امن کی شدید ضرورت

عالمی جنگوں کے بعد کی دنیا اتحادی فاتحین کی ترتیب دی ہوئی دنیا ہے۔


عبد الحمید November 01, 2024
[email protected]

آج کی دنیا ترتیب دینے میں مسلم دنیا کا کوئی حصہ نہیں ہے۔آج ورلڈ آرڈر اور نیو ورلڈ آرڈر کی جو بات ہوتی ہے،یہ اظہار میں تو ضرور جدید ہے لیکن حقیقت میں انسانی تاریخ کے ہر دور میں ورلڈ آرڈر موجود رہا ہے۔ہر زمانے کی غالب قوتیں اپنی مرضی سے یہ بساط بچھاتی چلی آئی ہیں۔تین ساڑھے تین ہزار سال قبل مسیح میں ورلڈ آرڈر پہلے بابل اور بعد میں آشوریا کی زور آور قوتوں کا بچھایا ہوا تھا۔فراعنۂ مصر نے اپنے دور میں اپنی مرضی سے ورلڈ آرڈر دیا اور کسی دوسری سلطنت کی مجال نہیں تھی کہ وہ ان کی غالب قوت کے آگے دم مار سکے۔قیصر و کسریٰ کے جابر سلطانوں نے اپنے زمانے میں اپنی اپنی مرضی سے ورلڈ آرڈر ترتیب دیا۔یہ ایک بائی پولر ورلڈ آرڈر تھا جو ساتویں صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں تک قائم رہا۔ساتویں صدی کی ابتدا میں عرب کے ریگزاروں سے اسلام ایک قوت بن کر نکلا اور بائی پولر ورلڈ کی غالب قوموں کو پچھاڑ دیا۔اس کے بعد اگلے آٹھ سو سال دنیا کے نظم کو مسلمانوں نے ترتیب دیا۔اس عرصے میںدنیا کی شطرنج کی بساط مسلمانوں نے بچھائی۔یہ ایک یونی پولر ورلڈ تھی اور یہ کم و بیش سولھویں صدی عیسوی تک غیر متبدل جاری رہا۔مسلمانوں کی علم و ادب اور سائنس کے میدان میں شاندار خدمات سے یورپ میں تحریکِ احیائے علوم نے زور پکڑا اور یورپین معاشرہ اندھیروں سے نکل کر علم کی روشنی میں نہانے لگا۔

 قرونِ وسطیٰ کے یورپ نے تحریکِ احیائے علوم کی وجہ سے زبردست انگڑائی لی۔استنبول بازنطینی عیسائی سلطنت کا دارالخلافہ اور علوم و فنون و قوت کا مرکز تھا۔سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں یہ عظیم شہر ،جب مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو یہاں کے غیر مسلم علماء اپنی، مسلمانوں اور دنیا کے دوسرے علماء کی کتابیں لے کر یورپ کی طرف نکل گئے۔اس وقت تک بائیبل عیسائی علماء کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں ہونا گناہِ کبیرہ تھا۔عام عیسائی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کی مذہبی کتاب میں کیا لکھا ہے۔جب یہ علماء یورپ کی طرف نکلے اور اپنے ساتھ مذہبی اور دوسری کتابیں لے کر گئے تو یہ کتابیں عام آدمی کی دسترس میںآئیں اور ان کو یہ موقع ملا کہ وہ مذہبی اوردوسری کتابوںکا مطالعہ کر سکیں۔اس طرح بہت سا علم عام آدمی کے پاس پہنچا اور تحریکِ احیائے علوم بپا ہوئی۔جب علم کے خزینے عام آدمی کی دسترس میں آئے تو اندھیروں میں ڈوبے یورپ کی کایا پلٹ گئی۔ Advancement of Learningکا دور شروع ہوا۔اسی کی وجہ سے پروٹسٹنٹ تحریک شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ معاشرے پر مذہب کی گرفت نہ صرف ڈھیلی پڑی بلکہ مذہب اور ریاست بہت حد تک جدا ہی ہو گئے۔یورپ جو اب تک محض ایک زرعی معیشت تھا وہ اپنی پیداوار بڑھانے کی تگ و دو کرنے اورضرورت سے زائد پیداوار بیچ کر کمانے کی فکر کرنے لگا۔نت نئے نئے طریقے ڈھونڈے جانے لگے تاکہ پیداوار بڑھائی جا سکے۔جمود کا شکار یورپی معاشرہ حرکت میں آ گیا۔سائنسی فکر کو بڑھاوا ملا۔وافر زرعی پیداوار کے ساتھ یورپ ٹیکسٹائل مشینری کی طرف بھی توجہ دینے لگا۔

 زرعی انقلاب کے بعد یورپ صنعتی انقلاب کی جانب بڑھ گیا۔اشرافیہ کے ساتھ فیکٹریوں میں کام کرنے والے ورکروں کو بھی مشاہرہ ملنے لگا اور ان کی زندگی میں آسانی آنے لگی۔ان کی قوت خرید بڑھ گئی۔یورپ کے سائنس دانوں نے صنعتی انقلاب کو کامیاب بنانے میں بہت محنت کی۔ایجادات نے معاشرے بدل دئے۔گن پاؤڈر کی ایجاد نے لڑائی کی نوعیت ہی بدل دی۔دو بدو لڑائی کم ہوتی گئی اور بندوق سے لڑائیاں لڑی جانے لگیں۔اس دور میں یورپ کے تاجر ایشیا،افریقہ،امریکا اور آسٹریلیا کی طرف نکل گئے۔انھوں نے عرب تاجروں کی جگہ لے لی اور خوب کمایا۔

اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی تک ایک وقت ایسا بھی آیا جب افریقہ اورایشیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جو یورپین نو آبادی بننے سے بچ گیا ہو۔بیسویں صدی عیسوی میں یورپ دو عالمی جنگوں کی لپیٹ میں آیا لیکن ان جنگوں کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوا۔سلطنتِ عثمانیہ جو یورپ،افریقہ اور ایشیا کے تین برِ اعظموں پر پھیلی ہوئی تھی،اس عظیم سلطنت نے اتحادیوں کے خلاف محوری قوتوں کا ساتھ دیا۔محوریوں کو شکست ہوئی تو سلطنتِ عثمانیہ بھی مفتوح ہو گئی۔ مسلمانوں کو جنگِ عظیم اول میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست سے جو نقصان ہوا وہ تاریخ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا نقصان تھا۔

 عالمی جنگوں کے بعد کی دنیا اتحادی فاتحین کی ترتیب دی ہوئی دنیا ہے۔وہ اس کو ورلڈ آرڈر کہتے ہیں۔یہ ورلڈ آرڈر کمزور اقوام خاص کرمسلمانوں کو فاتحین کے زیرِ دست کرنے کا منصوبہ ہے۔اس منصوبے کے تحت سب سے پہلے سلطنتِ عثمانیہ کے اس طرح ٹکڑے کیے گئے کہ وہ آیندہ یورپ کے لیے چیلنج نہ بن سکے۔عربوں نے مسلمان عثمانی حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ فلسطینی مسلمانوں نے یہودیوں کو اپنی زمینیں بیچیںجس سے اسرائیل کا قیام ممکن ہوا۔اگر فلسطینی مسلمان،یہود اور مغرب کا ہاتھ نہ بٹاتے تو یہ کبھی بھی ممکن نہ ہوتا۔

 دوسری جنگِ عظیم کے بعد مغرب کی غالب اقوام نے کچھ ایسی بساط بچھائی ہے کہ اب مسلمان اٹھ نہیں سکتے۔مغربی استعمار اسرائیل کی پشت پناہی کر کے مسلمانوں کو اپنی انگلیوں پر نچا رہا ہے۔بھارت نے ملک کے اندر مسلمانوں کا جینا دوبھر،اور ساتھ ہی کشمیری مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کیا ہوا ہے۔آپسی جھگڑوں اور فرقہ پرستی نے ان کی جڑیں کھوکھلی کی ہوئی ہیں۔اگر بغور دیکھا جائے تو پاکستان تین چار عشروں سے حالتِ جنگ میں ہے۔ ایران ،آذربائیجان، عراق، یمن، شام، لبنان، فلسطین، تیونس، لیبیا، الجزائر،نائیجیریا حتیٰ کہ ترکی یعنی ہر جگہ بد امنی اور جنگ جیسی صورتحال ہے۔امن نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان اپنی توانائیاں ضایع کر رہے ہیں اور اغیار اپنا ایجنڈا،مسلط کیے ہوئے ہیں۔مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ اس وقت ان کی سب سے بڑی ترجیح امن کا حصول ہونا چاہیے۔خدا کرے کہ مسلمان وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور جھگڑوں و جنگوں سے بچ کر اپنے اپنے ملک کو مضبوط قوت میں ڈھالیں۔اگر یہ انہونی ہوجائے تو مستقبل مسلمانوں کا ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں