بلوچستان ہماری جان

بہت سے مسلمان آن لائن بزنس میں ہندو نام استعمال کرتے ہیں


شہلا اعجاز November 17, 2024

’’بلوچستان میں سونے کے پہاڑ ہیں۔‘‘

 خبر تو طویل تھی لیکن اس کا ایک جز سونے سے جڑا تھا بھارت میں سونے کی اہمیت ہے یا نہیں لیکن ان کی نظر ضرور ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ اس قدر کا تعصب برتا جا رہا ہے کہ دہلی میں بات ٹھیلے والے پھل بیچنے والوں اور خوانچے والوں تک آ پہنچی ہے جہاں بی جے پی کے کرتا دھرتا پولیس کی سیکیورٹی میں ٹھیلے والے پھل فروشوں سے بھی بات چیت کرکے اطمینان حاصل کر لیتے ہیں پھر ان کے ٹھیلے میں ایک شناختی جھنڈا لہرا دیا جاتا ہے کہ جناب یہ ایک ہندو کا ٹھیلا ہے، اب آپ صرف اس سے خریداری کریں۔

جب کہ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان جس ہاتھ سے ہندو دھرم کے مطابق حرام چیزیں کھا کر اسی ہاتھ سے ہندوؤں کو سامان دیتے ہیں جس سے ان کے مذہب پر تحفظات اٹھتے ہیں۔

 بات اگر صارفین کی ہو تو لوگ مختلف آراء اختیار کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں فرق نہیں پڑتا کہ وہ سامان کس سے خرید رہے ہیں انھیں تو اچھا مال چاہیے جب کہ تعصب پرست یہاں بھی اپنے دل کی بولی بول رہے ہیں۔ کرتا دھرتا کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سے مسلمان آن لائن بزنس میں ہندو نام استعمال کرتے ہیں اور جب ادائیگی کا وقت آتا ہے تو پیچھے سے کوئی مسلمان نکلتا ہے۔

گو بی جے پی کے اس کارکن پر بھارت میں اعلیٰ عدالت نے پابندی بھی لگائی ہے پر شاید خبروں تک۔ ان کے اس عمل کو لوگ پسند کر رہے ہیں یا نہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ مذہبی تعصب کو بڑھ چڑھ کر اچھالا جا رہا ہے۔

بات بلوچستان سے شروع ہوئی تھی جہاں گزشتہ دنوں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر جعفر ایکسپریس کی روانگی سے قبل ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا اور کئی بے گناہ اپنی جان سے گئے اور کتنے ہی زخمی ہوئے۔ اس درد پر آنکھیں اشکبار تھیں اور دل ابھی بھی دکھی ہے کہ آخر ہمارے بہن بھائی ہی کیوں؟سوال تو اور بھی بہت سے اٹھ رہے ہیں لیکن دل میں گھٹن بھی بڑھ رہی تھی کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک ہی جگہ ایک ہی قومیت کے لوگ اپنے ہی لوگوں کو موت کے حوالے کر دیں وہ بھی اس دردناک طریقے سے۔

جواب میں گیس اور سونے کے ذخائر ابھرتے نظر آ رہے ہیں۔ ہمیشہ گہرائی میں جا کر دیکھا کرو کہ مسئلہ کیا ہے۔ اوپر اوپر سے دیکھنا حماقت ہے جب انسان گہرائی میں جا کر کھوجتا ہے تب ہی مسئلہ اور اس کا حل بھی سجھائی دیتا ہے۔ کسی عقل مند نے کہا تھا اور بہت خوب کہا تھا کہ اصل میں سوال میں ہی جواب چھپا ہوتا ہے بس اسے سمجھنے کی دیر ہوتی ہے۔

بلوچستان ہمارے لیے کبھی ایک خوب صورت خواب کی سی صورت میں تھا، بچپن میں کچھ عزیز وہاں رہے تھے وہ اس جگہ کی خوب صورتی اور سختیوں کو اس انداز میں بیان کرتے تھے کہ ایک سحر سا طاری ہو جاتا تھا۔ لق و دق میدان، بلند پہاڑ، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ، معصوم محنت کش لوگ اور سب سے بڑھ کر خلوص و محبت۔

’’ایک بار ان کو ایک ٹیکسی والا ٹکر گیا، مقررہ کرائے سے زیادہ کی مانگ کرنے لگا انھوں نے پہلے تو پیار محبت سے سمجھانے کی کوشش کی پر وہ نہ مانا پھر انھوں نے ان کا نام لیا (نام ذہن سے محو ہو گیا بس واقعہ یاد ہے) اس نے فوراً معذرت کی اور طے شدہ کرایہ لے کر چلتا بنا۔‘‘بلوچستان کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ آثار قدیمہ کی دریافتوں نے اس علاقے کے بارے میں بہت سی اہم معلومات فراہم کیں، یہاں پتھروں کے دور میں بھی آبادی تھی۔

سات ہزار سال قبل مسیح کے آبادی کے نشانات سے بہت سے اشارے ملے ہیں۔کہا جاتا ہے بلوچستان میں بلوچوں کی پہلی حکومت 1487 میں قائم ہوئی، میر چاکر اس کے سربراہ تھے جس کا دارالحکومت سبی تھا لیکن رند قبیلہ اور لاشاریوں کے درمیان خانہ جنگی کی وجہ سے حکومت بکھر گئی۔ مغلوں کے دور میں براہویوں نے بلوچوں کا تختہ الٹ دیا اور قلات پر ان کی حکومت قائم ہو گئی۔

1749 سے 1870 تک خان میر ناصر کی حکومت رہی اور قلات کی یہ ریاست بلوچ قوم کی اہم ریاست بن کر ابھری۔ ایران اور افغانستان کی بلوچستان کی سرحدوں سے قربت اور آمد و رفت نے بلوچستان کی اپنی شناخت پر ایک تاثر ضرور چھوڑا لیکن در حقیقت بلوچستان کی اپنی شناخت ہے اسے کسی طرح سے ایران یا افغانستان کا حصہ نہیں کہا جاسکتا۔

جب کہ ایران میں بلوچ بڑی تعداد میں آباد ہیں انھیں ایرانی بلوچ کہا جاتا ہے۔ بلوچوں کی آبادی ایران کی کل آبادی کا دو فی صد ہے۔ اسی طرح افغانستان میں بھی بلوچوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ بلوچستان میں جتنی تعداد بلوچوں کی ہے اس سے بڑی تعداد بلوچستان سے باہر آباد ہے تو درست ہوگا۔ آج کے اعداد و شمار کے لحاظ سے معاملات تبدیل ہوتے گئے۔

بلوچستان کی تاریخ کے ساتھ بھارت کا نام کہیں نظر نہیں آتا، البتہ تخریبی عوامل کی موجودگی میں اسے نظرانداز کرنا ناگزیر ہے۔ یہ درست ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سے ہی بلوچستان کے حوالے سے مسائل رہے ہیں لیکن ہمیشہ سے پاکستان اس طرح اندرونی خلفشار کا شکار رہا کہ اسے اس اہم ایشو کو سلجھانے، سمجھنے، سمجھانے کے مواقع ملے بھی تو کبھی سلجھے تو کبھی الجھے۔

لہٰذا رقبے کے حوالے سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ جو ایک لاکھ تینتالیس ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا ہے اس توجہ کا مستحق نہ قرار پایا جس کا وہ حق دار تھا۔کلبھوشن کے مسئلے اور بلوچستان کی سالمیت کے حوالے سے بات کی جائے تو تہ در تہ انکشافات کھلتے چلے جائیں گے جس کا سرا بلوچستان کے لق و دق میدانوں، صحراؤں سے نہیں بلکہ معدنیات، سونے اور گیس کے ذخائر سے جا ملتا ہے۔

 پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی اسے توڑنے کی کوشش میں ملوث بھارت نے کبھی افغانستان میں تو کبھی اپنی سرزمین پر تخریب کاری کے وہ تمام ذرایع جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر پاکستان کو بدحواس رکھا جائے ہر ممکن کوشش کی۔ قدرتی ذرایع سے مالا مال ایک بڑا صوبہ نہ صرف بلوچستان کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے لیکن افسوس سونے کے ذخائر کے ساتھ بھی پاکستان قرضوں میں گھرا مسائل کا شکار ہے جس پر ہر جانب سے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔

قرضہ، توانائی کی کمی، اندرونی خلفشار، سیاسی مسائل، طاقتوں کے توازن میں بگاڑ الجھنیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ خواب سچ ہوں یا جھوٹ ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہم سب کو خواب غفلت سے جاگنا ہوگا ان کو بھی جو مدہوشی میں انگلیاں اٹھا رہے ہیں اور انھیں بھی جن پر اٹھائی جا رہی ہیں کہ اتفاق میں برکت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں