سارے رنگ

ماں، باپ کی ’فضیلت‘ یا ’مجبوری‘ تو مذہب اور سماج کے توسط سے ہر لمحہ ہمارے سامنے رہتی ہے۔


Rizwan Tahir Mubeen October 06, 2024
فوٹو : فائل

بھانجے بھتیجوں کا المیہ!

خانہ پُری

ر ۔ ط ۔ م

ہماری زندگی کی سب سے قیمتی متاع ماں اور باپ ہوتے ہیں۔ جب ہم دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں، تو ہماری زندگی انھی دو ہستیوں کے گرد گھومتی ہے، ساتھ ساتھ ہمارے بہن بھائی بھی اس دائرے میں آجاتے ہیں، لیکن چوں کہ بہن بھائی لگ بھگ ہم عمر ہی ہوتے ہیں، تو ماں، باپ کے درجے کے ساتھ ساتھ، یا اس کے بالکل متوازی کہہ لیجیے ایک دائرہ ماں، باپ کے بہن بھائیوں کا بھی آجاتا ہے، جس میں خالہ، ماموں، پھوپھی، چچا اور تایا شامل ہو جاتے ہیں، بعضے وقت ان میں والدین کے رشتے کے بہن بھائی بھی ہمارے ماموں اور چچا وغیرہ بن جاتے ہیں۔ ان سے ہمارا رشتہ بالترتیب بھانجے اور بھتیجے کا ہوتا ہے۔

یوں ہماری پیدائش کے ساتھ ہی ہمیں اپنے والدین کے ان بہن بھائیوں کی والہانہ محبت اور ایک نہایت پرخلوص ساتھ میسر ہو جاتا ہے۔ ہمار ے دنیا میں آنے کی سب سے زیادہ خوشی ہمارے والدین کے بعد انھی کو ہوتی ہے۔ پھر کم سنی میں ماں، باپ اگر ہم پر سختی کرتے ہیں، تو یہی خالہ، ماموں، پھوپھی اور چچا، تایا ہی ہماری حمایت کرتے ہیں، ہمیں اپنی گودوں میں کھلاتے ہیں، اپنے ساتھ گھماتے پھراتے اور خوب عیش کراتے ہیں اور کبھی تو ہمارے ساتھ خود بھی بچے بن کر رہتے ہیں۔

چاہے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، ہم ان کے لیے اپنے بچے کی طرح ہی ہو جاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہماری پیدائش کے بعد انھیں اس رشتے کا درجہ ملا ہوتا ہے، تو پھر ہماری اہمیت اور قدر اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ والدین تو چلیے پھر ہمارے ساتھ رہتے ہیں، ہماری دیکھ بھال کرتے ہی ہیں، لیکن یہ شخصیات جو ہمارے ماں، باپ تو نہیں ہوتے، لیکن اس کے باوجود ہم ان کی گودوں میں کھیلتے ہیں، یہ ہمارے دکھ سکھ میں کسی بھی طرح والدین سے کم فکر مند نہیں ہوتے۔ ہم شیرخوارگی کی عمر میں ان کے کپڑے بھی گندے کردیتے ہیں، لیکن یہ کبھی تیوری پر بل نہیں لاتے، کبھی گھن نہیں کھاتے، اپنی مصروفیات چھوڑ کر ہمیں وقت دیتے ہیں۔ کبھی ہمارے ماں، باپ کی سہولت کی خاطر ہمارے والدین کے یہ بہن، بھائی ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، تو کبھی فقط اپنی محبت اور تعلق نبھانے کی خاطر ہمیں سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔

پھر جب ہم بولنا شروع کرتے ہیں، تو پھر والدین کی طرح ہم ان سے بھی 'باتیں کرتے' ہیں، اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ہم اپنی خالہ، ماموں، پھوپھی اور چچا، تایا کے نام بھی لینے لگتے ہیں۔ ذرا تصور میں لائیے کہ یہ کیسے جی اٹھتے ہیں کہ ہم ان کی سگے بچے بھی نہیں، پھر بھی کم یا زیادہ یہ ہماری نگہ داشت، دیکھ بھال، دکھ بیماری اور تکلیف میں وہ ہمارے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ کبھی ہم سو نہیں پا رہے تو ہمیں سُلانے کے جَتن، کبھی رو رہے ہیں تو بہلانے کی تگ ودو۔ جس کی جتنی استطاعت ہوتی ہے وہ بھانجے بھتیجوں کو اتنا وقت بھی دیتا ہے اور ان پر اپنی خوشی سے خوب خرچ بھی کرتا ہے۔

پھر وقت گزرتا ہے یہ بھانجے بھتیجے بڑے ہونے لگتے ہیں۔ بڑے سے مراد کہ واقعی اتنی عمر کہ ان کا بچپنہ باقی نہیں رہتا، لیکن جس کے لیے وہ بھانجے، بھتیجے ہوتے ہیں، اس کے لیے تو ویسے ہی بچے رہتے ہیں۔ عمر کا کتنا کم فرق ہی کیوں نہ ہو، لیکن جس نے آپ کو گود میں لیا ہے، اس کے لیے تو آپ وہی ننھے منے سے وجود کی طرح رہتے ہیں۔ وقت بدلتا ہے، تو پھر طور طریقے بھی بدل جاتے ہیں۔

ماں، باپ کی 'فضیلت' یا 'مجبوری' تو مذہب اور سماج کے توسط سے ہر لمحہ ہمارے سامنے رہتی ہے۔ پھر وہ تو رہتے بھی ہمارے ساتھ ہیں، اس لیے ہم عموماً انھیں نہیں بھولتے، لیکن جن کے ہم بھانجے اور بھتیجے ہوتے ہیں، جنھیں کبھی ماموں اور خالہ کہا ہوتا ہے، جنھیں پھوپھی، چچا اور تایا کے رشتے سے جانا ہوتا ہے، ان سے ہمارے فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ فاصلے بڑھنے سے مراد یہی ہے کہ ہمارے رویوں میں فرق آجاتا ہے۔ طور طریقوں اور تعلق میں بے تکلفی کے بہ جائے ایک تکلف اور سرد مہری آجاتی ہے۔

بھانجے اور بھتیجے بھول جاتے ہیں کہ وہ کس کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔۔۔؟ یہ تو وہی ماں، باپ کے بہن بھائی ہیں، جو کبھی اپنی گودوں میں لیے رہتے تھے، اسکوٹر پر سیر کراتے تھے، تو کبھی اپنی گاڑی میں بٹھائے دوڑتے تھے، کبھی اپنے کاندھے پر سوار رکھتے تھے، کبھی ہماری مسکراہٹ کی خاطر خود پر سواری کراتے تھے، کبھی کوئی کھلونا لے کر دیر تک آپ کے ساتھ بچے بنے کھیلتے رہتے تھے اور بغیر کسی آسرے کے وہ سب آپ پر لٹا دیتے تھے۔

آج ظاہر ہے ہم بڑے ہوگئے، تو بس ہمارے لیے ماں، باپ بہت کافی ہیں، اس لیے ہم کم سنی میں جن کے کپڑوں پر پیشاب کردیا کرتے تھے، اور وہ 'کوئی بات نہیں' کہہ کر اپنے ہی نہیں ہمارے بھی گندے کپڑے بدل دیا کرتے تھے۔ آج ان کو سامنے سے آتا ہوا دیکھ کر کان سے موبائل لگا کر تیزی سے 'کٹ لیتے' ہیں۔۔۔! وہ جو ہمارے ننھے سے وجود کو 'ڈکار دلانے' کے لیے دیر تک 'فارغ بنے' ہماری کمر ہی کو تھتھپاتے رہتے تھے، آج ہمیں ان سے سلام دعا کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔۔۔! کبھی مجبوری میں سامنا ہو تو سرد لہجے اور مردہ گرفت سے ہاتھ ملا کر چھڑاتے ہیں اور اپنا پَلو بچاتے ہیں۔ کوئی تو ایسے ہیں کہ بات کرتے ہیں تو بلا آسرا ان کی دل آزاری کرتے ہیں، اور جذبات کو خوب ٹھیس پہنچاتے ہیں۔

اس بدل جانے والے رویے کی وجہ اور تُک سمجھ میں نہیں آتی۔ ایسا نہیں ہوتا کہ خدانخواستہ رشتوں میں ناچاقی در آئی یا اختلاف ہوگئے ہیں، بس اب 'بڑے' جو ہوگئے ہیں، تو ہمارے بڑے شاید 'چھوٹے' ہوگئے۔ چناں چہ یہ شان کے خلاف محسوس ہوتا ہے کہ ہم ان کی خیر خیریت لیں، خیر خیریت دیں یا ان کے آگے آکر سر خم کریں۔

یوں بھی جو اپنے رشتے داروں کے بچوں کی شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ارے فلانے کے بچے ایسے اور فلانے کے بچے ویسے ہیں، تو جان لیجیے کہ وہ 'فلانہ' آپ کے پیچھے آپ کے لیے باتیں ہی ایسا کرتا ہے کہ پھر 'بچے من کے سچے' اپنے والدین کی طرح آپ سے منافق بن کر نہیں مل پاتے اور وہی اپنے اصلی پن یعنی ٹھیڑے منہ اور اجنبی انداز سے پیش آتے ہیں۔ یہی ان کے بڑوں کی اصلیت ہوتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے، نفسانفسی کے اس دور میں ہر ایک کے خاندان میں ایسی مخلوق پائی جاتی ہوگی کہ جس سے سوائے اس کے کوئی نسبت نہ ہوگی کہ وہ آپ کا خونی رشتے دار یا کوئی نام نہاد 'فرسٹ کزن' ہوگا، جب کہ یقیناً کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے کہ جن سے دور پرے کا بھی کوئی رشتہ نہ ہوگا، لیکن وہ آپ کے ان خون کے رشتوں سے کہیں زیادہ تعلق نبھانے والے ہوں گے۔

۔۔۔

عدل و انصاف اور قانون کی حکم رانی
حکیم محمد سعید
حقیقت یہ ہے کہ ذہنی دبائو جس کا چرچا آج عالم میں ہے کوئی مرض نہیں، بلکہ ایک داخلی کیفیت و علت ہے اور ضمیر کی کشمکش ہے۔ اس سے معاشرے کے ان افراد کو زیادہ سابقہ پڑتا ہے کہ جو کسی نظام میں اپنے فرائض و منصب کی حیثیت سے کلیدی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ بہ ایں ہمہ یہ بات نہیں ہے کہ عام لوگ ذہنی دبائو کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ بھی ہوتے ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ عام لوگوں کے ذہنی دبائو کے اثرات محدود ہوتے ہیں، لیکن منصب کے حوالے سے اہم ذمے داریاں رکھنے والوں کے ذہنی دبائو کے اثرات صرف اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ ایک پورے نظام حیات اور اجتماعی زندگی پر محیط ہوکر اس کی تعمیر اور عدم تعمیر کے موجب بنتے ہیں۔

آج پاکستان میں صورت حال یہ ہے کہ شاید ہر انسان کسی نہ کسی طرح ذہنی دبائو میں مبتلا ہے۔ ایک بے چینی ہے کہ جو ہر سطح پر محسوس کی جا رہی ہے، سب سے زیادہ ذہنی دبائو میں صاحبان سیاست و اقتدار ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کا ضمیر بیدار ہوا ہے اور وہ نہایت شدت کے ساتھ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان سے پے در پے غلطیاں ہوئی ہیں۔ انھوں نے فرائض ادا کرنے میں دیانت کو راہ نما نہیں بنایا ہے۔ عوام میں بیداریاں آئی ہیں اور وہ اب جانتے ہیں کہ ارباب ریاست اور صاحبان اقتدار صراط مستقیم سے ہٹ گئے ہیں اور تعمیر پاکستان سے غافل ہوگئے ہیں۔ عوام ہر سطح پر ایک ذہنی دبائو میں ہیں اور ایک انقلاب چاہتے ہیں، ایسا انقلاب جو دیانت و امانت کا عنوان ہو اور صداقت کا آئینہ دار ہو۔ اس صورت حال کی پوری ذمے داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے، جو مناصب پر قابض ہیں، مگر فرائض سے غافل ہیں۔

۔۔۔

صد لفظی کتھا
ناراض
ر۔ط۔ م
کسی بات پر اُسے بہت زیادہ رنج پہنچا۔۔۔ اور وہ ناراض ہوگیا۔
لیکن اِس طرح تو اُسے مزید اذیت میں مبتلا ہونا پڑا۔
اُس سے رہا نہ گیا، اُس نے اظہارِناراضی کر ڈالا۔۔۔
مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا۔
الٹا اس کی تکلیف کی شدت اور بڑھ گئی۔
آخر ازخود اپنی شکایت بھی بتائی۔
لیکن تکلیف تھی کہ مزید شدید ہوگئی۔
آخر ہار کر اُسے خود ہی ''غلطی'' تسلیم کرنی پڑی۔۔۔!
اور دوسری طرف سے طعنے تشنے بھی سننے پڑے۔
اب تو اس کی تکلیف ناقابلِ برداشت ہو گئی تھی۔
آخر اس نے ناراض ہونا ہی چھوڑ دیا۔۔۔!

۔۔۔

ہندوستان اور اچانک حملہ
احمد ندیم قاسمی

آج کل ہندوستان کی لوک سبھا میں پاکستان پر بہت توجہ صرف کی جا رہی ہے۔ دراصل اب تو غیرملکی مبصرین ہندوستان کے اندرونی حالات کا اندازہ اس امر سے لگاتے ہیں کہ وہاں کی لوک سبھا میں پاکستان کا ذکر کتنی بار آیا ہے۔ اگر بار بار آیا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کے اندرونی حالات بہت خراب ہورہے ہیں اور وہاں کی حکومت، پاکستان کی طرف سے خطرات کا ذکر کر کے عوام کو ان کے اندر سے باہر نکالنا چاہتی ہے اور ان کی توجہ بٹانا چاہتی ہے۔ ویسے عالمی مبصرین کا یہ اندازہ کچھ ایسا غلط نہیں ہے۔

دیکھ لیجیے کہ جب بھی ہندوستان میں بھوکوں کے جلوس نکلنے لگتے ہیں اور ہڑتالیں ہوتی ہیں اور اناج کے گودام لوٹے جاتے ہیں، انھی تاریخوں میں ہندوستان کے لیڈر پاکستان کے خلاف غیر معمولی بلاغت سے کام لیتے پائے گئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب سابق وزیرخارجہ، حال وزیر دفاع مسٹر سورن سنگھ اور سابق وزیردفاع، حال وزیر داخلہ مسٹر چوان لوک سبھا میں پاکستان پر برسے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کے اندر بہت شدید گڑ بڑ ہے اور کون نہیں جانتا کہ واقعی بہت شدید گڑ بڑ ہے۔

لوک سبھا میں جن سنگھ کے ایک نمائندے پرکاش ویر شاستری ہیں۔ اگرچہ ان شاستری صاحب کا نام لال بہادر شاستری کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے مگر یہ دوسرے شاستری ہے۔ انہوں نے لوک سبھا میں ایک تحریک پیش کی جس پر تقریر کرتے ہوئے مسٹر سورن سنگھ نے انہیں یقین دلایا کہ پاکستان اور چین کی سرحدوں پر متعین فوجوں کو بہت چوکس رکھا جارہا ہے۔

''تاکہ دشمن اچانک حملہ نہ کردے!'' اس ''اچانک حملے'' کا پس منظر یہ ہے کہ اگرچہ اس قسم کے حملوں کا ذکر تاریخ کی پرانی کتابوں میں آیا ہے اور ترقی یافتہ بیسویں صدی میں اس قسم کا حملہ انتہا درجے کی بداخلاقی اور بدتہذیبی میں شمار ہوتا ہے، مگر ہندوستان قوت و اقتدار کے معاملے میں فی الحال چودہ، پندرہ صدیاں پہلے کے دور سے گزر رہا ہے۔ اس لیے وہ اچانک حملے سے نہ صرف ہراساں رہتا ہے بلکہ اچانک حملہ کرنے کا تجربہ بھی کرچکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تجربہ کر کے بھگت بھی چکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں