جنگ کے دنوں میں محبت

’’یقین رکھنا  جہاں ہم پھر ملیں گے، وہاں امن ہوگا۔۔۔!‘‘


خوشنود زہرا November 19, 2024
’’یقین رکھنا جہاں ہم پھر ملیں گے، وہاں امن ہوگا۔۔۔!‘‘ ۔ فوٹو : فائل

 

 

 

 

وہ پہلی بار اُسے اسپتال میں نظر آیا تھا۔ اونچا لمبا قد مگر زخمی وجود، اس کے جسم سے زیادہ شدید شاید دل کے گھاؤ تھے۔ تکلیف اتنی شدید تھی کہ اتنا لمبا چوڑا مرد کسی بچے کی طرح سسک رہا تھا۔۔۔ جب وہ اسے دوا دینے آئی، تو بریر نے بے تابی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ نرس کیا تم مجھے بتا سکتی ہو، میری ماں کی حالت کیسی ہے اور میرا بڑا بھائی بھی اس وقت گھر میں ہی تھا، جب وہاں بم باری شروع ہوگئی۔ مجھے تو موقع ہی نہیں ملا کہ مین اپنی ماں کو تھام سکتا۔ میں اٹھ نہیں سکتا، کیا تم پلیز، مجھے بتا سکتی ہو کہ میری ماں بھی کیا اسی اسپتال میں موجود ہے؟

اور عبیرہ اس کی ڈبڈبائی آنکھوں کو دیکھ کر سچ نہ بتا سکی کہ اس کے علاوہ اس عمارت سے کوئی زندہ شخص نہ ملا۔۔۔!

جب تک وہ اسپتال میں تھا وہ روز اس کا حال دریافت کرتی، اس کی باتیں سنتی، ہاتھوں سے کھانا کھلاتی اور اسے تسلیاں دیتی۔ ایک روز جب وہ اسپتال میں نظر نہ آیا، تو عبیرہ کو لگا شاید کچھ گُم ہوگیا ہے۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے ادراک ہوا کہ وہ شخص اس کے لیے ایک عام مریض نہیں تھا۔ شاید محبت یوں ہی ہوا کرتی ہے۔ ایک دوسرے کو جانے بغیر بھی ایک دوجے کی عادت ہو جاتی ہے۔

وہ جانتی تھی کہ اسے کھنڈر ہوئے، شہر میں کہاں تلاش کیا جا سکتا تھا۔ عبیرہ اسپتال کی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد اس کے قدموں کا پیچھا کرتے بالاخر وہیں پہنچ گئی، جہاں وہ اپنے الجھے الجھے چاکلیٹ، براؤن بالوں والے سر کو جھکائے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھا تھا۔ عبیرہ خاموشی سے چلتی اس کے برابر میں بیٹھ گئی۔ بَریر بھی جیسے محبوب کی خوش بو پہچان گیا۔ دھول مٹی اور بارود سے اٹے ہوئے ارد گرد میں جیسے دھیما سا سکون اور فرحت کا احساس لیے وہ نرم گرم سی مہک، وہ بھی تو اتنے روز میں عادی ہو چکا تھا۔

مجھے معلوم تھا تم آؤ گی۔۔۔ اور کیوں نہ آتیں۔۔۔ میں تمھیں یاد جو کر رہا تھا۔۔۔ اور جب ٹوٹے ہوئے دل سے کسی کو پکارا جائے، اور اس کا دیدار نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔۔۔! عبیرہ نے دھول سے اٹے اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے ماتھے سے پرے کیا، تو جیسے اس لَمس کو پاکر بریر کی آفت زدہ روح کو قرار آیا۔

یوں زندگی اور موت کے درمیان جیسے کچھ دیر وقت رک گیا ہو۔ واقعی وہ رب ہے، جو اگر گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن بھی بھیج دے، تو وہ امید بن جایا کرتی ہے۔ کاسنی ملبوس پہنے عبیرہ کا وجود بھی اس کے لیے ایسا ہی تھا، جیسے مشکل کے بعد آسانی۔۔۔

اس نے عبیرہ کا ہاتھ تھاما، ان خوش کُن لمحوں کو آفاقی بنانے کی خاطر اپنے لب ان ہاتھوں پر رکھ دیے۔ اور ایک ٹرانس کی کیفیت میں گویا جیسے کوئی حسین منظر آنکھوں میں آن ٹھیرا۔ کاش تم اور میں زمانۂ امن میں ملے ہوتے، تو کسی ’کافی شاپ‘ میں آنکھوں سے گفتگو کرتے۔۔۔ کائنات ہمارا موضوع ہوتی۔۔۔ شفق تا صحرا ہماری محبت کی گواہی دیتے۔ آسمان کی لالی سے زمین کے ذرات تک ہماری داستان سنایا کرتے۔ یا کسی روز سمندر کے کھارے پانیوں میں پیر بھگو کر گلابوں کی باتیں کرتے، دور تلک ساتھ چلتے مستقبل کے خوش کن لمحات کو تصور کر کے سمجھو جوانی کا نشہ کشید کر لیتے۔

کسی روز کوئی شوخ رنگ ملبوس پہن کر کسی خوش بو میں بس کر جو تم ملنے آتیں، تو تادیر اس کا فسوں رہتا۔ تمھاری بھیگی خوش بودار زلفوں کی چھاؤں پاکر میں اپنی خوش قسمتی پر رشک کیا کرتا۔ ان خوب صورت گداز ہاتھوں کے لیے کبھی گہنے خریدتا تو کبھی کنگن لاتا۔۔۔ اور تمھارا سنورا سنورا روپ دیکھ کر تادیر نہال رہتا۔

کبھی تم سے یونھی جھوٹ موٹ روٹھ جایا کرتا اور تم منانے کے لیے تمام جتنن کرنے کے بعد جب روہانسی ہو جاتیں، تو بس اس ایک آنسو سے میں پگھل جاتا۔ خود کو ملامت کرتا کہ میری وجہ سے ایک عورت کی آنکھ میں نمی آئی، یہ تو مردوں کا شیوہ نہیں ہوا کرتا اور پھر اس کا الٹ ہوتا، اب میں اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کر تم سے معافی طلب کرتا اور تم کھل کھلا کر بس ایک بار میں مجھے یوں مسرور کر دیتیں، گویا میں کائنات کا خوش قسمت ترین مرد ہوں۔

لیکن۔۔۔ لیکن ہمارا مقدر ہے کہ ہماری ملاقات ملبے کے ڈھیر ہوئے اس ’اسپتال‘ میں ہوئی، جہاں خون کی بو اور بارود کی مہک ہے۔ گلابوں جیسے چہرے گھائل ہیں۔ فلک سے برسات نہیں بلکہ ’آگ‘ برستی ہے اور دھرتی پر زندگی ٹھنڈی چھاؤں کو ترستی ہے۔ شوخ ہے یہ سرخ رنگ پر یہ لہو آنکھوں میں چُبھتا ہے اور زہریلا لگنے لگتا ہے۔ جھلستے سلگتے آتشیں ہتھیاروں سے برباد ہوئے مکانوں کا دھواں سارے خوش کن مناظر دھندلا رہا ہے۔

ہاں اس دوران یہ ضرور ہوا ہے کہ امن کا اتنا ذائقہ چکھا کہ تمھارا چہرہ ایک بار نظر بھر کر دیکھ لیا ہے۔ تمھاری حسین ترین شبیہہ میری اِن آنکھوں میں محفوظ ہوگئی ہے، جیسے مستقبل کا کوئی شان دار خواب۔

تمھارے مٹی میں اٹے گیسوؤں کی چھاؤں بھی میسر آجائے، تو یہ ریشم سے زیادہ مخملیں ہوں۔ ان کی چھاؤں اوڑھ کر میں دھوپ کا مارا یوں سو جاؤں، جیسے اس قربت کے لیے ہی جاگ رہا ہوں۔

وہ۔۔۔ وہ دیکھو۔۔۔! پھر بارش برسنے کو ہے، لیکن، آہنی آتشیں گولیوں کی بارش۔۔۔

شاید اس بار ہمی ان کا نشانہ ٹھیریں۔

اس سے قبل یہ الوداعی بوسہ تمھارے ماتھے کا جھومر بنا دوں۔۔۔!

الوداع۔۔۔!

میرا سکون۔۔۔ میری زندگی۔۔۔!

سنو۔۔۔! یقین رکھنا کہ ہماری محبت امر ہوگی، جہاں ہم پھر ملیں گے، وہاں سکوں ہوگا۔۔۔ امن ہوگا۔۔۔ وہاں بچوں کی قلقاریاں ہوں گیں۔۔۔ عورتوں گنگناتی ہوں گی۔

جواں شوخیوں پر آمادہ آمادہ ہوں گے۔۔۔ پھر ہم وہاں ملیں گے۔۔۔!

ہاں۔۔۔ وہاں ملیں گے۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔