اسلام آباد:
وفاقی محتسب یاسمین عباسی توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے وکیل وفاقی محتسب کو جواب کے لیے مہلت دے دی۔
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سابق وفاقی محتسب یاسمین عباسی پیش نہیں ہوئی جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گزشتہ سماعتوں پر وہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوتی رہی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یاسمین عباسی اب وفاقی محتسب نہیں رہی، ہم کیوں سابق وفاقی محتسب کی طرف جا رہے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا وفاقی محتسب کی کارروائی ہائیکورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر کوئی فورم اختیار کے بغیر کارروائی کرے تو ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ معاملہ ابھی تو غیر مؤثر نہیں ہوا، لاہور ہائیکورٹ کے جج کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔ یاسمین عباسی کو نوٹس کرکے کارروائی سے آگاہ کیا جائے، ہائیکورٹ حکم امتناع کے باوجود وفاقی محتسب مقدمہ چلاتی رہی جبکہ حکم امتناع کے بعد محتسب کی کارروائی توہین عدالت تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس چیئرمین پرسن وفاقی محتسب کو جاری کیا گیا، یاسمین عباسی اب وفاقی محتسب نہیں رہی۔ موجودہ وفاقی محتسب کو نوٹس کر دیں وہ آکر بتا دیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ ہائیکورٹ جج کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے اسکا کیا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چیئرمین محتسب آکر بتا دیں گے وہ معاملہ چلانا چاہتے یا واپس لینا چاہتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج اور وفاقی محتسب دونوں نے ایک دوسرے کو توہین عدالت نوٹسز جاری کیے۔
آئینی بینچ نے وکیل وفاقی محتسب کو معاملے پر ہدایات لے کر جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ وفاقی محتسب کو خاتون کے خلاف ہراسمنٹ کارروائی سے لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج منصور علی شاہ نے روک دیا تھا۔ وفاقی محتسب نے حکم امتناع پر جسٹس منصور علی شاہ کو توہین عدالت اور وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔