فٹ بالر، اداکاراورصحافی۔۔۔۔ جو’سیماب صفت، سیلانی اور کالج بوائے‘ قرار پائے

پاکستانی صحافت کی قدآور شخصیت نادرشاہ عادل مرحوم کی زندگی کی دل چسپ روداد


رضوان طاہر مبین November 03, 2024
پاکستانی صحافت کی قدآور شخصیت نادرشاہ عادل مرحوم کی زندگی کی دل چسپ روداد ۔ فوٹو : فائل

 ’’وہاں کی چوڑی گلیوں میں ہم فٹ بال کھیلتے، وہیں چھے بین الاقوامی فٹ بالر بھی نمائشی میچ کھیلا کرتے، اسی زمانے میں ہم نے ’ہیڈ والی‘ کا تصور دیا، جو پوری دنیا میں اور کہیں نہیں۔ بارش ہوتی تو ایک حصے میں چھے کھلاڑی اور ’نیٹ‘ کی دوسری طرف چھے کھلاڑی، جو سر سے گیند ایک جانب سے دوسری جانب پھینکتے۔ یہاں میرے سامنے کھیلنے والے قومی اور بین الاقوامی فٹ بالر بنے۔۔۔ علی نواز، مولا بخش کوٹھائی، تقی، غلام سرور، محمد شفیع، مولا بخش گوندل، قادر بخش پوتلا وغیرہ۔ غلام عباس بلوچ جو ’فیفا‘ (سندھ ریجن) کے وائس چیئرمین تھے، انھوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ آپ کو فیصلہ کرنا ہے، اگر آپ فٹ بال کھیلیں گے، تو تعلیم متاثر ہوگی، پھر میں نے 1963ء میں صحافت میں کیریئر بنانے کے لیے فٹ بال کو چھوڑ دیا۔‘‘

یہ گفتگو پاکستانی صحافت کی قدآور شخصیت اور روزنامہ ایکسپریس کے سابق ایڈیٹوریل انچارج نادر شاہ عادل المعروف ’شاہ جی‘ کی ہے، جو 27 جنوری 2024ء کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، ہماری ان سے یہ مفصل گفتگو دسمبر 2016ء میں دو طویل نشستوں میں ہوئی تھی، ممکن ہے آپ کو اس میں تشنگی محسوس ہو، کیوں کہ ’شاہ جی‘ تو ماہرانہ تجزیوں، مشاہدات اور تجربات کا ایک بحرِ بے کراں تھے، تاہم یہ مفصل گفتگو ہمارے باذوق قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہوگی، جو اس سے پہلے شائع نہیں ہوئی، سوائے ان چند نکات کے، جو ان کی وفات کی خبر میں ہم نے شامل کیے تھے۔

نادر شاہ عادل نے بتایا کہ 1970-71ء کے زمانے میں ہم لیاری میں ’اسٹریٹ اسکول‘ میں بچوں کو پڑھاتے، پہلی سے پانچویں ایک طرف، چھٹی سے میٹرک سڑک کی دوسری طرف۔ یہ اسکول باہر اس لیے قائم کیا، تاکہ لوگ دیکھیں، پروفیسر کرار حسین یہ ’اسکول‘ دیکھ کر بہت خوش ہوئے، انھوں نے ’لاگ بک‘ میں اپنے تاثرات لکھے کہ میں لانڈھی، کورنگی میں ایک کالج قائم کرنے کا سوچ رہا ہوں، لیکن یہ تجربہ مجھے بہت عجیب اور قابل عمل لگا کہ گلی میں لوگ آ، جا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بچے پڑھ بھی رہے ہیں۔‘ یہاں ’بی اے‘ اور ’ایم اے‘ کیے ہوئے 11 رضا کار استاد پڑھاتے، جن میں صبا دشتیاری پرائمری اور ن۔م دانش بڑی کلاسوں کو پڑھاتے، اسلم بلوچ اور ڈاکٹر عبدالواحد بلوچ بھی اس دستے کا حصہ رہے۔

کئی لڑکوں نے انھی اسکولوں سے پڑھ کر موسیٰ لین، کلری، بہار کالونی، کلاکوٹ اور شیر شاہ تک میں ایسے 14 اسکول قائم کیے، جو مغرب کے بعد رات 10 اور کبھی 12 بجے تک پڑھاتے۔ یہ سب کچھ رضاکارانہ تھا، والد کہتے تھے کہ فلاحی کاموں میں چندہ لینے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، تو کرپشن کے راستے کھل جاتے ہیں۔ یہی چیز ہم نے صحافت میں بھی کی کہ کبھی کسی خبر، مضمون یا تصویر کو چلانے یا روکنے کے لیے ایسا کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا۔ بہ حیثیت صحافی کے ہم وہ سارے طریقے جانتے تھے۔

صحافت میں آنے کے لیے اپنے والدین کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے ابو اسرار عارفی نے بلدیہ اور ’ماہی گیری‘ کو باقاعدہ ’بیٹ‘ بنایا، وہ، اے ایس ملک اور شفیع ادبی ’بلدیہ‘ دیکھتے اور روزانہ فشری جاتے، جہاں جانا  کوئی گوارا نہ کرتا، وہ کہتے اس سے 10 کروڑ زرمبادلہ ملتا ہے، اُسے کیوں چھوڑیں! ان کا یہی ’مشنری‘ جذبہ میں نے بھی لیا کہ صحافت میں معاشرے سے وابستگی اور لوگوں کے مسائل سے قربت محسوس کرتے ہوئے خبریں اور مواد دیا جائے۔ والد نے مجھے نصیحت کی کہ ’صحافی کو کسی عہدے کی تمنا نہیں رکھنی چاہیے۔

ایک صحافی کو صرف ایک میز کرسی درکار ہے، کہ وہ اس پر کالم و اداریہ لکھے، خبر تیار کرے اور فیچر لکھ لے، جب ہاتھوں میں رَعشہ ہو، آپ قلم نہ پکڑ سکیں، نگاہیں لفظوں کو نہ سمجھ سکیں، تو صحافت چھوڑ دیجیے، چاہے پھر آپ کو غربت وعسرت ہی کیوں نہ قبول کرنی پڑے!‘ آج تک وہی تربیت ہے کہ ایک صحافی ’واچ ڈاگ‘ ہے، وہ معاشرے کا ضمیر ہے، معاشرے کی آنکھ، کان اور زبان بھی، اس کا قلم چلنا چاہیے، وہ شائستہ سوالات کرے اور اس کے جوابات سننے کے لیے صبروتحمل کا مظاہرہ کرے، صحافت کی تربیت یہ ہے کہ ایک سوال کے بعد ٹَھک سے دوسرا سوال نہ کیجیے کہ پھر تو وہ مناظرہ ہو جائے گا، سامنے والا سمجھے گا کہ آپ دھینگا مشتی پر آمادہ ہیں۔‘‘

انھوں نے بتایا کہ ’’عوامی شعور کے لیے ’گشتی ڈرامے‘ شروع کیے، ایک انگریزی ڈرامے کا ترجمہ ’ناکام بغاوت‘ کیا، منشیات پر ڈراما ’سستا جیون، مہنگی موت‘ کیا تو اس پر ہارون کالج میں طلبہ یونین کے صدر شفیع مغل (جو سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار بنے) نے یہ ڈراما یونین کے سالانہ پروگرام میں کروایا، اُسے دیکھنے کے لیے فیض احمد فیض بہ حیثیت پرنسپل موجود تھے، انھوں نے ہمیں مشورے بھی دیے کہ ڈراما حقیقت سے قریب تر ہونا چاہیے، اس کی بغیر کیمرے، بنا شائقین مشق کیجیے، تاکہ تصنع دور ہو۔ طالب علمی کی زندگی کا یہ ایک بہت بڑا اعزاز رہا۔

نادر شاہ نے بتایا کہ لیاری میں ’اسٹریٹ اسٹیج‘ پہلے بھی رہا، میں آغا حشر کے دو ڈراموں میں کام کرچکا، محمد ہاشم رنگونی لیاری کے بڑے ڈراما اسٹیج آرگنائزر تھے، انھوں نے ’اسیرِ حرص‘ اور ’سید ہوس‘ میں مجھے ایک کردار دیا۔ ہاشم رنگونی شادی بیاہ کی تقریبوں میں اسٹیج کرتے۔ 1960ء کے زمانے میں لیاری کی بعض شادیوں میں ہفتے کی رات ناچ گانے ہوتے۔ انڈیا کے عبدالرحمٰن کانچ قوال 1970ء کے زمانے میں وہاں آئے۔ بڑے اور چھوٹے صالح محمد اور قدرت اللّہ بھی آئے۔ مولانا جودھ پوری جیکب لائن سے وہاں وعظ فرمانے آتے، وہ لیاری میں انتہائی مشہور تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے آنے تک لیاری ایک ثقافتی گہوارہ تھا۔ جنرل ضیا نے ڈرامے، فٹ بال اور باکسنگ پر روک لگائی۔ یہاں سہولتوں کی فراہمی ویسے نہیں ہوئی، جیسے دوسرے علاقوں میں ہوئی۔ آپ بھٹو صاحب پر لاکھ الزام لگائیں، لیکن اس علاقے میں انھوں نے فراہمی اور نکاسی آب کی لائن، سڑکیں دیں اور پھر پاسپورٹ کی فیس کم ہونا، یہ وہ کام تھے جو لیاری کے لیے نعمت غیرمترقبہ سے کم نہ تھے۔

میں نے اپنی پہلی کہانی ’فادرز فارگیٹ‘ ’ریڈرز ڈائجسٹ‘ سے بہ عنوان ’پشیمانی‘ ترجمہ کی، جو 1960ء کے زمانے میں ’انجام‘ میں چھپی، جس کے مدیر افضل صدیقی تھے۔ میری مَسرّت کا کوئی ٹھکانا نہ تھا، پھر مختلف رسائل سے ترجمے کرتا۔ والد کے کہنے پر ریگل سے کتابیں، رسالے لانے لگا، 15 اور 20 روپے کی بہت موٹی کتابیں مل جاتی تھیں۔

میرا حقیقی کیریئر شوبز سے شروع ہوا، جب ایس اے چاؤلہ نے مجھے ہفت روزہ ’نورجہاں‘ میں لیا، میرے مضامین ’انجام‘ اور ’حریت‘ وغیرہ میں چَھپ رہے تھے۔ اس وقت ’نگار‘ اور ’کردار‘ کے ساتھ یہی تین بڑے فلمی ہفت روزہ تھے۔ اے آر ممتاز انچارج تھے، صفورہ خیری بھی تھیں، چارلٹن ہسٹن (Charlton Heston) پر فیچر بھی تبھی چھپا، عبیداللّہ بیگ اور افتخار عارف وہیں تھے، دونوں نے میری حوصلہ افزائی کی، عبیداللّہ بیگ نے تصحیح بھی کی۔ یہاں 1964ء سے فلمی مضامین ترجمہ کر رہا تھا، چاؤلہ مرحوم امریکا سے دو فلمی رسالے ’فلم اینڈ ریویو‘ اور ’فلم اینڈ کلچر‘ منگاتے، برطانیہ سے ’سائٹ اینڈ ساؤنڈ‘ بھی آتا، مشہور تھا کہ اگر اس میں کسی ڈرامے پر منفی تبصرہ آجائے، تو اس کی ’باکس آفس ویلیو‘ تک گرجاتی ہے۔ اسی رسالے میں باریک بینی سے اداکاری کی ساری چیزیں سیکھیں، جو 1975ء میں انور اقبال کی بلوچی فلم میں اداکاری کی، تو بہت کام آئیں، تب میں ’نوائے وقت‘ میں تھا۔

1970ء کا زمانہ ’اسٹرنگر‘ روزنامہ ’مشرق‘ میں گزرا، جہاں فاروق پراچہ ’سنڈے میگزین‘ جب کہ نسیم شاد فلمی انچارج تھے، مجھ سے ہالی ووڈ کے مضامین لیتے، اس کے ساتھ اسپورٹس بھی کر رہا تھا۔ 1973ء میں بطور ’اسٹاف رپورٹر‘ روزنامہ ’مساوات‘ سے منسلک ہوا۔ اس سے پہلے منیر حسین کے ماہ نامہ ’اخبارِوطن‘ اور ’فلم ایشیا‘ میں آنے جانے کا سلسلہ بھی رہا، منیر حسین کے ہاں مجھ سمیت بے شمار رپورٹروں نے تربیت پائی۔ پہلے ’اخباروطن‘ آرٹ پیپر پر ایک ادبی ماہ نامہ تھا، جو نہ چل سکا، تو اسے کرکٹ کے لیے مخصوص کردیا۔

ان کے پاس کرکٹ کے حوالے سے بہت سا مواد تھا، کرکٹ ٹیم انگلستان جا رہی تھی، بانی ایڈیٹر سراج الاسلام بخاری نے پانچ روپے قیمت میں کرکٹ پر بطور سووینئر چھاپا، ریگل سنیما کے بک اسٹال پر سارا پرچا ایک ہی دن میں بک گیا۔ میں 1977-1978ء میں ’اخباروطن‘ کے ایڈیٹر کی طور پر شامل ہوا، پھر 20 سال یہ سلسلہ رہا کہ کبھی ’جنگ‘ چلا گیا، کبھی ’نوائے وقت، انجام، خبریں اور پھر واپس یہاں، یہ ادارہ میرے لیے کھلا ہوتا تھا۔ ’اخباروطن‘ میں 10 برس شوقیہ لکھا، پھر مجھے 150 روپے فی مضمون ملتے، قمر احمد اور دیگر بڑے لکھنے والوں کو 500، ہزار تک بھی دیتے۔ یہاں میری تنخواہ دو ہزار تھی، جو 1990-91ء میں 10ہزار رہی، جب میں روزنامہ ’پاکستان‘ گیا۔

مساوات پر 1975-76ء کے بعد بُرے دن آگئے۔ ابراہیم جلیس نے مجھے ’پیپلز فاؤنڈیشن‘ کے ہفت روزہ ’نصرت‘ میں بھیجا، جو حنیف رامے نے پیپلزپارٹی کو دیا، اس کے ’حقوقِ اشاعت‘ بیگم نصرت بھٹو کے نام تھے، اس کے پہلے ایڈیٹر فرید احمد نے وہ پرچا چھوڑا تو میں، اسلم شاہد، یاسمین چشتی، شمیم اختر (مقتدرہ قومی زبان والی) قاضی اعجاز عالم، نزہت صادق (جو بعد میں شادی ہو کے کینیڈا گئیں) آٹھ، دس ماہ تک یہ چلایا۔ 1977ء میں صورت حال خراب ہوئی، تو میں روزنامہ ’اعلان‘ میں چلا گیا، امیرالدین بھیا ایڈیٹر اور ایگزیکٹیو ایڈیٹر فضل ادیب تھے۔ مجھے ادارتی صفحہ اور میگزین ملا، یہیں حمیرا اطہر کا کیریئر بھی شروع ہوا۔ یہاں عصمت صابر کامرس رپورٹر تھیں، اردو صحافت میں کامرس کی اُن جیسی ’جِنّات رپورٹر‘ نہیں دیکھی۔

1979ء میں کراچی سے ’نوائے وقت‘ جاری ہوا، تو میں اس کی بانی ٹیم میں تھا، مجھے یوسف صدیقی نے بلوایا، ہمایوں ادیب لاہور سے مدیر آئے تھے۔ خالد اطہر، حاجی مجاہد اور گل محمد فیضی بھی تھے۔ مجھے اسپورٹس اور شوبز ملا، بلیک اینڈ وائٹ تھا۔ اس میں مشین میں ’یلو‘ تیسرا کلر بھی کرلیتے تھے۔

اخبارات کے میگزین کے ’رسالے‘ کی شکل میں آنے کے سوال پر انھوں نے یاد کیا 1980ء کے زمانے میں ’حریت‘ نے ایسا کیا، ورنہ پہلے بڑے بڑے صفحات ہوتے۔ انگریزی میں ’سن‘ اور پھر اردو میں ’حریت‘ نے شروع کیا، اس میگزین کے انچارج انور مقصود اور شمع زیدی تھے۔ میں 1988ء میں ’حریت‘ میں گیا، تو یہ دونوں تھے، میں میگزین کوآرڈینیٹر اور چیف رپورٹر تھا۔

انور مقصود کا کالم بھی چھپتا تھا۔ ’سن‘ کا زمانہ اس سے پہلے 1970ء کی دہائی کا ہے، لیکن پھر سیلاب میں یہ سرخی ’’فیصل آباد ڈوب رہا ہے، لاڑکانہ بچا لیا گیا!‘‘ پر ’سن‘ بند ہوا اور ’حریت‘ پر بھی زد پڑی! ’سن‘ میں شمیم احمد نے بہت تجربے کیے، یہاں ذہانت سے مالامال لوگ تھے، داؤد سبحانی جیسا نام وَر چیف فوٹوگرافر یہاں تھا، ڈیڑھ سال میں ’حریت‘ بند ہوگیا، تو حمید ہارون نے مجھ سمیت سات آدمی روکے، انور مقصود، شمع زیدی، سجاد میر، ابصار علی (اردو نیوز جدہ) وغیرہ بھی تھے۔ چار مہینے تک ہم جا کر بیٹھتے رہے، پھر انھوں نے ہمیں 50 ہزار، 50 ہزار کے چیک دیے۔ زندگی میں پہلی بار مجھے اتنی رقم کا چیک ملا، یہ پورے ڈیڑھ سال کے پیسے تھے۔

میں ’نوائے وقت‘ میں 1979ء تا 1996ء چار مرتبہ آیا گیا، ایک بار استعفا دے کر ’خبریں‘ میں بھی آیا۔ اخبارات میں میرا مختصر دورانیہ ’بدنامی‘ کا باعث بھی بنا، دوستوں نے مجھے ’سیماب صفت‘ قرار دے دیا، کسی نے ’کالج بوائے‘ اور ’سیلانی‘ کہا!

ہم نے استعفے کی وجوہات جاننا چاہیں، تو نادر شاہ عادل نے ادارتی معاملات کو وجہ بتایا کہ جب یہ ہوتا کہ جو چیزیں چھاپی جا رہی ہیں، وہ درست نہیں، کراچی کے قارئین کو اپنے شہر، اپنے زمینی مسائل کے متعلق مواد زیادہ دیا جائے، دوسری جگہ کی غیرمتعلقہ چیزیں بھرنے سے گریز ہو۔ یا میرا اختلاف یہ ہوتا کہ ایسے ’اسائمنٹ‘ پر بھیجا جائے، جو وقت کا ضیاع ہو، ایک خبر پر میرا پورا دن لگے اور خبر بہت کاٹ پیٹ کر چھپے۔ میں نے ہمیشہ خاموشی سے دو سطر کا استعفا دیا ہے، کبھی کوئی جھگڑا نہیں کیا۔

’’وہ وجہ بھی نہیں پوچھتے تھے؟‘‘

’شاہ جی‘ نے بے ساختہ کہا کہ ’’کبھی نہیں۔۔۔ بس ایک مرتبہ ’جنگ‘ میں 1984ء 1983ء میں ایسا ہوا، میر جاوید الرحمٰن کہنے لگے کہ ’جنگ‘ میں کام کرنے کے لیے بہت کرتب دکھانے پڑتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں تو اُسے سب سے بڑا اخبار سمجھ کر آیا تھا، اگر کرتب ہی دکھانے ہوتے، تو میں کسی ’سرکس‘ میں جاتا، جس پر وہ ناراض ہوگئے، میں استعفا دے کر آگیا۔ پھر مجھے میرخلیل نے بلایا کہ آپ کو میں نے رکھا تھا، جاوید الرحمٰن نے تو نہیں! میں نے کہا آپ نے مجھے بلا کر بڑی حوصلہ افزائی کی، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ ابھی ’جنگ‘ میں کام کرنے کے لیے مزید 10 سال دوسرے اخبارات میں تجربات حاصل کرنا چاہییں۔

انھوں نے اصرار کیا، یوں پھر میں وہاں ڈیڑھ سال تک رہا۔ اس کے بعد پھر کبھی مجھے جاوید الرحمٰن نے پریشان نہیں کیا، میں نے یہاں کوشش کی کہ ایسی منفرد خبریں دوں، جو ’جنگ‘ کی باقاعدہ پالیسی نہ ہوں۔ ’وائلڈ لائف‘ کی میری پہلی خبر ’سُرخاب مر رہا ہے!‘ نصیر ہاشمی نے لگائی، تو میر صاحب نے بلوایا، میں سمجھا کہ وہ ناراض ہوں گے کہ یہ کیا تماشا لگا رکھا ہے، لیکن انھوں نے کہا کہ آپ ہفتے میں ایک خبر ’وائلڈ لائف‘ کی ضرور دیں گے۔

’یہ خبریں کہاں شائع ہوتی تھیں؟‘ اس بابت نادر شاہ عادل نے بتایا کہ ہرن، تیتر، کوئل گرگٹ وغیرہ پر یہ خبریں ’سٹی‘ پر چوکھٹے کی صورت میں لگتیں۔ بہت سی خبروں پر کالم نگاروں نے لکھا بھی، شہر میں کوئل نہیں کُوکتی، اس پر نسیمہ بنت سراج نے لکھا۔ پاکستان کے بہت سارے علاقوں کے گرگٹ رنگ نہیں بدلتے، اس پر عبدالقادر حسن نے کالم لکھا، ایک خبر ’’سمندری سانپ زہریلے، مگر شرمیلے‘‘ پر بھی کالم لکھے گئے۔

ان خبروں کے ذریعوں کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ’’سندھ وائلڈ لائف بورڈ اور دوسرا ’زولوجیکل ڈیپارٹمنٹ‘۔ ’وائلڈ لائف بورڈ‘ نایاب اور معدوم پرندوں،

درندوں اور مویشی کی نگرانی کرتے ہیں۔ ’زولوجیکل ڈیپارٹمنٹ‘ ان کی نشوونما، ماحول اور مختلف اقسام کی انسائیکلو پیڈک انسٹی ٹیوشن وغیرہ دیکھتا۔ ’جنگ‘ میں 1984-85ء تک رہا۔ بطور جونیئر اسٹاف رپورٹر میرے پاس چھے ’بیٹس‘ منشیات، جے یو پی، کے ڈی اے، کے ایم سی، فشری تھیں اور ایسی آزادی تھی کہ کوئی بھی خبر دے دیتے، مضامین بھی چھپتے، کراچی کے معروف بشریٰ زیدی حادثے کا ٹریبونل بھی خود کوَر کیا۔

1993ء تک تین، چار سال بیورو چیف ’پاکستان‘ رہا، پھر ’آواز انٹرنیشنل‘ کے لیے لندن بھی گیا، ابھی اس کی ’ڈمی‘ چھپ رہی تھی، ایک ماہ بعد والدہ کی علالت کے سبب لوٹنا پڑا، دوبارہ جانا چاہا، تو برطانوی ہائی کمشنر نے جلد واپس آنے کے سبب دو سال سے پہلے درخواست قبول کرنے سے انکار کیا، یوں دوبارہ نہ گیا۔ مختلف رسائل میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ چلتا رہا، ’مقالۂ خصوصی‘ سے خطبہ استقبالیہ تک بلامعاوضہ سیکڑوں مضامین لکھے۔ 1996ء میں سیاسی ماہ نامہ ’بنیاد‘ نکالا، چھے شمارے نکالے، آخری شمارہ وہ تھا، جب مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہوگیا۔ 1996ء میں محمودصادق نے کراچی سے روزنامہ ’دن‘ نکالا، یہاں بھی کام کرنے کا موقع ملا، سہیل دانش ایڈیٹر تھے۔ دو دن آٹھ صفحے چھاپے، پھر اخراجات زیادہ لگے، تو ایک صفحے کا بلیک اینڈ وائٹ، ایک روپے کا کردیا، جو ایک لاکھ تک پہنچا۔ میں نے کہا قیمت تین روپے اور صفحات چار کردیں، اگر گرے گا بھی تو 50 ہزار تک تو رکے گا، لیکن ان کی سمجھ میں نہ آیا، 1999ء میں جب نوازشریف کی حکومت گئی، تو میں ’دن‘ میں تھا، پھر ’خبریں‘ کراچی سے جاری ہوا، تو اس کا ’ریزیڈنٹ ایڈیٹر‘ بنا، جہاں سے ’دن‘ کے لیے کالم بھی لکھتا۔

نادر شاہ عادل نے بتایا کہ سجاد میر اور عنبرین سہگل نے محمود ہارون کو ایک روپے میں آدھے صفحے کے ایک اخبار ’الیوم‘ کی ’ڈمی‘ دکھائی، تو انھوں نے کہا یہ ہمارے شایان شان نہیں! آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ’الیوم‘ کی ’ڈمی‘ اسی رات ’جنگ‘ والوں کی میز پر تھی اور پھر انھوں نے ایک روپے کا ’عوام‘ اخبار نکالا!

رنگین اخبار ’عوام‘ کے سامنے بلیک اینڈ وائٹ ’قومی اخبار‘ کی مسابقت کا ذکر ہوا کہ جہاں ’شاہ جی‘ نے تین ماہ اداریے اور انگریزی خبروں کے ترجمے وغیرہ کیے، انھوں نے بتایا کہ ’قومی‘ کے بانی الیاس شاکر نے کہا جس کی خبر جنگ، ڈان، نوائے وقت میں نہیں چھپتی، شہر کے اس تاجر، صنعت کار، سیاست داں، کھلاڑی، ماڈل اور بچوں کو ہم ’قومی اخبار‘ میں نمایاں کر کے چھاپیں گے، یہ پالیسی چھا گئی!

2001ء میں ’خبریں‘ سے ’ایکسپریس‘ آگیا، یہاں مدیر نیرعلوی کے زمانے سے جاری ملاقاتوں کے بعد شامل ہوا، تو طاہر نجمی نے کہا شاہ جی! آپ کی فائل بہت خراب ہے، سلطان صاحب کہیں گے کہ وعدہ کرتے ہیں، آتے نہیں، میں نے کہا آپ ان سے کہیں کہ اب میں آیا، تو میں بیٹھنے کے لیے آ رہا ہوں۔ پھر ایڈیٹر انچیف سلطان لاکھانی سے ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا کہ You were never let down my editor یہ وعدہ کریں گے! مدیر طاہر نجمی تھے، میں نے کہا ان شا اللّہ یہ نوبت نہیں آئے گی اور آج تک نہیں آئی۔

میں نے طویل ترین وقت ’ایکسپریس‘ میں گزرا۔ مجھ سے سلطان صاحب نے تین چار بار پوچھا، تو میں نے کہا کہ صحافی میں اگر عزت نفس نہ ہوتو وہ ’بلیک میلر‘ بن جاتا ہے، پھر وہ آپ کے ادارے کے مفادات کو پیش نظر نہیں رکھتا، آپ نے یہاں عزت نفس بحال رکھی ہے، آزاد ماحول ہے، آپ کی مداخلت کم سے کم ہے۔ آپ کے ایڈیٹر بہت شریف انسان ہیں، یہی وجہ ہے کہ مجھے کوئی شکایت نہیں۔ میں یہاں اپنی پوری اننگ کھیل کر چلا جاؤں گا۔‘‘پھر ایسا ہی ہوا نادر شاہ عادل 2021ء میں اپنی علالت کے بعد ’ایکسپریس‘ سے مستعفی ہوئے، تو پھر انھوں نے صحافت کو خیرباد کہہ دیا۔

....

اخبار و رسائل کیسے بند کرائے جاتے تھے؟

’شاہ جی‘ نے بتایا کہ جب ’الجمہوریہ‘ کو ڈبوتے دیکھا، تو مجھے اندازہ ہوا کہ پرچے کیسے ’قتل‘ کیے گئے، کہانیاں تو بہت سنتے تھے، لیکن دو کا میں گواہ رہا، اخبار جہاں 10 روپے کا تھا، تب ’الجمہوریہ‘ ایک رنگین سیاسی جریدہ پانچ روپے میں آیا، اُن دنوں جب بچل لغاری کی شادی میں شرکت کے لیے میں اور سہیل دانش نکلے، درمیان میں حیدرآباد میں اخبار والے سے ’الجمہوریہ‘ مانگا، تو اس نے اندر چھا کر رکھا ہوا تھا، بتایا کہ ہدایت ہے کہ اِسے نمایاں نہیں کرنا!

’’کس کی ہدایت تھی؟‘‘

’’جنگ‘ کی تھی۔۔۔!‘‘ پھر دوسرے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ہمدرد پریس کے سلیم مرزا اور اسلم مرزا نے منیر حسین کے توسط سے مجھے ’امروز‘ بلایا، عزیز ناروی ایڈیٹر تھے، انھوں نے میری تنخواہ 12 ہزار روپے مقرر کی۔ ایڈیٹوریل اور میگزین میرے سپرد ہوا، ’قومی افق‘ اور ’آنچل‘ مشتاق قریشی اس کے ناشر تھے۔ تین دن کے بعد جب پرچا نکلنے والا تھا، تو انور سن رائے نے یہاں شمولیت کی خواہش کی، مشتاق قریشی نے کہا شاہ جی سینئر ایڈیٹر ہیں، اگر وہ کہتے ہیں، تو ٹھیک، ورنہ معذرت۔ میں نے کہا میں پروفیشنل آدمی ہوں، انور سن رائے ایک اخبار نکالنے اور اور اسے چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں، میں نے اپنا نام ہٹوایا کہ ایڈیٹر صرف ایک ہوتا ہے۔

 عزیز ناروی ایڈیٹر انچیف اور آپ ناشر ہیں، میں ایڈیٹوریل دیکھوں گا، اظہار حیدری، مرزا سلیم بیگ اور زبیرمیمن بھی یہاں آئے۔ پھر ’اِمروز‘ کا 40 صفحات کا افتتاحی شمارہ تیار کرایا، جس میں 20 صفحات اشتہارات کے تھے۔ ’اِمروز‘ نے بھی چھوٹے میگزین نکالے، پہلے تو اخبار نہ چل سکا، چار صفحات اور تین روپے قیمت تھی، مشتاق قریشی کی ہدایت پر چار صفحات کا میگزین بنایا۔ 1998ء کے فٹ بال ورلڈ کپ میں فرانس اور برازیل کے فٹ بال میچ پر تبصرہ کیا کہ ہوسکتا ہے کہ برازیل کو زین الدین زیڈان ’قاتلانہ ہیڈ‘ سے شکست دے، اور پھر انھوں نے اپنے سر سے دو گول کیے! ’اِمروز‘ کی اشاعت 24 ہزار تک پہنچی۔ پھر ایک صبح میں دفتر آیا، تو دفتر میں سناٹا۔ پتا یہ چلا کہ پریس کو بلیک میل کیا گیا اور ان سے اپنا کام واپس لینے، ان کے بچوں کے اغوا اور پریس جلانے تک کی دھمکی دی، پھر ’جنگ‘ کی طرف سے رات کو اخبار فروش کی پوری ٹیم آگئی، جو میں نے گھر جانے سے پہلے خود دیکھی۔

صبح ہمیں انور سن رائے نے بتایا کہ اخبار فروشوں نے کہا تھا کہ پرچا پانچ روپے کا نہیں کیا، تو ہم نہیں لے کر جائیں گے! انھوں نے کہا کہ نہیں، تین روپے میں ہم میگزین بھی دیں گے اور ایک سال تک یہ قیمت برداشت بھی کریں گے، اس طرح ’اِمروز‘ بند ہوگیا۔ وہاں سلیم مرزا نے مجھے دو ماہ کی تنخواہ کے چیک دے دیے۔ تو اس طرح ہاکروں کے ذریعے ان دو اخباروں کی موت کا تو میں عینی شاہد ہوں۔

ہم نے پوچھا کہ معروف صحافی عباس اطہر نے بھی لکھا تھا کہ وہ کراچی میں کسی اخبار کی ادارت کے لیے آئے تھے، تو ’جنگ‘ کی جانب سے اس اخبار کے بنڈلوں کو روزانہ اٹھا کر تلف کردیا جاتا؟

’’وہ پرانے ’امروز‘ کی بات کر رہے تھے، یہ نیا ’امروز‘ تھا۔ جب فخر ماتری کا زمانہ ختم ہوگیا، تو ’حریت‘ اخبار کی کاپیاں بھی کھوڑی گارڈن میں پھنکوائی جاتی تھیں۔۔۔ مالک ’ہارون گروپ‘ سمجھتا کہ بِک رہا ہے، لیکن درحقیت وہ تلف کیا جا رہا تھا، 1988ء میں بالآخر ’حریت‘ بند ہوا۔

پہلی بلوچی فلم میں اداکاری!

نادر شاہ عادل نے پہلی بلوچی فلم میں اداکاری کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فلم مکمل ہوئی، لیکن تنازع کا شکار ہو گئی، تین سنیماؤں میں اس کے ’ٹریلر‘ چلنے والے تھے، لیکن سنیماؤں پر حملے اور ردعمل کی بنا پر ممکن نہ ہوسکا۔ لیرک سنیما میں حاکم علی زرداری نے اس کا پریس شو کیا، جس میں لوگوں نے وہاں کی نشستیں خراب کردیں! انوراقبال نے حال ہی میں ’وش‘ چینل پر چلانے کی کوشش کی، ٹریلر کے بعد انھوں نے بھی انکار کردیا۔

’’اس کی کوئی خاص وجہ کیا رہی؟‘‘

انھوں نے بتایا ’’ہمارے سیاسی حلقے اس کے خلاف تھے، انوراقبال صاحب کے والد بلوچستان کے آدمی اور مسلم لیگی تھے اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اس ’وسیلے‘ کچھ ہوجائے، ’بی ایس او‘ ان کے خلاف ہوگئی، لیاری کے کئی سیاسی اور سماجی گروپ بھی آگئے، چاکنگ ہوگئی کہ ’بلوچی زبان کسی فلم کی محتاج نہیں!‘ تو فلم کے تقریباً سارے پرنٹ برباد ہوگئے، صرف ایک ماسٹر پرنٹ ہے، جو ’وَش‘ چینل کے حوالے کیا ہے۔ عطا شاد آئے، انوراقبال سے ان کی بات نہیں بنی۔ انھوں نے عبدالکریم بلوچ سے کہا کہ یہ فلم کو اگر ’پی ٹی وی‘ کو عطیہ کر دیں، تو ہم اسے ’لوک فلم‘ کے طور پر دکھا دیں گے، وہ اس پر تیار نہ ہوئے، مگر پھر عطا شاد نے اس فلم کا دو قسطوں پر مبنی ڈراما ’آپ اور آئینہ‘ چلایا، اس میں شائستہ قیصر اور انور اقبال ہیرو تھے۔ بطور ڈراما تو لوگوں نے دیکھ لیا، لیکن وہ فلم آج تک ڈبے میں بند ہے!‘‘۔

’’رپورٹر خوب کما رہے ہیں۔۔۔!‘‘

’جنگ‘ میں، 1984ء کے زمانے میں نے ایک مرتبہ لیاری کی منشیات پر ایک خبر دی کہ ’لیاری میں منشیات اور ہیروئن سے مرنے والوں کی تعداد گذشتہ دو تین سالوں میں 100 سے تجاوز کرگئی۔‘ حامد سعیدی سٹی ایڈیٹر تھے، انھوں نے کہا کہ آپ ’نوائے وقت‘ سے آئے ہیں، ایک بات یاد رکھیے کہ ’جنگ‘ کی ایک یا ڈیڑھ سطر کی خبر بھی زہر میں بُجھے ہوئے تیر کی طرح لگتی ہے، احتیاط کیجیے، ان کی بات حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ چار سطری خبر ’ایس ایچ او‘ لیاری خواجہ نثار کے سینے پر جا کر لگی، اس نے لیاری کی چار سماجی تنظیموں کو میرے خلاف شکایتی لیٹر لے کر ’جنگ‘ بھیجا۔ محمود احمد مدنی بولے آپ کے خلاف لیاری سے پورا ہجوم آیا ہوا ہے! میرخلیل نے مجھ سے کہا کہ آپ نے یہ خبر لگائی ہے، بڑے ہنگامے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا اگر خبر غلط ہے، تو مجھے معاف رکھیں، میں چلا جاتا ہوں، کہنے لگے، ارے بھائی، میں تو یہ کہہ رہا ہوں، ہمارے ’کرائم رپورٹروں‘ کے خلاف تو کبھی ایسے جلوس نہیں آئے۔

یہ تو خوب کما رہے ہیں ہمارے اخبار میں بیٹھ کر۔۔۔! ارے بھئی، خبریں دیجیے، آپ کو کس نے کہا ہے کہ گھر جائیے! مجھے اس دن میرخلیل الرحمٰن کی پیشہ وارانہ سوچ اور اس اخبار کو ایک ایمپائر تک لے جانے کی طاقت کا اندازہ ہوا۔ بعد میں خواجہ نثار مجھ سے ملنے آئے اور میرے بڑے بھائی جو رکن اسمبلی تھے، ان سے کہنے لگے کہ نادر شاہ نے میرے کیریئر پر حملہ کیا، یہ بڑی زیادتی ہے۔ انھوں نے کہا آپ نے بھی کہا تھا کہ اگر میں لیاری کے ٹَکے کے رپورٹروں کو پانچ ہزار روپے دیتا، تو میری خبر نہیں چھپتی۔‘‘

 سابق ایرانی وزیرخزانہ کا بیٹے لیاری میں آکر پڑا رہا!
میرے والد اسرار عارفی ’انجام‘ میں رپورٹر اور ’سب ایڈیٹر‘ رہے۔ 1970ء میں محمود ہارون نے ’حریت‘ بلا لیا، انھوں نے لیاری کی خاطر صفحات وقف کرائے، انھوں نے 30 سال منشیات کے خلاف تحریک چلائی، جب تک ان کی بینائی رہی۔ ہم بھی ان کے ساتھ جستہ جستہ کام کرتے۔ عبدالستارافغانی اور کئی سیاسی سماجی راہ نما، غلام عباس بلوچ، طارق رحمانی، رفیق بلوچ، یہ سب انسداد منشیات کے رکن تھے۔ کئی مرتبہ منشیات فروشوں نے دھمکیاں بھی دیں، لیکن کبھی ’گینگ وار‘ جیسی صورت حال پیدا نہ ہوئی۔ والد جا کر ان سے مکالمہ کرتے، عبدالستار افغانی اور امام بخش انجینئر وغیرہ بھی جا کر بات کرتے، لیکن وہ کہتے اب ہم کیا کریں، ہمیں تو پولیس والے مار دیں گے، کیوں کہ ان کا بھی مالیاتی گٹھ جوڑ تھا۔ ’گینگ وار‘ کے لوگ جب تک وہاں کے چار تھانوں کو مطمئن نہ کریں، اپنا نظام نہیں چلا سکتے۔

سابق ایرانی وزیرخزانہ عبدالمجید سجادی کے بیٹے کو جب منشیات کے عادی ہونے کی بنا پر امریکا سے نکالا گیا، تو وہ لیاری میں کالا ناگ کے اڈے پر آکر پڑے رہے، والد نے ان کی بحالی کا کام کیا، جب وہ صحت یاب ہوگئے، تو اچانک وہاں سے چلے گئے۔ وہ ’ایم اے‘ فلسفہ اور فارسی کے بہترین شاعر، حسین اور خوب رُو شخصیت کے مالک تھے، انھوں نے ہالی ووڈ میں بہت سی فلموں میں بھی کام کیا۔ ان کا پاسپورٹ ملا تو پتا چلا کہ یہ باتیں درست تھیں۔ فارسی میں ان کا نام وفا الپیرانی تھا، یہ 1972ء 1973ء کا زمانہ تھا، عین ممکن ہے کہ وہ یہاں سے نکل کر دوبارہ نشے میں پڑ گئے ہوں، لیکن وہ یہاں کسی منشیات کے اڈے پر دکھائی نہ دیے۔

چارلٹن ہسٹن سے ’قلمی دوستی‘ اور ملاقات 
معروف امریکی اداکار چارلٹن ہسٹن (Charlton Heston) سے نادر شاہ عادل کی سات سال قلمی دوستی رہی۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے ان پر 11 مضامین لکھے، ان کے 18 خطوط اور چار دستخط شدہ تصاویر بھی ملیں۔ -1983 1982ء میں جب وہ کراچی آئے، تو میں ’نوائے وقت‘ میں میگزین ایڈیٹر اور چیف رپورٹر تھا، امریکی قونصلیٹ میں ڈائریکٹر پبلک افیئرز شیلا اسٹرین نے پریس کانفرنس کے بعد ان سے ملاقات کرائی، وہ افغان پناہ گزین پر فلم بنانے کے لیے مصر سے آئے تھے۔ انھیں دستخط شدہ تصاویر دکھائیں تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اگر میں جلدی میں نہ ہوتا، تو اس نوجوان صحافی سے ضرور تفصیلی گفتگو کرتا۔ دو، تین تصاویر اخبار میں بھی چھپیں، لیکن اب میرے پاس کوئی ریکارڈ نہیں، کیوں کہ بارش ہوئی تو اس میں میری سیکڑوں کتب، والدہ کا پورا کلام اور رسائل سب برباد ہوگئے! میں نے ’ایم اے‘ کے بعد لیاری میں چارلٹن ہسٹن (Charlton Heston) کے نام سے ڈراما سرکل بھی قائم کیا، میں نے ان کی فلم بین ہر (Ben Hur) کی ہدایت کاری، ادا کاری، اسکرپٹ، موسیقی، تدوین اور فوٹوگرافی کو گہری نظر سے دیکھا اور جانا، اداکاری اور تھیٹر کے حوالے سے امریکی اور برٹش قونصلیٹ کے کتب خانے سے کتابیں گھر لاتا۔ سر لارنس اولیویئر، سر جان گلکوڈ، سر لارڈز رچرڈسن اور پالسکو فیلڈ وغیرہ جیسے بڑے اداکاروں کا پورا ڈراما دیکھتا کہ اس کا ایکشن کیا ہے؟ اداکاری کے فن نے مجھے انسان کے شعور، انسان شناسی، پَچھڑے ہوئے لوگوں، امرا، غربا کو مختلف ’پریزم‘ اور عینکوں سے دیکھنے کی مشاہداتی نگاہ تیز کی۔ میں نے مغربی فلمیں ہی دیکھیں، پاکستانی ہندوستانی فلموں میں اس سطح پر کبھی دل چسپی نہیں لی۔ اداکاری کے موضوع پر میرے والد نے ایک کتاب مجھے دی۔ والد ہی نے میری شخصیت کی تعمیر میں مضمر خرابیاں دور کیں۔ رچرڈ بیلسویسکی (Richard Boleslavsky) کی کتاب ’ایکٹنگ‘ پڑھی، یہ ایک بڑی کتاب ہے، جو اداکاری ہی نہیں، بلکہ انسانی معاشرے، شخصیت، اس کی اَقدار، حرکات وسکنات اور اس کی سوچ، پھر کسی کردار کی ادائی کے لیے کس محسوساتی جہنم میں اترنا ہوتا ہے اور کس تخلیق کے دشت میں جانا ہے، بتاتی ہے۔ پہلے میرے والد نے اس کا ترجمہ کیا، جو غائب ہوگیا، پھر میں نے روزنامہ ’مشرق‘ میں اس کا ترجمہ شروع کیا، لیکن تین چار قسطوں کی اشاعت کے بعد وہاں سے میرے ترجمے کا مسودہ بھی غائب ہوگیا۔ 

 مضمون سے متاثر ہو کر استاد نے پکارا تو ٹانگیں کانپ رہی تھیں!
نادر شاہ عادل کے بقول ان کی تاریخ پیدائش 23 اپریل 1948ء ہے، جب کہ دستاویزات میں 1950ء درج ہے۔۔۔ لیاری بغدادی، سیفی لائن میں جنم لیا، زندگی کے 60 سال وہاں گزارے۔ ابتدائی تعلیم سر عبدالرحیم پرائمری اسکول، آتما رام پریتم داس روڈ (شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ)، پھر پانچویں اور چَھٹی گل محمد لائن لیاری اور بہار کالونی کے بن قاسم اسکول سے پڑھی، جس کے بانی پروفیسر سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کے والد آزاد بن طاہر تھے، یہ دونوں بیٹے بھی وہاں ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر بیٹھ کر پڑھتے، جہاں بارش ہوتی، تو ہم دو، دو دن کیچڑ صاف کرتے۔

نویں میں ماڈرن ہائی اسکول (حقانی چوک) میں داخل ہوا، ہیڈ ماسٹر ہاکی کے ریفری اقبال حسین تھے، امیرعباس کلاس ٹیچر تھے، مطالعے کی تربیت میں ان کا بہت اہم کردار رہا۔ ایک دن انھوں نے مضمون لکھوایا، اگلے دن جب مجھے پکارا، تو میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں کہ نہیں معلوم وہ کیا کہیں؟ انھوں نے کہا کہ اس لڑکے کا مضمون سب سے اچھا ہے۔ پوچھا کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا فٹ بال کھیلتا ہوں اور اسکول سے جاتے ہوئے کھوڑی گارڈن سے چھوٹے موٹے رسالے خرید لیتا ہوں۔ انھوں نے کہا اپنی انگریزی پر بھی توجہ دیجیے، وہ انگریزی اور اردو دونوں پڑھاتے تھے۔ اسلامیہ کالج سے ’بی اے‘ اور پرائیوٹ ایم اے (سیاسیات) کیا، میں اور خادم حسین روجھا جو وزیراعلیٰ بلوچستان جام غلام قادر کے خاص آدمی منشی ولی محمد روجھا کے بیٹے تھے، لیاری سے کالج ساتھ آتے۔

میں تب ٹیبل ٹینس بھی کھیل لیتا تھا، ایک دن لائبریری میں کتابیں دیکھنا شروع کیں، تو ایک آواز آئی کہ ’بیٹا کوئی کتاب لے لو، اور سامنے بیٹھ کر پڑھ لو!‘ یہ حسن عسکری تھے، وہاں پروفیسر ممتاز حسین بھی تھے، میں نے وہاں Emergens of Arts لی، اس سے میرا ’وژن‘ بہت بڑھا، مجھے محسوس ہوا کہ فن کی دنیا میں تاریخی ارتقا ایک صحافی کے لیے کتنا مفید ہے، اس کا اندازہ مجھے ’نوائے وقت‘ میں ہوا، جب ’فن کدہ‘ کے انچارج شفیق احمد چھٹی پر گئے اور سجاد میر نے یہ صفحہ مجھے دیا۔ میں نے آدھے صفحے میں غیرملکی مجسمہ ساز، مصوروں اور فن کار، جب کہ دوسرے حصے میں ملکی فن کاروں کو جگہ دی۔ 

’’صبا دشتیاری کو یہ نام میری والدہ نے دیا‘‘
نادر شاہ عادل نے بتایا کہ میری والدہ بلوچی غزل گو شاعرہ تھیں۔ ’بلوچی دنیا‘ اور دیگر بلوچی رسائل میں ان کا کلام شائع ہوا، انھوں نے بلوچی روزنامہ ’زمانہ‘ میں لکھا۔ بلوچستان کے ممتاز ماہرلسانیات ظہور شاہ ہاشمی کا کلام پڑھتے پڑھتے انھیں شاعری کا شوق ہوا۔ صبا دشتیاری کا گھر ہمارے گھر سے متصل تھا، گلی کوچوں میں گھومتے تھے، امی کے پاس آکر وہ گھر کے سارے زنانہ کام برتن مانجھنا، کپڑے دھونا، روٹی پکانا اور سوئیٹر بُننا کرتے۔

اس کے بعد اچانک حیران کن قلبی ماہیت ہوئی، مہدی حسن، اعجاز حسین ہزاروی، فریدہ خانم کی غزلیں سن کر ان کا ذہن بدلا اور پھر انھوں نے ’اسلامک آئیڈیولوجی‘ میں ’ایم اے‘ کیا اور نارتھ ناظم آباد میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے انسٹی ٹیوٹ میں چار سالہ ڈپلوما کیا، اردو ادب میں ’ایم اے‘ کے بعد بلوچستان یونیورسٹی کے لیکچرر ہوگئے، پھر وہ وہاں کی سیاست کی نذر ہوگئے! اماں کا نام بانو دشتیاری تھا، تو اماں نے انھی کی خواہش پر ان کا نام ’غلام حسین گلو‘ سے صبا دشتیاری رکھا۔ ان کی کیا قلبی ماہیت تھی، وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔

سوئیڈن کی ایک جونی نام کی خاتون بلوچی زبان پر ڈاکٹریٹ کر چکی تھیںِ، یہاں تحقیق کے لیے آئیں، ان کی وساطت سے سوئیڈین کی یونیورسٹی میں صبا دشتیاری کے ’ڈاکٹریٹ‘ کی اسپانسر شپ ہو رہی تھی، لیکن موت نے ان کو آلیا! میں نے انھیں منع کیا تھا کہ سیاسی تحریکوں میں گوادر، خضدار اور تُربت نہ جائیں، مگر وہ جنون کی کیفیت میں تھے، کہتے ’بھائی جان، ایسی زندگی کا میں کیا کروں، بہ حیثیت ٹیچر کالج کے طلبہ کی غربت دیکھتا ہوں تو آنسو نکل جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کی زندگی تبدیل ہو۔‘ ان کی تقریریں کچھ درشت ہوئیں اور وہ بے چارے اَجل کے ہاتھوں مارے گئے!

٭  فیض احمد فیض نے ہمارا ڈراما دیکھا اور مشورے دیے ۔ 
٭  طاہر نجمی نے کہا ’شاہ جی! آپ کی فائل بہت خراب ہے!‘ 
٭  جنرل ضیا کے آنے تک لیاری ثقافت کا گہوارہ تھا۔ 
٭  والد نے مجھے نصیحت کی کہ صحافی کو کسی عہدے کی تمنا نہیں رکھنی چاہیے ۔
٭  میر جاویدالرحمن نے کہا ’جنگ‘ میں کام کرنے کے لیے بہت کرتب دکھانے پڑتے ہیں! 
٭  پروفیسر کرار حسین ہمارا ’اسٹریٹ اسکول‘ دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔
٭  صحافت کی تربیت ہے کہ ایک سوال کے بعد ٹھَک سے دوسرا سوال نہ کیجیے ۔
٭   الیاس شاکر نے کہا جسے کہیں جگہ نہیں ملتی، اُسے ہم نمایاں کرکے چھاپیں گے! 
٭  جنگلی حیات پر میری دی گئی دل چسپ خبروں پر کئی کالم لکھے گئے ۔
٭  صحافی میں عزتِ نفس نہ ہو تو وہ بلیک میلر بن جاتا ہے ۔
 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں