غزہ کے عوام کی حالیہ جدوجہد کو ایک سال کا عرصہ گزرگیا مگر غزہ کے عوام کے مصائب کم ہوتے نظر نہیں آتے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی جارحیت سے 70 فیصد عرب عورتیں اور بچے متاثر ہورہے ہیں۔ سوات کی دختر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کا انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی حملے کا سارا نقصان عورتیں اور بچے اٹھا رہے ہیں۔ گزشتہ اکتوبر میں غزہ کی پٹی کی آبادی 21 لاکھ کے قریب تھی جو مسلسل جنگ کی بناء پر بہت کم ہوگئی ہے۔
اسرائیلی طیاروں کی مسلسل بمباری، ڈرون کے حملوں، بارودی سرنگوں کے پھٹنے اور اسرائیلی ٹینکوں کے مارٹر گولوں نے بستیاں اجاڑ دی ہیں۔ اسرائیل کی مسلسل کارپٹ بمباری کی بناء پر غزہ کا سیوریج کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ غزہ کی مختلف بستیوں میں پینے کا پانی نایاب ہوچکا ہے اور سیوریج کا پانی فراہم کرنے والی پائپ لائنوں میں داخل ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں پیٹ کی بیماریاں پھیل گئیں۔
صفائی کی ناگفتہ بہ حالت کی بناء پر سیوریج لائنوں میں پولیو کے جراثیم کا پتہ چلا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے گزشتہ جولائی میں یہ رپورٹ جاری کی تھی، جب اسرائیلی فوج کو یہ رپورٹ ملی تو اسرائیلی فوجیوں کو ویکسین لگانی شروع کردی۔ دوسری طرف ان نامساعد حالات کے باوجود فلسطینی حکام مختلف تنظیموں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت میں مصروف مختلف گروپوں نے اپنے زیرِ نگرانی علاقوں میں والدین کو بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لیے راغب کرنا شروع کردیا۔
ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم Euro-Mediterranem Human Rights Monitor نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی بناء پر فلسطینی بچوں میں پولیو کے قطرے پلانے کا کام متاثر ہوا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مختلف فلسطینی تنظیمیں خطرہ ختم ہونے کے سائرن کی آواز سنتے ہی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا آغاز کردیتی ہیں۔
آزاد ذرایع ابلاغ کہتے ہیں کہ فلسطینی والدین فورا اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں اور متعلقہ عملہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ فلسطین اور غزہ کے پورے علاقے میں کسی بھی گروہ نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی جس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔ بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی شہریوں کا پولیو کے قطرے رضاکارانہ طور پر بچوں کو پلانے کی بناء پر اس علاقے میں پولیو کے مرض کی خاصی روک تھام ہوئی ہے۔ اس طرح یورپ، امریکا اور افریقہ میں پولیو کے مرض کی مکمل روک تھام ہوچکی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت افغانستان اور پاکستان دو ممالک میں جہاں پولیوکا مرض بجائے ختم ہونے کے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ شعبہ صحت سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیو کے خاتمے کی تمام تدابیر ناکام ہوچکی ہیں۔ حکومت نے گزشتہ سال اعلان کیا تھا کہ اب پاکستان پولیو کے وائرس سے پاک ہوچکا ہے مگر اس سال پولیو کے 48 کیس ہوچکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیوریج کے نظام کے ناکارہ ہونے، پینے کے پانی میں سیوریج کے پانی کی ملاوٹ اور جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر ہونے سے پولیوکا وائرس پیدا ہوتا ہے۔
یہ وائرس لاغر بچوں پر جلدی حملہ آور ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جن بچوں میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے وہ اس مرض کا شکار ہوتے ہیں اور زندگی بھر کے لیے اپاہج ہوجاتے ہیں۔ افغانستان کے موجودہ نظام میں فرد کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور طالبان کی تمام پالیسیوں میں رجعت پسندی غالب نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان حکومت کے اہلکار بچوں کو وبائی امراض سے بچانے کے لیے اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ افغانستان میں بچوں کی ہلاکت کو قسمت سمجھا جاتا ہے۔
طالبان اخبارات اور ٹی وی کی نشریات کو بھی بند کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں پولیوکا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ افغانستان کی حکومت کی یہ پالیسی ڈیورنڈ لائن عبور کر کے آنے والے باشندوں کے دماغوں میں بسی ہوئی ہے، یوں پاکستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کی اس رجعت پسندانہ پالیسی کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔
صرف رواں صدی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پورے ملک میں پولیو کے قطرے پلانے والے سیکڑوں کارکن اور ان کی حفاظت کا فریضہ انجام دینے والے پولیس اہلکار روزانہ مسلح حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سعودی منحرف اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے گھر گھر خون کے نمونے جمع کرنے کی مہم چلائی گئی۔ اس بناء پر لوگ ان مہموں سے خوفزدہ ہیں مگر رجعت پسندی کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں حیدرآباد میں ایک لیڈی ڈاکٹر نے پولیو کے قطرے پلانے والے اہلکاروں پر تشدد کیا اور ان کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ سماجی علوم کے ماہرین غزہ اور پاکستان کے لوگوں کے پولیو کے قطرے پلانے کے بارے میں متضاد رویوں کا جائزہ لیتے ہوئے فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کا حوالہ دیتے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس کی سرپرستی میں 1949 میں فلسطینی علاقے پر اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ فلسطینی عوام نے اسرائیل کے قیام کو فلسطین کے عوام کے حقوق کی پامالی سے تعبیر کیا۔ گزشتہ صدی کی 50ء اور 60ء کی دہائی میں فلسطینیوں نے یہودیوں کی ان کے علاقوں میں آبادکاری کے خلاف مزاحمت کی مگر یہ مزاحمت زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوئی۔
ایک فلسطینی شہری یاسر عرفات نے ایک گوریلہ تنظیم ’’الفتح‘‘ کی بنیاد رکھی۔ الفتح کے ساتھ دیگر سوشلسٹ گروپ بھی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی تحریک کا حصہ بن گئے۔ یاسر عرفات اورکمیونسٹ رہنما جارج ہباش وغیرہ نے پی ایل او کی بنیاد رکھی۔ پی ایل او میں مسلمانوں کے علاوہ مسیحی بھی شامل ہوگئے۔ ایڈورڈ سعید جیسے ترقی پسند یہودیوں نے پی ایل او کی حمایت شروع کر دی۔ ایڈورڈ سعید کے ساتھ پاکستانی نژاد اسکالر ڈاکٹر اقبال احمد بھی امریکا میں پی ایل او کی حمایت میں سرگرم ہوئے۔
امریکا کے ایک اور یہودی دانشور چومسکی نے بھی ایڈورڈ سعید اور ڈاکٹر اقبال کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرنا شروع کردی۔ سیکیولر تنظیموں اور مختلف رہنماؤں کی کوششوں سے ساری دنیا نے پی ایل او کی حمایت کی۔ یوں غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں ہمیشہ ایک سیکولر فضاء خاصی مضبوط رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں قائم ہونے والے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سائنٹیفک بنیادوں پر تیار کیا جانے والے نصاب نے نوجوان نسل کے ذہنوں کو روشنی سے منورکیا۔ اسی وجہ سے فلسطین کی آزادی کی تحریک صرف مسلمانوں تک محدود نہ رہی بلکہ اس کے اثرات خاصے گہرے ثابت ہوئے۔ فلسطین میں ترقی پسند تحریک مستحکم ہونے کی بناء پر عوام نے بھی جدید ترین رجحانات کو اپنا لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے معاشرے کو سائنٹیفک بنیادوں پر ارتقاء پذیر کرنے کے بجائے پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ سے منسلک کیا۔ یوں ایک رجعت پسندانہ بیانیہ تعلیمی اداروں کے نصاب کا حصہ بنا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں رجعت پسندی کو تقویت دی گئی۔ تعلیمی اداروں کے نصاب میں رجعت پسندانہ سوچ پیدا کرنے والے مواد کو شامل کیا گیا، یوں ایک ایسی نسل پیدا ہوئی جو سائنسی حقائق سے دور ہوئی۔
برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے انتہا پسندی کی ترویج کی۔ جنرل ضیاء الحق کی افغانستان میں مداخلت اور جہاد کے نعرے نے معاشرے کی ساخت کو مجروح کیا۔ بدقسمتی سے بعد میں برسر اقتدار آنے والی حکومتیں کوششوں کے باوجود عدم برداشت اور انتہا پسندی کے جن کو قابو نہ کرسکیں۔
یہی وجہ ہے کہ 90ء کی دہائی سے اب تک پولیو کے قطرے پلانے والے 100 سے زائد کارکن اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس کے سپاہی شہید ہوچکے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ریاست اب بھی کسی نہ کسی سطح پر رجعت پسند اور انتہا پسند قوتوں کو طاقت فراہم کرتی ہے۔ ریاست کی اعلیٰ ترین سطح پر ایسی پالیسی اختیارکی جائے جیسی پالیسی پی ایل او کی تھی ورنہ ملک میں پولیو کے مرض کا خاتمہ ممکن نہ ہوگا۔