ایم کیو ایم کی بنیادی تربیت
کسی بھی تحریک یا تنظیم خواہ سیاسی ہو، سماجی ہو یا اصلاحی پہلو رکھتی ہو اس کو چلانے کی پہلی
کسی بھی تحریک یا تنظیم خواہ سیاسی ہو، سماجی ہو یا اصلاحی پہلو رکھتی ہو اس کو چلانے کی پہلی ضرورت اس کی معاشی سپورٹ ہوتی ہے، اس زمینی حقیقت سے انکار نہیں کہ بغیر پیسے کے ایک تنکا بھی ادھر سے ادھر نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں اتنے بڑے پروگرام جن کا ایم کیو ایم گاہے بگاہے انعقاد کرتی رہتی ہے یقینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جب کہ یہ ایک غریب اور متوسط طبقے کی جماعت ہے۔ لیکن وہی باتیں جن کا مذاق اڑایا گیا، جنھیں تعصب پرستی قرار دیا گیا، لیکن جب گھر میں آگ لگنے لگی تو پھر اس وقت اور نامساعد حالا ت نے اس تحریک کے مقاصد کی تشریح کی جس پر نہ سننے والوں نے بھی اب الحمد اللہ اس بات کو تسلیم کر لیا اور پھر ہر طبقہ فکر کے ساتھ ساتھ اہلِ ثروت نے بھی اس میں قدم رکھ دیے۔
ایم کیو ایم کی اصل بنیاد قیادت کی وہ تربیت ہے جس میں کارکن کو گفتگو کے اسرار و رموز سے واقفیت، بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے پیار، اٹھنے بیٹھنے کے آداب، محفلوں میں نظم و ضبط بر قرار رکھنے کے طریقوں کے علاوہ اپنی مدد آپ کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی لیے جب کسی بھی سطح کے کارکن کو تحریک کا مقصد اور اس کی رُوح سمجھ میں آ جاتی ہے تو پھر وہ ایم کیو ایم کے اس نیٹ ورک کا حصہ بن جاتا ہے۔ جسے ایم کیو ایم کا ڈھانچہ کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح انسانی جسم کے ڈھانچے کا ہر عضو ایک ردھم میں کام کرتا رہتا ہے، ہاتھ پائوں اپنا کام کرتے ہیں، آنکھ، کان، ناک اپنا اور یہ سب دل و دماغ کے تابع۔۔۔ کچھ ایسی ہی ہارمونی ایم کیو ایم کے ورکروں میں ہے اور یوں ایک حیات رواں رہتی ہے۔
کسی بھی پروگرام سے پہلے ہر سطح کے رکن کو اپنی ذمے داری معلوم ہوتی ہے کہ اپنی مدد آپ کے تحت سب کچھ خود ہی کرنا ہو گا۔ ہمدرد کی سطح سے کارکن، کارکن سے یونٹ اور یونٹ سے سیکٹر کی سطح تک ہر رکن اپنی جیب اور استطاعت کے مطابق اپنا حصہ ڈالتا ہے، اس تحریک میں 'تم اور میں' کا تصور نہیں بلکہ ''ہم'' کا صیغہ کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ کارکن مرد ہی نہیں خواتین بھی ان معاملات میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اپنے گھر کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے بجٹ میں تحریک کے لیے ماہانہ رقم مختص کرتی ہیں۔ اسی طرح بڑے سے بڑے پروگرامز میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں کیونکہ ہر پروگرام ایک معنویت رکھتا ہے اور اپنی جگہ اہمیت لے کر آتا ہے۔ مثلاً جون کے ابتدائی ہفتے میں قائد تحریک پر حکومت برطانیہ کی جانب سے غیر ضروری عدالتی تحقیقات و تفتیش کا دبائو کارکنان پر گراں گزر رہا تھا ۔
عدالتوں کا احترام اپنی جگہ لیکن اس رویے کے خلاف مزار قائد کے پہلو میں کارکنان نے غیر معینہ مدّت کے دھرنے کا اعلان کیا جس میں نہ صرف مرد و خواتین بلکہ بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ پانچ دن اور چھ راتیں یہ دھرنا جاری رہا۔ یہ سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت تھا، خواتین گھروں سے کھانے پکا کر لا رہی تھیں۔ مرد پانی اور دیگر ضروریات کے انتظام کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی کی ذمے داری بھی انجام دے رہے تھے۔
بہت سے ہمدرد اور محبت کرنے والوں نے تو دسترخوان بچھا دیے کیونکہ اب عوام بھی اس بات کو جان چکے ہیں کہ ایم کیو ایم کے تمام دھرنے، مظاہرے اور احتجاج پر امن ہوتے ہیں اور توجہ مبذول کرانے کے لیے اپنے اس سیاسی اور جمہوری حق کو استعمال کرتی ہے۔ اس دھرنے میں بھی کارکنان نے غیر معینہ مدت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شہر کے امن اور شہریوں کی سہولیات کو بھی پیش نظر رکھا، ٹریفک کے لیے راستہ چھوڑا گیا تھا، اسپتال جانے والے راستوں میں ایمبولینس کے لیے راہداری چھوڑی گئی اور یہ رویہ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ دوست تو دوست، مخالفین بھی کھلے قدموں آئے اور اظہارِ یکجہتی کے اعلانات کیے۔
دور کیوں جائیں، اسی سال چھ جولائی کا افواج پاکستان سے یکجہتی کا پروگرام جو قائد کے وژن کے مطابق وقت کی سب سے اہم ضرورت تھا، اور اس کا انعقاد رمضان ہونے کی وجہ سے مشکل نظر آتا تھا لیکن پروگرام ہوا اور انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ ۔ یکجہتی کا ایسا اظہار کیا گیا جو اپنی مثال آپ رہا۔ ان تمام کامیابیوں کے پیچھے وہ فکر کارفرما تھی جسے کارکن نے اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ اور ہم یہ سب کس لیے کر رہے ہیں؟۔
ایم کیو ایم سے وابستہ ہر کارکن اس بات کو جانتا ہے کہ دہشت گرد قوتیں پاکستان کی سب سے بڑی دشمن ہیں اور یہی منفی طاقتیں انفرادی اور اجتماعی قتل عام کر رہی ہیں اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ ریاست کی چولیں ہِل چکی ہیں۔ قائد اعظم کا پاکستان لڑ کھڑا رہا ہے۔ اسے بچانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ عوام کی بھر پور حمایت کے ساتھ افواج پاکستان دشمن کے ساتھ نبرد آزما رہیں۔ گھروں، کونے کھدروں اور ہوٹلوں میں بیٹھ کر پریس کانفرنسوں کا وقت گزر چکا۔ اب جو بھی کرنا ہو گا ببانگ دہل ہی کرنا ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے طرح طرح کے سیکڑوں ہزاروں سوالات و اعتراضات کہ رمضان عبادت کا مہینہ ہے!! روزے میں کیسے ہو گا؟ کیونکر ہوگا؟ قیادت نے پوچھا، پاکستان کب بنا تھا؟ جواب: 27 رمضان 14 اگست! اگلا سوال تھا کہ کیا بغیر کسی جدوجہد کے بن گیا تھا؟ نہیں ہر گز نہیں، لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر۔ تو پھر اتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیے ہوئے وطن عزیز کو بچانا ہو اور ہمارے فوجی یہ سوچے بغیر میدان میں اتر رہے ہیں کہ سحری ملے گی یا نہیں؟ افطار بھی میسر ہو پائے گی؟ تو کیا ہم روزے اور رمضان صرف سحری اور افطاری کھانے میں گزاریں۔ !!!
یقینا نہیں اور جب سمجھنے والوں کے دل میں یہ بات اُتر گئی تو پوری تحریک ارادۂ مصمم سے میدانِ عمل میں اُتر پڑی اور یوں یہ نیٹ ورک چل پڑا۔ اور ہر رکن نے حسب توفیق رقم بھی جمع کی، حسبِ طاقت محنت کی، حسب تربیت نظم و ضبط قائم رکھا اور یوں لاکھوں کے اجتماع نے ایسا اظہار یکجہتی کیا جس نے یقینا اس عمل نے افواج پاکستان کے حوصلے بڑھائے کہ وہ تنہا نہیں۔ وہ میدان جنگ میں ضرور ہیں لیکن جنگ صرف میدان میں نہیں ہوتی، جنگ کے ساتھ ہونے والے اثرات سے نمٹنا پوری قوم کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
آفات قدرتی ہوں یا انسان کی لائی ہوئی ، ایم کیو ایم نے ہمیشہ بہادری شجاعت اور خدمت کے حوالے سے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ وہ خواہ 2005 کا زلزلہ ہو، 2010کا سیلاب ہو، بلدیہ فیکٹری کا حادثہ ہو یا طالبان کی جانب سے دیگر دہشت گرد کارروائیوں کے ساتھ عباس ٹائون کا سانحہ ہو جس نے بستی کی بستی اجاڑ دی۔ یہاں ہر جگہ ایم کیو ایم بلا تفریق رنگ و نسل و فقہہ و مذہب خدمات انجام دیتی نظر آتی ہے۔ کارکن سے لے کر ایم پی اے، ایم این اے اور وزیر و سینیٹر تک بلا تخصیصِ مرتبہ سبھی خدمتِ خلق میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ یہی ایم کیو ایم کا خاصہ ہے۔ اس کا نظم و ضبط ہر سوال کا جواب ہے۔
بات صرف اتنی ہے کہ ماضی میں ہونے والے نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد کے دور اندیش بیانات اور ان کی پیش گوئیوں سے صرفِ نظر نہ کی جائے بلکہ ان پیغامات کو جو اب ڈھکے چھپے بھی نہیں، انھیں سمجھنے کی کوشش کی جائے کیونکہ قوم تو پہلے ہی جاگیردارانہ اور وڈیرانہ نظام کی چکی میں پسی ہوئی ہے، ستم بالا یہ کہ دہشت گردی نے اس کے جینے کے راستے بھی معدوم کر دیے، ایم کیو ایم کی پالیسی عوام کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ جان کے تحفظ کو بھی یقینی بناتی ہے۔