اسلام آباد:
سینیٹ قائمہ کمیٹی آئی ٹی نے کہا ہے کہ وی پی این کا حلال حرام سے کیا تعلق؟ مذہب کا مذاق اڑایا جارہا ہے، چیئرمین پی ٹی اے نے کہا ہے کہ وی پی این کے بغیر آٹی انڈسٹری نہیں چل سکتی جب کبھی انٹرنیٹ بند کرنا ہوتا ہے تو پھر انڈسٹری کو نقصان ہوتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کمیٹی کا اجلاس پیر کو سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ اس وقت ملک میں انٹرنیٹ کے ایشوز چل رہے ہیں لوگوں کا کاروبار تباہ ہورہا ہے وزیر مملکت آئی ٹی شیزہ فاطمہ اجلاس میں شریک ہی نہیں ہورہیں ہم معاملے پر وزیر اعظم کو خط لکھیں گے کہ وزیر مملکت آئی ٹی جواب دینے سے کیوں گریز کر رہی ہیں اس کا مطلب ہے وزارت کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔
سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ لوگوں کے پیسے لگاکر فائر وال لگائی گئی اور اب انٹرنیٹ کی عدم فراہمی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
سنیٹر افنان اللہ نے کہا کہ وی پی این کی بندش وزارت آئی ٹی کا دائرہ اختیار ہے وزارت داخلہ کس بنیاد پر خط لکھ رہی ہے؟ اس پر اراکین کمیٹی کا کہنا تھا کہ وی پی این کا حلال حرام سے کیا تعلق؟ مذہب کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
چئیرمین پی ٹی اے نے قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وی پی این کے بغیر آئی ٹی انڈسٹری نہیں چل سکتی، عام آدمی کو وی پی این کی ضرورت ہے جبکہ فری لانسرز اور کمپنیوں کو وی پی این کی ضرورت ہوتی ہے،2016ء میں وی پی این رجسٹریشن کی پالیسی بنی ابھی ہم نے دوبارہ رجسٹریشن شروع کی ہے اگر وی پی این رجسٹرڈ ہوگا تو پھر کبھی انٹرنیٹ بند نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک ہم نے 25 ہزار وی پی این کی رجسٹریشن کر دی ہے جب کبھی انٹرنیٹ بند کرنا ہوتا ہے تو پھر انڈسٹری کو نقصان ہوتا ہے۔ اگر رجسٹریشن ہوگئی تو ان کا انٹرنیٹ چلتا رہے گا، وائٹ لسٹنگ کمپنیوں کا انٹرنیٹ کبھی بند نہیں ہوگا۔
اراکین کمیٹی کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ سوشل میڈیا ایپلیکشن سے متعلق ہدایت دے سکتی ہے اس پر سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ وی پی این ٹول ہے سوشل میڈیا نہیں پھر وزارت داخلہ ہدایت کیسے دے سکتی ہے؟
وزارت آئی ٹی حکام نے بتایا کہ وی پی این سوشل میڈیا نہیں لیکن اس کے ذریعے سوشل میڈیا تک رسائی ممکن ہے جس پر کمیٹی اراکین کا کہنا تھا کہ پھر اسمارٹ فون کمپیوٹر اور دیگر ڈیوائسز بھی بند کریں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ 17 فروری سے انٹرنیٹ کی بندش کا معاملہ چل رہا ہے جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ بتائیں وزارت آئی ٹی کیا کام کر رہی ہے؟ کیا یہ لکھا کہ انٹرنیٹ کی بندش غلط ہے؟
سینٹر افنان اللہ نے کہا کہ ہم نے ٹویٹر بند کر دیا ٹک ٹاک چل رہا ہے ٹک ٹاک پر جو ویڈیوز چل رہی ہیں کیا وہ اخلاقی ہیں؟ سنیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ بلوچستان میں تین دن سے انٹرنیٹ بند ہے کیا اس کی وجہ وی پی این کا استعمال ہے؟
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ وی پی این ایک کھلا سمندر ہے ہر کوئی جو مرضی دیکھے جب کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ممبر لیگل نے کہا کہ وی پی این سوشل میڈیا کے زمرے میں نہیں آتا، پیکا ایکٹ کے تحت غیر اخلاقی مواد بند کیا جاسکتا ہے جبکہ چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ ہم نے پانچ لاکھ سے زائد ایسی ویب سائٹس بند کیں جن پر غیر اخلاقی مواد تھا وہ سائٹس جب ہم نے بند کیں تو ایک ہفتے میں دو کروڑ افراد نے ان تک رسائی کی کوشش کی۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ غیر اخلاقی مواد کو روکنے کے لیے لوگوں کو آگاہی اور تعلیم دینا ضروری ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ وی پی این کی رجسٹریشن کے ذریعے آپ لوگوں کی رجسٹریشن کر رہے ہیں اس وقت پاکستان میں ٹاپ کے 27 وی پی اینز ہیں، اس وقت پاکستان میں وی پی این کے ذریعے جو دل کرے دیکھ سکتے ہیں، پی ٹی اے میں علمائے کرام کو بلایا تھا کہ لوگ پورنو گرافک مواد دیکھ رہے ہیں تو علمائے کرام سے مدد مانگی تھی کہ جو غیر اخلاقی ویب سائٹس بلاک کرتے ہیں، لوگ اسے زیادہ ہٹ کرتے ہیں۔
ممبر آئی ٹی نے کہا کہ گلف، ایران، چائنا، ترکیہ میں وی پی این ریگولیٹ جس پر چیئرمین کمیٹی پلوشہ خان نے کہا کہ کیا اب انٹرنیٹ کی اسپیڈ بھی متاثر ہوئی ہے؟
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ اگست میں سب میرین کیبل کا ایشو آیا تھا اب انٹرنیٹ میں خلل نہیں ہے بلوچستان میں نیٹ بند کرنے کا وزارت داخلہ کی جانب سے تحریری خط آیا تھا بلوچستان میں کوئی آپریشن چل رہا ہے سیکیورٹی رسک کے باعث انٹرنیٹ بند کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی اور فون نہیں کررہا وزارت داخلہ کے کہنے پر ہی انٹرنیٹ بند کرتے ہیں۔