال آپ کے مالیاتی ادارے سے نہیں آئی ہے۔ ہرچند کے نمبر ملتا جلتا ضرور ہوگا لیکن اصل نمبر نہیں ہوگا۔ آگر آپ کے واٹس ایپ پر کوئی پیغام بھی آیا ہے تو بھی پریشان نہ ہوں، غور سے پیغام کو دیکھیے آپ کو اس میں بھی جھول نظر آجائے گا۔ یہ پیغام کہ اسٹیٹ بینک نے آپ کا اے ٹی ایم کارڈ منجمد کردیا ہے، سو فیصد جھوٹے ہوتے ہیں۔
ایک اور جعلسازی جو آج کل بہت ہورہی ہے کہ ایک انجان نمبر سے کال آئے گی اور ایک شخص اپنا تعارف پولیس انسپکٹر کے طور پر کرائے گا۔ وہ تحکمانہ انداز میں آپ کو بتائے گا کہ اس نے آپ کے بیٹے، بھانجے یا بھتیجے کو کسی بھی جرم کا نام لے کر کہ اس جرم میں پکڑا ہے۔ جرم عام طور پر سنگین نوعیت کا ہوگا اور تھوڑی بات چیت کے بعد وہ آپ سے کہے گا کہ آپ نام بتائیے تو میں آپ کی اس سے بات کراتا ہوں۔ یہیں آپ نے اس کو پکڑ لینا ہے اور نام نہیں بتانا بلکہ آپ اس سے اس کا تھانہ، اس کا متعلقہ ڈی ایس پی اور ایس پی کا پوچھے وہ خود فون بند کرکے بھاگ جائے گا۔ اگر کوئی آپ کو مستقل لائن پر رہنے کو کہے تو سمجھ لیجیے کہ وہ آپ کے گھر کے کسی اور فرد سے بات کررہا ہے اور نہیں چاہتا کہ آپ کا اور آپ کے گھر کے اس فرد کا آپس میں رابطہ ہو۔ آپ فوراً کال کاٹ کر اپنے گھر رابطہ کرکے اپنی خیریت کی اطلاع دیں اور اپنے فون کو مصروف نہ رکھے تاکہ جو بھی آپ سے رابطہ کرنا چاہے وہ رابطہ کرسکے۔
ویسے تو ان جعلسازوں اور نوسر بازوں کے بے شمار طریقہ کار ہیں جن میں چند کا احاطہ اس تحریر میں کیا گیا ہے۔ ایک آخری بات اور جس پر اس تحریر کا اختتام ہوگا کہ یہ سب چور آپ کے حواس سے کھیلتے ہیں۔ آپ نے اپنے حواس قابو میں رکھنے ہیں اور حواس قابو میں رکھنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اس سے تابڑ توڑ سوالات کرکے اس کو حواس باختہ کیجیے اور آپ خود دیکھیں گے کہ دو تین سوالات کے بعد آپ کے حواس بحال ہونے لگیں گے اور اس کے حواس رخصت ہونے لگیں گے، کیونکہ آپ کے سوالات کے جواب اس کی محدود معلومات کے پاس نہیں ہوتے۔ جیسے کہ ایک فلم کا مکالمہ ہے کہ ’’ٹینشن لینے کا نہیں دینے کا ہے‘‘۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔