حکمت کے تقاضے
تشدد کے راستے، قتل کے فتوے اور سروں کو تنوں سے جدا کر دینے کے اعلانات ایک ایسے۔۔۔
21 ستمبر 2012ء کو سرکاری طور پر تعطیل کا اعلان حکومتی ترجمانوں کے بقول اس لیے کیا گیا تھا کہ عاشقان رسولؐ پر امن احتجاجی مظاہروں کی وساطت سے مغربی دنیا، بالخصوص امریکا، پر یہ واضح کریں کہ حرمتِ رسولؐ ان کے نزدیک کیا معنی رکھتی ہے اور یہ کہ وہ آزادیٔ تحریر و تقریر کے من پسند' منافقانہ اور گمراہ کن نعروں کے جال سے باہر نکل کر اس معاملے کی اہمیت اور نزاکت کا ادراک کریں کہ یہ دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کا انتہائی جذباتی مسئلہ ہے۔
وفاقی وزیر اطلا عات قمر زمان کائرہ کے بیان کے مطابق، یوم عشق رسولؐ کا اعلان کر کے ان کی حکومت نے تمام عالم اسلام میں اولیت کا شرف حاصل کر لیا ہے کہ فی الوقت کسی اور اسلامی ملک نے سرکاری سطح پر کھل کر اس شرمناک اور گستاخانہ فلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جسے بنایا تو چند بدبختوں نے ہے لیکن جس کی نام نہاد اصولی حمایت کی آڑ میں ان کی کئی حکومتیں اور میڈیا صفیں باندھ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کا صحیح مؤثر اور نتیجہ خیز طریقہ کیا ہے اور اس پر کیسے عمل پیرا ہوا جا سکتا ہے! افسوس کی بات یہ ہے کہ سلمان رشدی، ڈنمارک کے ملعون کارٹونسٹ اور اس تازہ فلم کے پس پشت ظاہری اور خفیہ عوامل اور کرداروں کے بارے میں ہم نے بحیثیت قوم اور امت کبھی بھی اس حکمت سے کام نہیں لیا۔
جسے مومن کا گمشدہ مال کہا گیا ہے اور جس کا مظاہرہ خود سرور کائناتؐ کے مختلف مواقع پر اٹھائے گئے اقدامات اور کیے گئے فیصلوں میں ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے۔ مثال کے طور پر صلح حدیبیہ، میثاق مدینہ اور فتح مکہ کی تفصیل پر ہی ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے۔
تشدد کے راستے، قتل کے فتوے اور سروں کو تنوں سے جدا کر دینے کے اعلانات ایک ایسے اشتعال کے آئینہ دار ہیں جو اپنی بنیاد میں انھیں لوگوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں جو توہین رسالت کے ان مظاہروں کے اصل ذمے دار ہیں کیونکہ ان میں امت مسلمہ کا انتہائی جائز غم و غصہ تو ہے مگر وہ حکمت نہیں جو ان کا قلع قمع کر سکے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے دشمن جس قدر بدطینت ہیں اس سے بھی زیادہ چالباز ہیں۔ جب ہم اپنے نبی پاکؐ کی حرمت کی بات کرتے ہیں تو وہ بڑی صفائی اور ڈھٹائی سے یہ کہہ کر دامن بچا جاتے ہیں کہ ان کے قانون کے مطابق مذہب اور عقیدہ ایک انفرادی معاملہ ہے اور ریاست یا حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور پھر مثال کے طور پر ان تحریروں، تقرریروں اور تصویروں کی مثالیں دیتے ہیں ۔
جس میں خود ان کی مقدس اور مذہبی شخصیات یہاں تک کے انبیاء کرام تک کا کھلے عام مذاق اور تمسخر اڑایا گیا ہوتا ہے اور ان کے بارے میں ایسی واہیات فلمیں بنائی اور دکھائی جاتی ہیں کہ مذہبی تو کیا کوئی لا مذہب لیکن مہذب انسان جن کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اب یہ بات ایسی ہے کہ کچھ دیر کے لیے اعتراض کنندہ لاجواب سا ہو جاتا ہے اور اصل میں یہی وہ جگہ ہے جہاں مومن کی حکمت اور فراست کا امتحان شروع ہوتا ہے۔
ان کی بات کو جھٹلانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ ثبوت اور مثالیں دے کر ان کو جھوٹا ثابت کر دیں مثال کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر واقعی آپ آزادی تحریر و تقریر پر یقین رکھتے ہیں اور کسی شخص کے ذاتی عقیدے یا کسی معاشرے کے اجتماعی سطح پر حساس معاملات کو کوئی وزن، اہمیت یا تقدس دینے کے قائل نہیں تو پھر اسرائیل کے سلسلے میں ''ہولو کاسٹ'' کو ہر طرح کی تنقید سے بالاتر کیوں رکھا گیا ہے؟
آپ کی کسی شہزادی کی کوئی قابل اعتراض تصویر کہیں چھپ جائے تو فوری طور پر اس رسالے پر پابندیاں کیوں عائد کر دی جاتی ہیں اور یہ کہ ہائیڈ پارک میں آپ خدا اور اس کے رسولوں کا مذاق تو اڑا سکتے ہیں مگر ملکہ برطانیہ کے بارے میں کوئی اختلافی بات نہیں کر سکتے!
بظاہر یہ طریقہ جائز، منطقی اور مثبت نظر آتا ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جب کوئی طاقت ور جھوٹ بولتا ہے تو اس کی منافقت، حکمت عملی یا استثنا بن جاتی ہے اور تمام منافقین اپنے انفرادی تنازعات کو وقتی طور پر فراموش کر کے ایک ہو جاتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو روائت کا نام دے کر ان پر گفتگو کا سلسلہ بند کر دیتے ہیں۔
سو جب تک آپ کمزور اور زیردست ہیں آپ کے پاس ایک طریقہ تو یہ باقی رہ جاتا ہے کہ پہلے تو تمام ''متاثرین'' بھی ''انہی'' کی طرح اپنے باہمی اختلافات بھلا کر (وقتی طور پر ہی سہی) ایک ہو جائیں اور پھر انھی کی زبان اور Logic میں ان سے بات کریں کہ ہماری روایت اور مقدس معاملات کے بارے میں بھی اسی طرح کے استثنا کا ایک Cover دیا جائے جو انھوں نے اپنے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اپنی اس طاقت کو استعمال کریں جس سے براہ راست ان کی معیشت اور مفادات متاثر ہوتے ہوں۔ شنید ہے کہ ڈنمارک اور اس کے ہم نوائوں کی ہٹ دھرمی کے جواب میں سعودی عرب نے یہی طریقہ کار اختیار کیا تھا۔ ان سے تجارت ختم کی، ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا اور وہاں سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور یوں اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
اب کچھ باتیں موجودہ صورت حال اور یوم عشق رسولؐ کے نام پر کی گئی غلطیوں کے بارے میں کہ اس دن صبح سے شام تک جو کچھ ہوا، وہ عین اس منظر نامے کے مطابق تھا جو ہمارے دشمن اور توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے بدبخت چاہتے تھے۔
اس میں شک نہیں کہ ان مظاہروں میں شریک 98% لوگ اپنے دلی غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر آئے تھے لیکن یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ باقی کے دو فیصد لوگ جنہوں نے بینک لوٹے، سرکاری اور نجی عمارتوں اور گاڑیوں کو آگ لگائی اور ان عمارتوں اور جگہوں کی حفاظت کرنے والے پولیس اور سیکیورٹی کے لوگوں پر حملے کیے۔
وہ نہ تو عاشقان رسولؐ تھے اور نہ ہی ان کا اس معاملے سے کوئی جذباتی تعلق تھا اور دیکھا جائے تو اس طرح کے ہر موقع پر یہ پیشہ ور یا Planted تخریب کار، عوامی احتجاج کی آڑ میں تشدد، جلائو، گھیرائو اور لوٹ مار سے متعلق کاروائیاں کرتے ہیں۔
میرا ذہن یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ رسول کریمؐ کی حرمت کے نام پر گھر سے نکلنے والا کوئی شخص اے ٹی ایم مشینیں توڑنے یا عمارتوں کو آگ لگانے کا سامان ساتھ لے کر آ سکتا ہے۔
اسی طرح ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ غیر ملکی سفارت خانوں اور ان کے عملے کی حفاظت پاکستان کی حکومت اور ریاست دونوں کی ذمے داری ہے اور جو لوگ اس کام پر مامور ہوتے ہیں وہ اپنی منصبی اور قومی ذمے داری ادا کر رہے ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے بیرون ملک ہمارے سفارت خانوں کی حفاظت متعلقہ ملک اور اس کے سیکیورٹی اداروں کی ذمے داری ہے۔
کسی لیڈر شپ اور متفقہ پروگرام اور ایجنڈے کی عدم موجودگی نے ان تخریب کاروں کا کام مزید آسان کر دیا اور ہماری مشکلات بجائے گھٹنے کے اور زیادہ بڑھ گئیں۔ احتجاج کا جذبہ اور اظہار برحق لیکن اگر اسے حکمت کا تابع نہ کیا گیا تو دنیا میں تو جو پریشانی ہو گی سو ہو گی ہمارے آقا اور مولا بھی یقیناا س طرح کے اظہارِ عقیدت و محبت سے خوش نہیں ہوں گے۔