وطن عزیز ان دنوں بحران در بحران میں گھرتا جا رہا ہے۔موجودہ حکمران حکومت کو کامیابی سے چلانے میں ابھی تک پوری طرح کامیاب نہیں ہو پائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی شبانہ روز اور مخلصانہ کاوشوں کے طفیل حکومت 26 ویں آئینی ترمیم منظور کروا کے اپنی سیاسی بقا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
اپنی مرضی کا کے ججزکی تعیناتی کے بعد موجودہ حکومت کو فی الحال سیاسی اور عدالتی حوالے سے کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آ رہا ہے، لیکن حکومت کی سب سے بڑی حلیف جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں صحافیوں سے گفتگو میں (ن) لیگ کے خلاف اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ (ن) لیگ حکومت معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے ان کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ حکومت قانون سازی کرتے وقت طے کی گئی باتوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔
انھوں نے شکوہ کیا کہ حکومت کی جانب سے ہمیں یہ یقین دلایا گیا تھا کہ فیصلے برابری کی بنیاد پر ہوں گے لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا۔ اسی باعث وہ جوڈیشل کمیشن سے احتجاجاً علیحدہ ہو گئے اگر وہ آئین کا حصہ ہوتے تو آئینی بینچ میں دیہی سندھ سے سپریم کورٹ میں ججز کی نمایندگی کے حوالے سے بات کرتے۔ بلاول بھٹو نے بجا طور پر یہ مطالبہ کیا کہ ہمیں انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے سپریم کورٹ میں برابر کی نمایندگی دی جائے اور سندھ کے لیے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے تھا جو وفاق نے اپنے لیے استعمال کیا۔
بلاول بھٹو نے بالکل درست کہا کہ چیف جسٹس اور آئینی بینچ کے سربراہ کو غیر متنازع ہونا چاہیے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے حکومت سے گلے شکوے، الزامات، تحفظات، سوالات اور مطالبات سنجیدہ غور و فکر کے متقاضی ہیں۔ پیپلزپارٹی سندھ کی سب سے بڑی سیاسی قوت اور چاروں صوبوں میں نمایاں نمایندگی رکھنے والی بڑی سیاسی جماعت ہے۔ (ن) لیگ پی پی پی کے تعاون کے بغیر نہ حکومت چلا سکتی ہے اور نہ ہی قانون سازی اور آئینی ترامیم کے خواب پورے کر سکتی ہے۔ وفاق میں سندھ کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات کو بلاول بھٹو زرداری نے سنجیدہ انداز میں اجاگر کیا ہے۔ بلاول بھٹو اس سے قبل بھی حکومت اور (ن) لیگ کی قیادت سے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
بلاول بھٹو بالکل درست کہتے ہیں کہ (ن) لیگ حکومت کو جب اپنی بقا خطرے میں نظر آئی ہے اور اسے پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو چار قدم آگے بڑھ کر پی پی پی کی ہر بات اور مطالبے پر عمل درآمد کی یقین دہانیاں کرانے کے معاہدے کیے جاتے ہیں جس سے نہ صرف سیاسی بے وفائی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ دوسروں کو نظرانداز کرنے کے روایتی سلوک کا بھی کھل کر اظہار ہوتا ہے۔ سیاست میں تمام پارٹیاں نے ایسا ہی کیا ہے سب کو اپنے سیاسی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا (ن) لیگ کے سرکردہ رہنما بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے کیے گئے سنجیدہ سوالات پر غور وفکر کرنے اور بلاول بھٹو و پارٹی کے دیگر سینئر رہنماؤں کے تحفظات دور کرنے پر آمادہ ہیں؟ صدر آصف زرداری جو سیاسی معاملات کی باریکیوں، مسائل اور نزاکتوں کو سمجھنے کے پہلو بہ پہلو اپنے صوبے سندھ کے مسائل سے بھی کماحقہ آگاہ ہیں۔ وہ (ن) لیگ کی سیاست، رویوں، ماضی کے تجربات اور ملک کے موجودہ سیاسی، معاشی اور امن و امان کے امڈتے ہوئے نت نئے بحرانوں سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ (ن) لیگ اور پی پی پی کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو کم کرنے میں اپنا مثبت اور سیاسی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سندھ کے مسائل کا حل، شکایات کے ازالے کے لیے نہ صرف ایوان صدر کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ تب ہی حکومت آگے چل سکتی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ معیشت ڈوب رہی ہے، آئی ایم ایف وفد نے اپنے حالیہ دورے میں واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان اپنے معاشی اہداف کے حصول میں سست روی کا شکار ہے، امن تباہ ہو رہا ہے۔ قلات میں ایک مرتبہ پھر سیکیورٹی فورسز پر حملہ کر کے 7 جوانوں کو شہید کر دیا۔ ادھر عمران خان کی ’’فائنل کال‘‘ پر پی ٹی آئی 24 نومبر کو احتجاج کا شور مچا رہی ہے۔ ایسے بحرانی حالات مخلوط حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔